پاکستان زندہ باد

سردار قریشی  ہفتہ 9 دسمبر 2017

حسام سومرو میرے ساتھ کام کرتا تھا۔ ہم دونوں بطور سب ایڈیٹر روزنامہ ہلال پاکستان، کراچی سے وابستہ تھے۔ یوں تو یہ اخبار ایک وکیل منشی عبدالشکور نے قیام پاکستان سے سال بھر پہلے 1946 میں حیدرآباد سے جاری کیا تھا اور اسے تحریک آزادی میں حصہ لینے اور اپنا کردار ادا کرنے کا اعزاز بھی حاصل تھا، لیکن اپنے بانی کی وفات کے بعد اس نے بہت نشیب و فراز دیکھے۔ ایک وقت آیا جب سردار لطف علی دَل نے، جو پہلے ہی حیدرآباد سے روزنامہ خادم وطن نکال رہے تھے، اس کے مالکانہ حقوق حاصل کرلیے، تب یہ چار صفحات پر مشتمل شام کا اخبار ہوا کرتا تھا۔

میرے دوست عبدالرحمٰن جونیجو اس کے کرتا دھرتا تھے، وہی تن تنہا نیوز ایجنسی کی خبریں ترجمہ کرتے، ڈاک سے نامہ نگاروں کی بھیجی ہوئی خبروں کی سبنگ و ایڈیٹنگ کے ساتھ ساتھ ریڈیو مانیٹرنگ کرتے، ایڈیٹوریل نوٹ لکھتے اور مضامین کی نوک پلک بھی درست کیا کرتے تھے۔ وہ میری اپیرنٹس شپ کا زمانہ تھا، جو میں قاضی اکبر کے اخبار عبرت میں شیخ علی محمد مرحوم کی زیر ادارت کر رہا تھا، لیکن خادمِ وطن سمیت دیگر سندھی اخبارات کے لیے مضامین بھی ترجمے کیا کرتا تھا۔ جونیجو سے ملاقات ہوتی تو میں چھوٹتے ہی پوچھتا کیسا جارہا ہے آپ کا ون مین شو؟ اور وہ چپراسی کو چائے کے لیے کہتے ہوئے جواب دیتے کیا کریں یار پیٹ کے لیے کرنا پڑتا ہے۔

حسام سومرو کو میں نے پہلی بار وہیں دیکھا تھا، میرا ہمعمر تھا، جونیجو کے ساتھ والی کرسی پر اس کے ساتھ یوں چپک کر بیٹھتا تھا کہ لگتا تھا اونچا سنتا ہے، پان کھانے کی وجہ سے اس کے ہونٹ ہر وقت لال رہتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ حیدرآباد کی ہردلعزیز عوامی شخصیت میر رسول بخش تالپور نے اخبار خرید لیا اور یہ ایک بار پھر صبح کے اخبار کے طور پر شایع ہونے لگا۔

شیخ علی محمد نے میر صاحب سے (جنھیں وہ شیر سندھ کہا اور لکھا کرتے تھے) یاری نبھانے کی خاطر قاضی صاحبان سے قطع تعلق کرکے ہلال پاکستان کی ادارت سنبھال لی، جس کا دفتر اب بھی اسی گلی میں تھا، اور تو سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا بس ایک تبدیلی یہ آئی تھی کہ حسام سومرو کی ڈیوٹی بدل گئی تھی، یا یوں کہیے کہ اس کی ذمے داری بڑھ گئی تھی۔ میں نے کئی بار دیکھا کہ جوں ہی شیر سندھ کی جیپ دفتر کے باہر آکر رکتی، حسام سومرو بھاگ کر آتا اور میر صاحب سلام کے جواب میں اسے 100 روپے کا نوٹ اور ٹوکرا پکڑاتے جو لے کر وہ کراچی ہوٹل کے عقب میں واقع گوشت اور سبزی کی مارکیٹ جاتا اور فوراً ہی بھرا ہوا ٹوکرا اٹھائے لوٹتا، جس کے جیپ میں رکھتے ہی میر صاحب واپس روانہ ہوجاتے۔

مجھے عبدالرحمٰن پر بڑا ترس آتا اور اسے چھیڑنے کے لیے کہتا میر صاحب کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، حسام کے علاوہ دفتر میں اور لوگ بھی تو ہیں، اور وہ شرمندہ ہوکر گردن جھکا لیتا۔ 60 کے عشرے کے وہ دن گزرے مدت ہوگئی اور ہم 70 کے عشرے میں پہنچ گئے ، بھٹو صاحب نے 72 میں جب یہ اخبار اپنی پارٹی کے ترجمان کے طور پر کراچی سے جاری کیا تو میں اور حسام سومرو پھر یکجا ہوگئے۔

اخبار کی پہلی سالگرہ پر یکم مئی 73 کو جو خصوصی ایڈیشن شایع ہوا اس میں شامل میرے مضمون بعنوان ’’صحافت میں 16 سال‘‘ میں ہمارے حیدرآباد میں ساتھ گزارے ہوئے ان دنوں کا بھی ذکر تھا، حسام کو جو بہت بھولا تھا کسی نے کہا کہ میں نے اس پر کیچڑ اچھالا ہے، تو وہ اس کی باتوں میں آکر سراج صاحب سے میری شکایت کرنے چلا گیا، جو ہمارے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے اس کی شکایت سن کر کہا پاگل تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ مفت میں پبلسٹی ہوگئی، میرے بارے میں لکھتا تو میں اسے انعام دیتا۔ ان کے جواب سے مطمئن ہوکر اس نے واپس آکر الٹا مجھ سے معذرت کی۔

مشہور ٹی وی اداکار منظور قریشی کے پاس، جو ان دنوں ہمارے شفٹ انچارج تھے، تین روپے والا معمولی سا سگریٹ لائٹر ہوا کرتا تھا، حسام پتے کی بیڑی پیتا تھا، ایک بار جب اس کی ماچس کی ڈبیہ خالی ہوگئی اور اس نے بیڑی سلگانے کے لیے منظور سے لائٹر مانگا تو اس نے یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا کہ وہ بہت قیمتی اور حساس سگریٹ لائٹر ہے، بیڑی سلگانے سے خراب ہوسکتا ہے، میں نے جس آدمی سے 500 روپے میں اس کا سودا کیا ہے وہ مکر جائے گا۔

اب تو حسام کا لائٹر کے حوالے سے تجسس اور بڑھا اور اس نے خود وہ خریدنے کا فیصلہ کیا، میں اسے کہنے ہی والا تھا کہ پاگل آدمی یہ عام سا معمولی لائٹر ہے لیکن منظور نے آنکھ مار کر مجھے خاموش کرادیا۔ قصہ مختصر اس نے منت سماجت اور بارگین کرکے منظور سے وہ لائٹر 200 روپے میں خرید لیا اور شلوار کے نیفے سے مڑے تڑے نوٹ نکال کر ادائیگی کی۔ بعد میں جب اسے پتہ چلا کہ منظور نے اسے الو بنایا تھا تو بولا اﷲ قیامت میں اس سے پوچھے گا۔ وہ کاپی پیسٹ کرانے سے کتراتا تھا کہ کہیں کوئی غلطی ہوگئی تو نوکری جائے گی، اس کی باری آتی تو ایک ایک کے آگے ہاتھ جوڑتا کہ کوئی اس کی جگہ پیسٹنگ کرادے، پھر بولی لگتی اور وہ سب کو کیک پیسٹری منگوا کر کھلاتا، پیسٹر حضرات اس سے الگ بھتہ وصول کرتے اور کہتے حسام کی باری ہے تو وہی آکر پیسٹنگ کروائے، ہم کسی اور کے کہنے سے کاپی نہیں جوڑیں گے، بیچارے کو ان کا منہ بھی بند کرنا پڑتا۔

ایک زمانے میں سومروں نے سندھ پر حکومت کی تھی، اس حوالے سے دودو چنیسر کا قصہ بھی مشہور ہے، بدین ضلع میں روپا ماڑی کے نام سے ایک جگہ ہے جہاں ہر سال دودو سومرو کی برسی منائی جاتی ہے، ایک بار حسام نے برسی کی مناسبت سے مضمون لکھ کر سعدی صاحب کو دیا جو انھوں نے مروجہ طریقہ کار کے مطابق منظوری کے لیے سراج صاحب کو بھجوادیا، حسام کے پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے مضمون پر کراس لگ کر آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہیں چھپے گا، اس نے ڈیسک پر ہم سب سے فرداً فرداً احتجاج کیا کہ اس طرح اس کی بے عزتی کی گئی ہے۔ سب نے کہا ہم کیا کرسکتے ہیں جاکر ایڈیٹر سے بات کرو، ہوسکتا ہے مان جائیں۔ سب کے کہنے پر وہ چلا تو گیا لیکن الٹا لینے کے دینے پڑگئے، سراج صاحب نے اس سے پوچھا تم دودو کی نسل سے ہو کہ چنیسر کی؟ تو یہ لگا آئیں بائیں شائیں کرنے۔ بولا اسے پتہ نہیں، جواب ملا پہلے پتہ کرو پھر مضمون لکھنا۔

ریڈیو پاکستان کے سندھی پروگرام میں ہم سب کو باری باری 5 منٹ کا ٹاک پروگرام ملا کرتا تھا، حسام نے پروڈیوسر امداد اعوان سے کہہ سن کر پروگرام لیا، اس نے تقریر لکھ کر مجھے دکھائی تو میں نے مزاحاً کہا تقریر تو تم نے بہت اچھی لکھی ہے، بس آخر میں پاکستان زندہ باد لکھنا رہ گیا ہے، لکھ دو گے تو اس میں جان پڑجائے گی۔ میرے کہنے سے غریب نے لکھ دیا۔ تقریر لکھ کر خود ہی پڑھنا بھی پڑتی تھی، پروڈیوسر نے بھروسہ کرتے ہوئے مسودہ نہیں دیکھا اور اسے اسٹوڈیو بھیج دیا، جوں ہی حسام نے تقریر ختم کرکے پاکستان زندہ باد کہا وہ سر پیٹتا ہوا کمرے سے نکلا، بھاگتا ہوا اوپر اسٹوڈیو میں پہنچا اور حسام کو لعنت دکھا کر بولا تم نے یہ کیا کیا، خود تو ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ کردیے جاؤ گے، مجھے بھی نوکری سے نکلواؤ گے۔ سندھی پروگرام ہونے کا یہ فائدہ ہوا کہ اعلیٰ حکام میں سے کسی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا، سمجھتا تو نوٹس لیتا۔ خطرہ ٹل جانے کے بعد پروڈیوسر نے دفتر آکر ہمیں مبارکباد دی کہ حسام ملک کا صدر ہوگیا ہے، تقریر ختم کرکے کہتا ہے پاکستان زندہ باد۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔