Good touch and bad touch

شیریں حیدر  اتوار 14 جنوری 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ کچھ بہت برا ہوا ہے اسکول میں میڈم؟ ‘‘ اس پیاری سی نوجوان ماں نے تقریبا سرگوشی میں کہا-

’’ کیا برا ہوا ہے اور کہاں ؟ میں سمجھی نہیں !! ‘‘ میںنے اسے جواب میں سوال لپیٹ کر دیا –

’’ میری بیٹی پنکی نے بتایا ہے کہ آپ نے خود کلاسوںمیں جا کر بتایا ہے کہ اسکول میں کسی بچی کے ساتھ کسی نے کچھ برا کیا ہے ؟؟ ‘‘ اس نے سوال دہرایا-

’’ کیا ہم سمجھیں کہ ہماری بچیاں اسکول میںمحفوظ نہیں ہیں ؟ ‘‘ اس کے شوہر نے درشتی سے سوال کیا –

’’ یس سر… ‘‘ میں نے کہا، ’’ آپ کی بچیاں اسکول میں محفوظ نہیں ہیں … بلکہ میں آپ کو حقیقت بتاؤں کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں! ‘‘ ان دونوں کے چہروں پر حیرت کا لیپ ہو گیا ، ’’ نہ وہ اسکول میں محفوظ ہیں نہ گھر میں، نہ سڑک پر نہ مارکیٹ میں ‘‘

’’ اس بات سے آپ کا کیا مطلب ہے… کیا ہم اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنا چھوڑ دیں کیونکہ یہاں ایسے مرد موجود ہیں جو ہماری بیٹیوں پر بری نظر ڈالتے ہیں؟ ‘‘ ماں کی آواز، باپ کی آواز سے بلند ہو گئی تھی- ’’ اگر آپ کچھ سننے کے لیے تیار ہیں تو میں آپ کو وضاحت کر دوں ؟ ‘‘ چند دن پہلے میں نے نرسری اور کے جی کلاسوں کے سب سیکشنز میں جا جا کر باری باری بچوں کو اس بارے میں لیکچر دیے تھے- اس کے بعد سے پرنسپل اور اسکول کی انتظامیہ کافی والدین کو وضاحتیں دے چکی تھی اور کئی بار مجھے بھی دفتر طلب کیا گیا تھا کہ میںنے اتنے ’’ فحش ‘‘ موضوع پر بچوں کو لیکچر کیوں دیا تھا- میں انھیں تو وضاحت بارہا دے چکی تھی مگر یہ درخواست بھی کر رکھی تھی کہ اگر پنکی کے والدین اسکول سے اس سلسلے میں رابطہ کریں تو مجھے بتایا جائے اور اسی لیے وہ دونوں اس وقت میرے سامنے بیٹھے تھے- اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ذہن میں وہ فوری خیال آیا ہی پنکی کو دیکھ کر تھا-اس روز بادل اور سردی اس طرح تھی کہ جب میں صبح سویرے سات بجے اپنے دفتر پہنچی تو اس طرح اندھیرا تھا جیسے صبح کاذب کے وقت ہوتا ہے… سورج ابھی تک طلوع نہیں ہوا تھا، بجلی بند تھی، میں اپنے دفتر میں موجود تھی اور باہر سے معلوم نہ ہوتا تھا کہ کوئی اندر ہے-

میرے دفتر میں میری کرسی کے عقب میں دیوار اور باقی تین اطراف میں شیشوں کی کھڑکیاں اور دروازے تھے، میرا دفتر ایک ایسا مورچہ نما تھا جہاں سے مجھے باقی سب کچھ نظر آتا تھا، میں گیٹ کی طرف سے آنے والے راستے سے بچوں کو آتے ہوئے دیکھ رہی تھی- کچھ بچوں کو ان کے والدین میں سے کوئی چھوڑنے آرہا تھا اور کلاس تک چھوڑ کر جا رہا تھا- کسی بچے یا بچی نے گارڈ کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا، کسی نے اپنے ڈرائیور کا، کسی کو ملازم نے باقاعدہ اٹھا رکھا ہوتا تھا-

اسکول کے ملازمین کو سختی سے ممانعت کر رکھی تھی کہ بچوں سے فاصلہ رکھیں اور انھیں چھوئیں نہیں، مگر جب بچے خود ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ خاموش ہو جاتے تھے- اسکول میں نئے نئے آنے والے بچوں کو خواہ مخواہ میں اسکول کے ایسے ملازمین سے انسیت ہو جاتی ہے جو انھیں ان کی ٹیکسی یا وین میں سے اتار کر کلاس تک لاتے ہیں- ملازمین کو علم ہوتا تھا کہ میں observation post پر موجود ہوں اس لیے ان کا رویہ لیے دیے کا ہوتا تھا- پنکی کو ہر روز ایک اسمارٹ سا نوجوان چھوڑنے آتا تھا جو کہ میں سوچتی تھی کہ غالبا اس کا کوئی چچا یا ماموں ہو گا- اس روز میں نے اسی نوجوان کے گلے میں بازو حمائل کیے ہوئے دیکھا تھا، اس نے پنکی کو اٹھا رکھا تھا- پنکی اسے بار بار پیار سے بوسہ دیتی تو وہ بھی جوابی پنکی کے گالوں پر بوسہ دیتا اور پنکی کھلکھلا کر ہنس پڑتی!! پنکی ایک صحت مند سی اور اچھی اٹھان والی سات سالہ بچی تھی اور کے جی کی طالبہ تھی- اگرچہ اسے اب تک کلاس ون میں ہونا چاہیے تھا مگر کسی اور ملک سے آنے کی وجہ سے وہ اپنے ہم عمروں سے پیچھے تھی-

’’ جی کہیں ؟ ‘‘ باپ نے کہا اور دونوں ہمہ تن گوش ہو گئے-

’’ پنکی کو اسکول کون چھوڑنے آتا ہے؟ ‘‘ میںنے سوال کیا-

’’ ا س کا چاچو !! ‘‘ باپ نے فورا کہا-

’’ بلکہ ماموں !! ‘‘ ماں نے کہا-

’’ آپ دونوں میں کوئی کیوں نہیں … اور یہ کون سا رشتہ ہے جو کہ بیک وقت ماموں بھی ہے اور چاچو بھی؟ ‘‘ میںنے کہا۔

’’ ہم دونوں آپس میں کزنز ہیں اور وہ ہم دونوں کا مشترکہ کزن ہے!! ‘‘ ماں نے وضاحت کی-

’’ ہم دونوں بینکرز ہیں، رات دیر تک کام کرتے ہیں، صبح جاگا نہیں جاتا، ہمارا کزن ہی پنکی کو جگاتا ہے، تیار کرواتا ہے، ناشتہ کروا کر اسے چھوڑ جاتا ہے… پنکی اس سے بہت اٹیچ ہے، کئی بار تو سو بھی چاچو کے کمرے میں جاتی ہے!! ‘‘ باپ نے وضاحت کی اور میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے –

’’ کیا ؟؟ کس سے تیار کرواتا ہے وہ پنکی کو اور ناشتہ کون بناتا ہے؟؟ ‘‘

’’ سب کاموں کے لیے ملازمین ہیں، اس کے ماموں کو سویرے جلدی یونیورسٹی جانا ہوتا ہے تو وہ جاگتا ہی ہے، سو وہ ہمیں یہ فیور کر دیتا ہے!!‘‘

’’ وہ آپ کے گھر میں رہتا ہے؟ ‘‘ میںنے سوال کیا- جواب حسب توقع مثبت تھا، وہ پڑھتا تھا، اس کا تعلق گاؤں سے تھا اور ہوسٹل کی بجائے اس نے سوچا کہ ان کے پاس رہ لے- ’’ آپ دونوں یہ سمجھ لیں کہ جو بھی کچھ سوچ کر میں نے ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو بقول آپ کے وہ لیکچر دیے تھے وہ اصل میں آپ کی بیٹی پنکی کے لیے ہی تھے لیکن میں نے اسے اکیلے نہیں کہا بلکہ اس کے ساتھ کے سب بچوں کو خبردار کر دیا!!‘‘…’’ ہماری پنکی کیلیے کیوں ؟ ‘‘ ماں نے سوال کیا-…’’ آپ کی پنکی اس لیے … ‘‘ میں نے انھیں تھوڑی وضاحت کی-’’ کچھ ہوا ہو گا آخر تو آپ نے ایسا لیکچر اتنے چھوٹے بچوں کو دیا ہے؟ ‘‘ باپ نے کہا-

’’ میںنے چھوٹے بچوں کو یہ لیکچر اس لیے دیا تھا کہ کچھ ہو نہ جائے کہیں !!‘‘ میںنے دکھ سے کہا- دکھ اس لیے ہو رہا تھا کہ جن لوگوں کے بچوں کو اس معاشرے میں موجود بھیڑیوں سے بچانے کے لیے میں نے وہ لیکچر دیے تھے، ان والدین کو ہی اس خطرے کا احساس نہ تھا-

’’ آپ نے پنکی کو اپنے چاچو اور ماموں سے ہی ڈرا دیا ہے… وہ اب کسی پر کیسے اعتبار کرے گی؟ ‘‘

’’ اچھا ہے کہ وہ کسی پر اعتبار نہیں کرے گی!!‘‘ میں نے مسکرا کر کہا، ’’ یہی میرا مقصد ہے کہ وہ کسی پر اعتبار نہ کرے، اس دنیا کی کوئی بچی اپنے والدین کے سوا کسی پر اعتبار نہ کرے، حالات بہت برے ہو جائیں تو اپنے باپ پر بھی نہیں… بلکہ صرف بچیاں ہی نہیں ، بچے بھی اعتبار نہ کریں!!‘‘ ان دونوں نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا-…’’ کیا آپ کو لگتا ہے کہ پاکستان میں حالات اتنے برے ہیں اور ہم نے وطن واپس آنے کا فیصلہ غلط کیا ہے؟ ‘‘

’’ آپ نے کبھی پاکستان کے علاوہ دنیا میں ایسا کچھ ہوتے ہوئے نہیں سنا؟ ‘‘ میںنے سوال کیا –

’’ لیکن اتنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو آپ نے sex کا concept دے دیا ہے، بچے ذہنی طور پر وقت سے پہلے میچور ہو جاتے ہیں ایسی باتوں سے!! ‘‘

’’ میں نے بچوں کو sex کا نہیں بلکہ اچھے اور برے لمس کا شعور دینے کی کوشش کی ہے!! ‘‘ میں نے کہا، ’’ بچے معصوم ہوتے ہیں، وہ اتنا ہی سمجھتے ہیں جتنا کہ انھیں سمجھایا جاتا ہے- میںنے انھیں بتایا ہے کہ ان کے پھولوں جیسے جسم ان کی اپنی ایسی ملکیت ہیں جسے چھونے کا حق کسی اور کو نہیں ہے- اپنے ماں اور باپ کے علاوہ کسی اور کو تنہائی میں بوسہ نہ دیں، اکیلے میںکسی کی گود میں نہ بیٹھیں – اپنے استادوں اور قرآن پڑھانے والوں سے بھی فاصلہ رکھیں اور کسی کو اپنے آپ کو چھونے نہ دیں – اپنے ملازمین کے سامنے لباس بدلیں یا نہ ان سے لباس تبدیل کرنے میں مدد لیں- سوئمنگ پر بھی جائیں تو اپنے والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ جائیں- کسی کو اپنے لباس کو جسم سے علیحدہ نہ کرنے دیں ، اگر کوئی انھیں جسمانی طور پر تنگ کرے تو وہ چیخیں، اگر کوئی ارد گرد نہ بھی ہو تو وہ چیخیں… کوئی اور سنے نہ سنے، اللہ ضرور سنے گا!! ‘‘ دونوں خاموش تھے- ’’ آپ دونوں سے درخواست ہے کہ آپ کے گھر میں موجود نوجوان لڑکا پنکی کا محرم نہیں ہے مگر اپنے محرم رشتوں پر بھی اعتبار نہ کریں ، اپنے پیارے پیارے بچوں کو ان کے پاس تنہا نہ چھوڑیں!!‘‘

’’ مگر ہم دونوں مصروف ہوتے ہیں… ہماری مجبوری ہے!! ‘‘ ان دونوں نے لگ بھگ ایک جیسے الفاظ میں اکٹھے کہا-’’ دنیا کی کوئی مجبوری ایسی نہیں ہوتی کہ جس میں اپنے بچوں اور بالخصوص چھوٹے بچوں کے معاملے میں ماں باپ غافل ہو جائیں !‘‘ میںنے انھیں حقیقت کا آئینہ دکھایا-’’ دنیا چھوٹے بچوں کیلیے اتنی خطرناک جگہ ہیں تو کیا مائیں بچے پیدا کرنا چھوڑ دیں ؟ ‘‘ پنکی کی ماں نے گرویدہ لہجے میں کہا-

’’ بچے تو دنیا میں آتے رہیں گے… پیدا کرنے والی ذات اللہ تعالی کی ہے، وہ انھیں دنیا میں بھیجتا ہے، والدین کی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ ان بچوں کی دیکھ بھال کریں، ان پر کڑی نظر رکھیں، انھیں زمانے کے سرد اور گرم سے بچا کر رکھیں، مائیں اپنے بیٹوں کو بھی ایسی تربیت دیں کہ وہ کسی کی بیٹی پر بری نظر نہ ڈالیں !!‘‘ تھوڑی رد و کد کے بعد وہ میرا شکریہ ادا کر کے چلے گئے-

( جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔