میاں صاحب کا دورۂ سعودی عرب

جاوید قاضی  ہفتہ 6 جنوری 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

میاں صاحب سعودی عرب سے پاکستان واپس لوٹ آئے۔ مگر ان کی زبان پر جو تیزی برپا تھی اس میں کمی نہ آئی۔ اس امر سے یہ بات عیاں ہوئی کہ ان کی سعودی عرب روانگی کسی بھی لحاظ سے پاکستان کی داخلی سیاست سے وابستہ نہ تھی۔ سعودی عرب میں بھی بہت کچھ بدلا ہے۔ نہ شاہ عبداﷲ بادشاہ ہیں، نہ وہ شہزادے صاحب اقتدار رہے۔ اس لیے ان کا یہ دورہ بنیادی طور پر بدلتے سعودی عرب میں دوبارہ سے تعلقات بحال کرنا تھے۔

جو کچھ قطر کے حوالے سے ان کے تعلقات تھے یا انھوں نے یمن کے حوالے سے پاکستانی فوج کے دستے کیوں نہ بھیجے، اس بات پر وہ موجود غلط فہمیوں کو دور کرکے آئے ہوں گے۔ جو نقطہ واضح نظر آیا وہ تھا میاں شہباز شریف کو میاں نواز شریف پر سعودی حکام کا فوقیت دینا۔ اور یہ تاثر دینے میں انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ بات خود میاں صاحب کو بھی خوب سمجھ آرہی ہوگی اور دوسری طرف یہاں جو چار لوگ ایوانوں میں بالخصوص سول افسر شاہی اس امید پر بیٹھے تھے میاں صاحب خود 2018 میں انتخابات جیتیں گے اور وزیراعظم بھی بنیں گے یا بالواسطہ اقتدار کی ڈوری ان کے ہاتھ میں رہے گی، ان کی ایسی سوچ پر پھر سے ایک نیا سوال ابھر آیا۔

شہباز شریف اپنی حیثیت اسٹبلشمنٹ پر باور کروا چکے ہیں کہ وہ مخاصمانہ و ٹکراؤ والی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ دوسری طرف عمران خان سیاست کو بہت تیز کر چکے ہیں۔ وہ براہ راست تصادم تو نہیں چاہتے لیکن وہ ٹکراؤ و گھیراؤ کی سیاست کے میدان پر میاں برادران و مسلم لیگ ن کو آڑے ہاتھوں لینا چاہتے ہیں۔ اس لیے میاں برادران و مسلم لیگ اس مزاحمتی انداز کا مزاحمتی انداز میں جواب دینا چاہتے ہیں۔ اور یہ آنے والے الیکشن کے لیے بیانیہ بھی بنائے گی اور یہ بیانیہ ان کے ووٹر مانگتے بھی ہیں۔

اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو میاں صاحب کہتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ لہو کو گرم رکھنا چاہتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے اس وقت ہمارا ملک سیاست کے اندر اس حد تک تیزی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا اور پاکستان میں سرد جنگ ایک نئی منزل کو پہنچی ہے، یہاں داخلی سیاست جس میں ٹکراؤ کی کیفیت بہت زیادہ ہے، وہ ملک کے لیے بہتر نہ ہوگی۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ میاں صاحب نے اپنے حالیہ بیان میں امریکا کے صدر ٹرمپ کا پاکستان کے خلاف حالیہ ٹوئٹ کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ جہاں تک میاں صاحب کا یہ کہنا ہے کہ 120 حلقے کے انتخابات عمران خان کے خلاف بھی تھے تو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف بھی جس میں میاں صاحب کو نااہل قرار دیا گیا تھا، ریفرنڈم تھا۔ اس طرح کا بیان میاں صاحب کی طرف سے زیادتی کے سوا کچھ نہیں۔

کورٹ کے فیصلے کسی ریفرنڈم کے محتاج نہیں ہوتے ۔ وہ تو آئین و قانون کے تناظر میں ہوتے ہیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے تاریخ کی شیلف میں پڑ جاتے ہیں اور وہی ان کی جگہ ہے جس پر آنے والے زمانوں میں یا آج بھی قانونی نقاد اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ حلقہ 120 میں اول تو میاں صاحب نے 2013 کے مقابلے میں اس بار کم ووٹ لیے جبکہ عمران خان کی پارٹی نے پہلے سے زیادہ ووٹ لیے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں صاحب نے 2013 میں جہاں سے ووٹ لیے تھے وہ حلقے اب بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کی پارٹی میں اتنی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی، ان کی قومی اسمبلی نمائندگان میں سے اتنے استعفیٰ نہیں آئے جس طرح سے ایسے حالات میں ماضی میں ہوا کرتا تھا۔

لیکن بلوچستان کی مسلم لیگ ہل گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں صوبائی اسمبلی میں موجود PML-N کے اراکین کی یہ مجبوری نہیں، وہ پہلے آزاد انداز میں جیتتے ہیں پھر اقتدار کی مناسبت سے پارٹی میں شامل ہوتے ہیں۔ سندھ میں مسلم لیگ کی بچی کچھی جو ایک دو سیٹیں تھیں وہ اب کی بار نہیں ہوں گی۔ ان کے اراکین GDA کا اتحاد بنا کر اپنی نشستیں بھی آزاد حوالے سے جیتنے کی کوشش کریں گے، کیوں کہ میاں صاحب کا یہاں پر سحر نہیں۔

لگ بھگ پندرہ جنوری تک صورتحال اور بھی واضح ہوجائے گی، جب یہاں طاہرالقادری کا دھرنا اگر 9 تاریخ تک کہیں نظر آتا ہے، کچھ دن بعد اس کے رنگ و حیثیت کا صحیح معنوں میں پتہ پڑے گا۔ تاریخی اعتبار سے دھرنے ان سالوں یا زمانوں میں نہیں لگائے جاتے جب انتخابات آپ کی دہلیز پر کھڑے ہوں۔

بہرحال میاں صاحب اب بھی وہی ہیں جو سعودی عرب کے دورے سے پہلے تھے، جب کہ شہباز شریف اپنی شخصیت کے حوالہ سے اور بھی قد آور ہو گئے ہیں۔ اس حد تک کہ مسلم لیگ ’ن‘ کے اندر طاقتور حیثیت بنا پائیں گے، ان کی قیادت میں دوبارہ سے چوہدری نثار جیسے اشخاص متحرک ہوں گے اور پارٹی کے اندر Hard-line  لکھنے والے دو قدم پیچھے کو جائیں گے۔

مئی کے آخر تک نیب کورٹ میں میاں صاحب کے خلاف ریفرنسز کے فیصلے بھی آنا شروع ہو جائیں گے، یقیناً ان فیصلوں پر ان کی اپیلیں بھی بنیں گی۔ کل ایک اور بات بھی میاں صاحب کی طرف سے آئی کہ اب وہ نیب کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔