او آئی سی، مسلم امہ کو درپیش خطرات

رشید جمال  جمعرات 14 دسمبر 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلم امہ، مسلم ممالک اور اسلام کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں ان الفاظ کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ٹرمپ کے بیانات سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے میں کس حد تک جاسکتے ہیں۔

یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، ٹرمپ کا مسلم امہ پر تازہ حملہ تصور کیا جارہا ہے، جب کہ امریکا نے اس عمل کو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیام امن کی نئی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اس فیصلے کو ایک تاریخی دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یروشلم ہماری امیدوں، خوابوں اور دعاؤں کا مرکز رہا ہے، یروشلم یہودیوں کا تین ہزار سال سے دارالحکومت رہا ہے، یہاں پر ہماری عبادت گاہیں رہی ہیں، ہمارے بادشاہوں نے حکمرانی کی ہے اور ہمارے پیغمبروں نے تبلیغ کی ہے۔

امریکی صدر کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے پر بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی جارہی ہے، مسلم ممالک نے بھی روایتی اور سرسری انداز میں اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مسلم امہ کی حیثیت سے یہ مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ امت مسلمہ کا ہے، لہٰذا سب سے اہم اور بنیادی ذمے داری مسلم ممالک کی نمایندہ تنظیم کی تھی کہ وہ اس پر بھرپور احتجاج کرتی، تمام مسلم ممالک کا ہنگامی اجلاس طلب کرتی اور آیندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرتی۔ مگر تاحال ایسا کچھ سامنے نہیں آیا۔

اوآئی سی مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس میں 58 اسلامی ممالک شامل ہیں۔ اس کے منشور میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کو اقتدار کا تحفظ کیا جائے گا، رکن ممالک کے درمیان یکجہتی کو فروغ دیا جائے گا، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ستمبر 1969ء کو وجود میں آنے والی تنظیم کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کا تحفظ دینا اور ان پر کیے جانے والے مظالم پر بھرپور آواز اٹھانا ہے۔

او آئی سی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان عیسائیت کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں، دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب اسلام ہے، دنیا بھر میں مسلم آبادی 1.92 بلین افراد پر مشتمل ہے، اس لحاظ سے دنیا کی 29 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسلم آبادی کے لحاظ سے 62 فیصد یعنی تقریباً ایک بلین مسلمان ایشیا میں آباد ہیں۔ انڈونیشیا میں 12.7 فیصد، پاکستان میں 11.0 فیصد، بھارت میں 10.9 فیصد اور بنگلہ دیش میں 9.2 فیصد مسلمان آباد ہیں۔ تقریباً 20 فیصد مسلمان عرب ممالک میں بستے ہیں، افریقہ، مصر اور نائجیریا میں کثیر مسلم آبادی موجود ہے، ترکی اور ازبکستان کا مسلم اکثریتی ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ 2030ء تک دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد 2 ارب تک پہنچ جائے گی۔ مسلم آبادی کے مقابلہ میں یہودیوں کی تعداد صرف 12 سے 14 ملین کے درمیان ہے، مگر وہ مسلمانوں سے زیادہ پاور فل ہیں، ان کی اکثریت امریکا اور اسرائیل میں رہائش پذیر ہے، جب کہ مسلمان دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

دو کروڑ سے کم یہودی پونے دو ارب مسلمانوں سے زیادہ مضبوط اور طاقتور کیوں ہیں؟ اس کی ایک بنیادی وجہ او آئی سی میں شامل اسلامی رکن ممالک کی ایک دوسرے کے ساتھ عدم تعاون اور آپس کے اختلافات ہیں۔ او آئی سی شامل ممالک متفقہ طور پر قرارداد تو منظور کرلیتے ہیں لیکن اپنی ہی منظور کی جانے والی قراردادوں پر عمل نہیں کرتے۔ او آئی سی کے اجلاس میں تمام ممالک ہم آہنگی اور یکجہتی کی حمایت میں تقریریں کرتے ہیں، لیکن عملاً نفاق اور فروعی اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں۔

ایران، افغانستان، شام، لبنان اور مصر سمیت جہاں جہاں امریکی جارحیت جاری ہے، بدقسمتی سے اسلامی ممالک ہی کسی نہ کسی شکل میں امریکا کی پشت پناہی کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جب عراق پر حملہ کیا تو ہمسایہ مسلم ممالک نے ہی ان کو اڈے فراہم کیے تھے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں، مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں، بھارت میں مسلمان اقلیتوں، امریکا اور دوسرے یورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی زندگی تنگ کی جارہی ہے، مگر مسلم امہ اپنے اختلافات میں اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ انھیں سنگین صورت حال کا اندازہ ہی نہیں ہے۔

یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے تناظر میں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ او آئی سی کا قیام اس وقت آیا تھا جب 21 اگست 1969ء کو اسرائیلی انتہاپسندوں نے مسلمانوں کی مقدس زیارت کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس واقعے کے بعد عالم اسلام کے رہنماؤںاور سربراہان نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ مسلمان ممالک کو سیاسی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور سائنسی شعبوں میں متحد کرنے کے لیے اجتماعی کوشش کی جائے اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کو فروغ دیا جائے گا۔ ایک بار پھر مسلمانوں کو متحد ہو کر نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مسلم امہ کو متحد کرنے کی اجتماعی کوششوں کا مقصد مسلمان ملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی مفادات کا تحفظ کرنا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک اور ان کی قیادت خواب خرگوش میں ہے۔ انھوں نے مصلحتوں کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ مسلم ممالک مصلحت پسندی اور خودغرضی کا شکار ہیں۔ اگر تمام مسلم ممالک یکسو ہوکر، ہندوستان میں مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم پر آواز بلند کرتے، کشمیریوں کی جدوجہد کی آزادی کے لیے کردار ادا کرتے، فلسطینوں پر اسرائیل کے ظلم و جبر کے خلاف علم اٹھاتے، روہنگیا کے مسلمانوں پر بربریت کے جو مظالم ڈھائے گئے ہیں، مسلم ممالک مل کر ٹھوس اور سخت جواب دیتے تو کوئی وجہ نہیں تھی دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ نہ رکتا۔ لیکن او آئی سی کے غیر فعال کردار اور مسلم ممالک کی آپس کے اختلافات کے باعث یہود و نصاریٰ متحد ہوکر مسلم ممالک کو کمزور کررہے ہیں۔ یہ صورت حال مسلم ممالک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف تمام مسلم ممالک کو مل کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس میں او آئی سی کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ دنیا بھر کے مسلم ممالک کی نمایندہ تنظیم ہے، اگر اس نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو پھر مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کون آواز بلند کرے گا۔

بدقسمتی سے ہم خود رواداری، برداشت اور تحمل کے راستے پر چلنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم خود انتہاپسندی میں الجھے ہو ئے ہیں، ہم آپس میں دست گریباں ہیں، مسلم ممالک ایک دوسرے پر دہشت گردی کے الزامات لگا رہے ہیں۔ بے پناہ جانی اور مالی نقصانات اٹھانے کے باوجود مسلم ممالک ہوش مندی کا مظاہرہ نہیں کررہے، اگر اب بھی فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر متحد نہ ہوئے تو بطور مسلم امہ طاغوتی طاقتوں کے ہاتھوں ہماری تباہی نوشتہ دیوار ہے یعنی دیوار پر لکھی جاچکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔