تحریک اور آئین

جاوید قاضی  ہفتہ 23 دسمبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

آخرکار بیس دن کے بعد شاید چار دنوں کے لیے ہی سہی میاں صاحب لندن سے لاہور پہنچ گئے۔ اب ان کے ذہن میںایک نئی بات آئی ہے، کہتے ہیں کہ آئین کی بالادستی کے لیے، انصاف کے ترازو کے احترام کے لیے سڑکوں پر آئیں گے۔ یہ بات میاں صاحب عین اس وقت کر رہے تھے جب فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ آئین کی بالادستی کی خاطر یا یوں کہیے کہ جمہوریت کے احترام کی خاطر سر خم کیے کھڑے تھے۔

سپریم کورٹ تو آئین تحریر کرتا ہے، اور آئین کہتا ہے کہ میں کیا ہوں، اور کیوں ہوں، اس کی تشریح سپریم کورٹ کرے گی۔ ہمارے خان صاحب کی پارٹی کا نام ہی تحریک انصاف ہے اور اب یہ تحریک ان کے لیے انصاف کی خاطر ہے یا نہیں، یہ بات بھی بحث طلب ہے۔ خان صاحب بھی پیچھے کیوں بیٹھیں، وہاں چوکا لگا تو یہاں چھکا۔ اگر وہ کورٹ کے خلاف تحریک چلائیں گے تو یہ کورٹ کی حمایت میں تحریک چلائیں گے۔ مجھے خوف اس بات کا ہے کہ میاں صاحب جھگڑا مول لینے سے پہلے کہیں تعطیل کے دن گزار کر واپس لندن ہی نہ چلے جائیں اور پھر ہم یہاں پر ملکہ پکھراج کا گانا سنتے نہ رہ جائیں کہ

’’وہ باتیں تری، وہ فسانے ترے‘‘

بہرحال میاں صاحب کا جملہ کمال کا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’ہم بھیڑ بکریاں اور پاگل تو نہیں کہ ہر فیصلہ مان لیں‘‘۔ تو میری بھی ایک عرض سن لیں کہ ہم بھیڑ بکریاں اور پاگل تو نہیں، آپ نے پہلے بھی ایک تحریک سپریم کورٹ کے خلاف چلائی تھی تو آپ کے اس وقت کے ایم این اے اور ایسے سیکڑوں کارکنوں نے سپریم کورٹ کی وہ نیلامی لگائی کہ جج صاحبان نے اپنے اپنے چیمبرز میں جائے پناہ لی، سب شیشے تک ٹوٹ گئے۔ ایسی تاریخ لکھی گئی کہ جیسے یہ بات کل کی ہو۔ اس وقت سپریم کورٹ نے کوشش کی اپنی آئینی حیثیت منوانے کی، تو آپ نے ججوں کو تقسیم کردیا۔

ہمارے شریف الدین پیرزادہ کیا کرتے، ایک چھوٹا سا چارٹرڈ طیارہ تھا، شریف الدین پیرزادہ اس میں تھے اور وہ کبھی سپریم کورٹ کی کوئٹہ بینچ پہنچتے تو کبھی لاہور۔ بالآخر الجہاد ٹرسٹ کیس جس کے روح رواں اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ تھے، سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں نے ان ہی کے کیس کو اتھارٹی بنا کر ان ہی کا فیصلہ ان کے خلاف صادر کرتے ہوئے ان کو گھر کی طرف روانہ کیا اور ہم اس منظر کو کچھ اس طرح سے دیکھتے رہے:

میرے دل میرے مسافر

ہوا پھر سے حکم صادر

کہ وطن بدر ہوں ہم تم

دے گلی گلی صدائیں

کرے رخ نگر نگر کا

کہ سراغ کوئی پائیں

کسی یار نامہ بر کا

پہلے چیف جسٹس گئے، پھر صدر پاکستان فاروق لغاری مستعفی ہوئے، پھر بات اتنی دور تلک تک گئی کہ فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت بھی مستعفی ہوئے اور میاں صاحب کا بھاری مینڈیٹ تھا کہ ٹھہرتا نہیں تھا۔ پھر آئی 12 اکتوبر 1998، ان کے بھاری مینڈیٹ کے سامنے پورا سسٹم ہی بیٹھ گیا۔ آپ پابند سلاسل ہوئے اور پھر جلا وطن۔

ان کے ایک سینیٹر سیف الرحمٰن بھی تھے، وہ جسٹس قیوم جو بے نظیر کے خلاف کیس سن رہے تھے، ان سے براہ راست فون پر بات کر رہے تھے کہ بے نظیر کے خلاف جلد سے جلد فیصلہ سنائیں۔ کہاں میاں صاحب اور کہاں ان کے انصاف کی تحریک۔ دراصل میاں صاحب  وزیراعظم بھی خود ہیں، پاکستان بھی خود، آئین بھی خود اور جمہوریت بھی۔ اور ہم ہیں کہ عبث بدنام۔ روز ہیں ڈھیروں سوال اور روز ان سوالات کی کھوج۔ شام کو صبح میں بدلنا اور صبح کو جوں توں کرکے شام میں۔

میاں صاحب کا دکھ ہے کہ سنبھلتا نہیں اور ضد ہے کہ ٹھہرتی نہیں، نہ چین ہے نہ آرام، یہ اسی بازگشت کی ایک کڑی ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ وہ چیف جسٹس کو نکالیں، صدر پاکستان کو نکالیں، چیف آف آرمی اسٹاف کو نکالیں تو سب صحیح ہے، مگر بات ہو ان کی تو انصاف نہیں ہوا۔ مگر ایک بات میاں صاحب کی درست ہے کہ جو حشر وزرائے اعظم کا اس ملک میں ہوا ہے وہ بھی ایک درد کی بڑی کتھا ہے۔

بنیادی طور پر میاں صاحب پاکستان کی جمہوریت کے صف اول کے لغوی معنوں میں ایک پاسباں ہیں۔ آپ کا جو بھی عوامی مینڈیٹ ہے، اس میں آپ عکس چشم تر ہیں۔ جو میاں صاحب کے ساتھ ہوا وہ اور بہت سے وزرائے اعظم کے ساتھ بھی ہوا، عوامی مینڈیٹ لینے والے تمام وزرائے اعظم کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا۔ کل آپ آمریت کے ساتھ تھے اور آج آپ جمہوریت کے رکھوالے ہیں۔

یہی کردار بھٹو کا بھی رہا، جو کردار ملا خوب نبھایا لیکن میری نگاہ بیٹنگ پچ پر ہے کہ سامنے سے آتی ہوئی بال کتنا سوئنگ کریگی تو پھر پہلے بیٹنگ کرنی چاہیے یا پھر بولنگ۔ شاید، معاملہ اس سے بھی پیچیدہ ہے اور خورشید شاہ کی بات میں بھی وزن ہے کہ یہ لوگ جو اداروں میں ٹکراؤ چاہ رہے ہیں، کہیں یہ اس ملک کے لیے بدشگونی تو نہیں۔ فرد تو آتے جاتے رہتے ہیں، فردکی کیا بات ہے، اگر آپ وزیراعظم نہیں تو خاقان عباسی تو ہیں، کل شہباز شریف ہونگے لیکن سوال یہ ہے کہ جمہوریت پٹڑی سے کب اتری اور پھر جنرل باجوہ نے جو اس ملک کے بیانیہ میں ببانگ دہل آکسیجن ڈالی ہے کہ فوج سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ اب مارچ میں سینیٹ کے انتخابات بھی ہونے جا رہے ہیں، DELIMITATION کے حوالے سے آئین میں 24th ویں ترمیم بھی ہوگئی اور جنرل الیکشن 2018 میں صرف ڈیڑھ مہینہ تعطیل کے بعد آخرکار ہونے جارہے ہیں۔

جمہوریت کو خطرہ ہے تو جمہوریت کے رکھوالوں سے۔ جمہوریت کو خطرہ تھا تو جمہوریت کے رکھوالوں کے ووٹروں سے اور جو شب خوں جمہوریت پر مارا گیا وہ اسی بات کا نتیجہ ہے۔ ایک تو میاں صاحب خودی کی بلندی میں تمام توانائی صرف کر بیٹھے ہیں اور وہ ملک کے واحد وزیراعظم رہے کہ اگر شیخ مجیب وزیراعظم بنتے تو وہ ان ہی کی طرز کے ہوتے، یعنی مشرقی پاکستان میں بھاری اکثریت اور مغربی پاکستان میں ایک بھی سیٹ نہیں۔  میاں صاحب کا سینٹرل پنجاب میں بھاری مینڈیٹ اور باقی ملک سے کوئی سیٹ نہیں، یعنی نل بٹا نل (19-20) کے فرق کے ساتھ۔ قومی اسمبلی سے تو DELIMITATION بل پاس ہوا مگر سینیٹ میں ان کو سب کی ضرورت پڑگئی۔

مارچ میں انتخابات ہو بھی جائیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میاں صاحب کو اکثریت حاصل ہوگی۔ سینیٹ میں اکثریت پانے کے لیے میاں صاحب کو پورے ملک کا لیڈر بننا پڑے گا، باقی بات رہی قومی اسمبلی کی تو میاں صاحب تو قومی اسمبلی کے اکثریتی لیڈر ہیں۔ مگر جمہوریت کے رکھوالوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جمہوریت میں جتنی اہمیتLower house  کی ہے، اتنی ہی تعظیم Upper house (سینیٹ) کی ہے۔

جاتے جاتے میاں صاحب کے لیے ایک اور عرض کرتا چلوں کہ ماضی میں سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت جو بھی فیصلے سنائے اس کی وجہ عوام کی گہری نیند تھی اور پھر وکلاء کی تحریک سے جو عدلیہ متحرک ہوئی اس کی وجہ بھی عوام کی بیداری تھی اور آج بھی جو عدلیہ متحرک ہے اس کی وجہ بھی قانون کی اور آئین کی بالادستی ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ آپ کے سامنے فوج کھڑی ہوئی ہے، ایک ایسا ادارہ جس نے آپ کو جمہوریت کو یرغمال بنانے سے روکا۔ آج جو ہم دہشتگردی کی آگ کی لپیٹ سے باہر ہیں اس میں فوج کا ہی کردار ہے۔ نیشنل ایکشن پلان، فاٹا کا بل اور سپریم کورٹ کی طاقت اس بات کا ثبوت ہے کہ پارلیمنٹ سپریم نہیں بلکہ آئین سپریم ہے۔

دراصل میاں صاحب ایوان زیریں کی بالادستی چاہتے تھے جو کہ خود آئین اور جمہوریت کی نفی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔