توہین عدالت

حمید احمد سیٹھی  اتوار 14 جنوری 2018
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

اگلے روز جسٹس سید جمشید علی شاہ کے دفتر سے باہر نکلا۔ Contempt of Court Laws کے قانون پر کتاب مستعار لے کر اٹھا تو یاد آیا کہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے حکمران اپنی عہدے کی ٹرم پوری کرکے دفتر سے باہر نکلتے ہیں تو ذاتی گاڑی یا موٹر کیب میں گھر کو واپس جاتے ہیں اور اگر سزا یافتہ ہوکر عدالت کا کمرہ چھوڑیں تو بذریعہ پولیس وین جیل بھجوائے جاتے ہیں۔ جب کہ ہمارے حکمران عرصہ دراز تک وزارت، وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کی کل ملا کر چھ باریاں لے چکنے کے بعد عدالت عظمیٰ سے سزا پانے پر فارغ کیے جائیں تو تیس چالیس گاڑیوں کے کارواں اور پروٹوکول کے ساتھ جی ٹی روڈ پر روانہ ہو کر جگہ جگہ تقریروں میں توہین عدالت کے مرتکب ہوتے اور رندھی ہوئی آواز میں پوچھتے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 204 میں توہین عدالت کے ضمن میں تحریر ہے کہ عدالت سے مراد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ہیں جو توہین کے مرتکب ہر اس شخص کو سزا دینے کی مجاز ہیں جو عدالتی حکم پر بیہودہ زبان استعمال کرے، دخل اندازی کرے، اس میں رکاوٹ ڈالے، اہانت کا مرتکب ہو، جج یا عدالت کے خلاف نفرت پھیلائے یا تضحیک آمیز رویہ اختیار کرے۔

توہین عدالت کے موضوع پر اظہار خیال کا ارادہ کچھ عرصہ قبل ایک سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والے ملزم اور اس کے حواریوں کے ردعمل پر جسے ہرزہ سرائی بھی کہا جا سکتا ہے، کو مسلسل پڑھنے اور سننے کے بعد ہوا۔ طویل عرصہ تک کیس کی سماعت اور الزام علیہ کو صفائی کا پورا موقع دینے کے بعد عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم نواز شریف کو صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر تا عمر نااہل قرار دیا تھا۔

سابق وزیراعظم کی ریویو پٹیشن بھی عدالت نے سماعت کے بعد خارج کر دی تو میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں سمیت وزراء نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف گفتنی و ناگفتنی الفاظ و الزامات کا محاذ کھول دیا۔

توہین عدالت تین قسم کی ہوتی ہے فوجداری، عدالتی اور سول۔ اس وقت متاثرین کی طرف سے تیسری اور کسی حد تک دوسری جب کہ بعض قانون دانوں کے نزدیک ہر سہ قسم کی توہین کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ عدالتی فیصلوں پر رائے زنی ہو سکتی ہے لیکن اس کی بھی حدود ہیں اور متعین حدود سے تجاوز قابل سزا ہو جاتا ہے۔ اگر فیصلوں اور عدالتوں پر تنقید بے لگام اور دشنام طرازی ہو جائے تو نظام عدل برباد ہو جائے گا اور کوئی بھی مہذب معاشرہ اسے برداشت کرنے کا رسک نہیں لے سکتا۔

عدلیہ اور ججوں پر ناجائز اور توہین آمیز تنقید پر توہین عدالت کے قانون کو فوری حرکت میں آنا چاہیے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایک سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت پر ہی سزا ہوئی تھی۔ پاک و ہند کی تاریخ میں K.L.Gauba کو توہین عدالت پر سزما ہوئی تھی۔ کنھیا لال گابا خود ایک قابل وکیل، رائٹر اور امیر کبیر باپ کا بیٹا تھا۔

مسٹر جسٹس سر ڈگلس ینگ نے اس کے باپ کو سزا دی تھی۔ کے ایل گابا جو معروف اور قابل وکیل تھا اس نے مسٹر جسٹس سر ڈگلس کو کرپٹ اور بدکردار بتا کر کتاب لکھ ماری جس پر اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی اور پھر سزا ہوئی۔ قابل اور خوش حال مسٹر گابا جو اسلام قبول کر کے خالد لطیف بھی لکھنے لگا تھا اتنے برے حال کو پہنچ گیا کہ لوگوں نے اسے فٹ پاتھوں پر سوتے دیکھا۔ یہ واقع قانون کی توہین عدالت کی بہت سی کتب میں تحریر ہے۔

توہین عدالت کا ایک کیس 1961ء کی PLD میں رپورٹ ہوا ہے جو حکومت پاکستان کی لاء منسٹری کے سیکریٹری سر سنیلسن سے متعلق ہے۔ لاء سیکریٹری نے راولپنڈی میں سیکشن آفیسرز سے خطاب کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے جن کا نوٹس مغربی پاکستان کی ہائی کورٹ نے لیا اور اسے طلب کرکے نوٹس دیا۔ لاء سیکریٹری کا جواب تسلی بخش نہ تھا۔ لہٰذا مسٹر جسٹس شبیر احمد Mr Justice Ortecheson اور مسٹر جسٹس یعقوب علی خاں پر مشتمل بنچ نے لاء سیکریٹری کو دو ہزار روپے جرمانہ اور ادا نہ کرنے کی صورت میں ایک ماہ قید کا حکم سنایا۔

یہ دو مثالیں بہت سے توہین عدالت کے مقدمات میں سے اس لیے پیش کی ہیں کہ ان میں سے ایک ملزم امیر قانون دان تھا جب کہ دوسرا پاکستان کے محکمہ قانون کا سیکریٹری۔ مطلب یہ کہ قانون امیر ہو یا غریب چھوٹا ہو یا کوئی بڑا آدمی سب کے لیے برابر ہے۔

میرے پیش نظر اس وقت ملک کے موجودہ اور سابق وزیر اعظم کی مجمع عام کو مخاطب کرتے ہوئے تقاریر کے تراشے ہیں جو پاکستان کے اخبارات کے صفحہ اول سے اٹھائے گئے ہیں جو کچھ یوں ہیں:

(1) ’’نواز شریف آج بھی وزیراعظم۔ نااہلی کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں جائے گا۔‘‘

(2) ’’میرے وزیراعظم آج بھی نواز شریف ہیں ان کے خلاف فیصلے ردی کی ٹوکری میں جائیں گے۔‘‘

(3) ’’نواز شریف ہمارے لیڈر ہیں اور رہیں گے، عدالتی فیصلہ ردی کی ٹوکری میں جائے گا۔‘‘ (وزیراعظم خاقان عباسی)

(4) ’’سپریم کورٹ کا ترازو انصاف کا ہونا چاہیے نہ کہ تحریک انصاف کا۔ پہلے منصف بحالی کی تحریک چلائی اب انصاف بحالی کی چلائیں گے۔‘‘

(5) ’’پانچ ججوں کے فیصلے سے ملک کا ستیاناس ہونا شروع ہو گیا۔ ریفرنس انتقام پر مبنی ہیں، ایسا احتساب بالکل نہیں مانتا۔‘‘ (سابق وزیراعظم نواز شریف)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔