روم کی خواتین اور لے پالک بلیاں

شیخ جابر  پير 25 مارچ 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

اٹلی میں مغربی تہذیب نے عجیب ستم ڈھایا ہے۔ ماں باپ اولاد سے اکثر محروم ہیں ۔ دونوں کے پاس نہ وقت ہے نہ دولت۔ لہٰذا ماؤں کی ممتا نے محبت کے عجیب و غریب طریقے اختیار کیے ہیں۔ روم کے گلی کوچوں میں عورتیں اپنی ممتا کی پیاس لاکھوں بلیوں کو دودھ پلا کر بجھاتی ہیں۔ ریاستی وغیر ریاستی ذرایع و وسائل بلیوں کے لیے وقف ہیں۔عورتوں کی ایک سے زائد انجمنیں ہیں جو بلیوں کی خدمت اور حقوق کے لیے وقف ہیں۔ عورتیں اپنے بچوں کو پیدا ہونے سے روکتی ہیں کہ انھیں دودھ نہ پلانا پڑے لیکن جانوروں کی خدمت میں کوشاں ہیں۔

اس کی تفصیل ہوش رُباء ہے۔ گارجین سروس اور دیگر خبریہ حوالوں کے مطابق اگر آپ روم میں صبح سویرے بے دار ہوں تو ایک حیرت انگیز نظارا آپ کا منتظر ہو گا۔’’آپ دیکھیں گے کہ ایک ’’گلیڈیئیٹر‘‘ دو زانو بلیوں کی خدمت میں دہی کا پیالا پیش کر رہا ہے۔‘‘ یہ آج کا روم ہے۔ آپ کو اندرونِ شہر آوارہ بلیوں کی کثیر تعداد نظر آئے گی۔اور ایک فوج ہوگی جو اِن بلیوں کی خدمت پر مامور دکھائی دے گی۔ یہ فوج زیادہ تر خواتین سپاہیوں پر مشتمل ہے۔یہ خواتین ان بلیوں کی دیکھ بھال بالکل اپنے بچوں کی طرح کرتی ہیں۔گویا یہ اُن کی لے پالک بلیاں ہیں۔

اندرونِ شہر جہاں اِن آوارہ اور جنگلی بلیوں کا قبضہ ہے۔ وہ جگہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ یہاں قدیم روم کے کھنڈرات اور آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔عیسوی تقویم کے مطابق یہ مارچ کا مہینہ ہے۔ایک رائے کے مطابق مارچ کی وجہئِ تسمیہ 15مارچ44قبل مسیح کا وہ واقعہ ہے کہ جس میں عین اسی مقام پر کہ جہاں آج ایک اندازے کے مطابق 3 لاکھ سے زائد بلیاں اینڈتی پھرتی ہیں،’’گائیس جولیس سیزر‘‘ کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ شیکسپئیر نے ہمیں یقین دلا دیا ہے کہ ’’بروٹَس‘‘اور اس کے ساتھی ’’سینیٹرز‘‘ نے قدیم روما کی’’سینیٹ ‘‘ کے قریب ’’فورم‘‘ میں ’’سیزر‘‘ کو قتل کیا تھا۔

جدید مورخین کا خیال ہے کہ ’’سیزر‘‘ کو ’’مومپائے‘‘ کے تھیٹر کے قریب بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔وہ مقام ’’فورم‘‘ سے قریباً ایک کلو میٹر دوری پر ہے۔آج یہ مقام ’’لارگو دے توری ارجینتینیا‘‘کہلاتا ہے اور بِلّیوں کے زیرِنگیں ہے۔ان بِلّیوں کی رکھوالی اور دیکھ بھال برسوں سے جاری ہے۔اِس دیکھ ریکھ کی ذمے دار زیادہ تر خواتین اور اُن کی بنائی ہوئی انجمنیں ہیں۔یہ ’’گتارے کیت لیدیز‘‘ کہلاتی ہیں۔

مارما ڈیوک پکتھال نے اپنے خطبات ’’اسلامک کلچر‘‘ میں مغربی تہذیب کے بارے میں یہی کہا تھا۔ گارجین کی خبر اس بیان کی توثیق ہے۔کیا یہ انسانیت ہے کہ بچے پیدا نہ کیے جائیں؟ جانوروں سے محبت کی جائے۔ افریقہ اور ایشیا میں کروڑوں بچے بھوک سے مررہے ہیں اور روم میں لاکھوں بلیوں کو بہترین کھانا، دودھ، عمدہ رہائش گاہیں، علاج معالجے کی سہولتیں حاصل ہیں۔اگر کچھ محقق اس تہذیب کو وحشت، بربریت اور بہیمیت کہتے ہیں توکیا غلط کہتے ہیں ؟

مغرب کی ماؤں نے لذت کے فلسفے کے تحت بچوں کی پیدائش کے عمل میں درپیش تکالیف سہنے سے انکار کر دیا ہے۔یہ لوگ بچے کو اپنے اور اپنی مسرت و لذات کے درمیان حائل دیوار سمجھتے ہیں۔ پھر وقت اور پیسے کا مسئلہ الگ ہے۔ آخرت کا تصور ان کی تہذیب میں شامل نہیں ہے ، لہٰذا وہ بعد از موت زندگی کے قائل نہیں اور اسی زندگی کو حاصل سمجھ کر اسے ضایع کرنا نہیں چاہتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ نہ مرنے پر تیار ہیں نہ قربانی دینے پر ۔ بچے کی پیدائش سے لے کر بلوغت تک کا زمانہ جاں گسل زمانہ ہوتا ہے جو ہر لحظہ قربانی کا طلب گار ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو حاسد و حریص بناکر اس سے قربانی کا جذبہ چھین لیا ہے۔ قربانی کی عظیم ترین علامت ماں ہے اسی لیے ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اسلام میں ماں کا درجہ باپ سے بلند ہے اور میراث میں باپ اور ماں کا حصہ برابر ہے۔ باپ پر ماں کی یہ فضیلت صرف اس کی قربانیوں کا صلہ ہے ۔ ایثار و قربانی کے بغیر اولاد کے دکھ درد برداشت کرنا ممکن نہیں۔آزاد خیالی، روشن خیالی،حقوقِ انسانی، جمہوریت اور سرمایہ داریت کے فلسفے کے تحت لذت پرستی زندگی کا مقصد بن جاتی ہے۔ اور یہ ایثار و قربانی کی ضد ہے۔یہ انسانیت کی موت ہے۔

اٹلی کی قدیم نسل جو وہاں صدیوں سے آباد تھی تیزی سے ختم ہورہی ہے۔اٹلی کی خواتین بلیوں کی ٹہل سیوا اور اُن کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے تو مستعد ہیں، لیکن اپنی نسل آگے بڑھانے پر تیار نہیں۔آج اٹلی بارآوری کی اصطلاح میں200نمبر پر ہے۔اعدادو شمار کی زبان میں 1.4 بچہ فی عورت۔نسلِ انسانی کی بقا کے حوالوں سے یہ ایک خطرناک سطح ہے۔یہ ہی سبب بن رہا ہے اٹلی میں قدیم نسل کے خاتمے کا۔ جوانوںاور نوجوانوں کے مقابلے میں ناتواں اور بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔قرضوں میں لِپٹی ڈولتی ڈوبتی معیشت ناتواں بوڑھوں کے مصارف کے بوجھ تلے ہانپ رہی ہے۔

خواتین نے تو ممتا کی تسکین کے لیے لے پالک بلیوں کا سہارا ڈھونڈ لیا ہے۔بوڑھے ’’مَردوے‘‘ پوتے پوتیوں اور اُن کی بے بہا محبت کا بدل کہاں تلاش کریں؟مشین اور ٹیکنالوجی روبوٹ اور ٹیسٹ ٹیوب بے بی اولاد کا بدل نہیں ہوسکتی۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ معیار زندگی بلند کرنے کا لازمی نتیجہ شرح افزائش میں کمی ہے۔ اور سادگی کا نتیجہ شرح افزائش میں اضافہ۔ شرح افزائش میں کمی کے باعث جب نسلیں پیدا نہ ہوں گی تو معیشتیں کیسے زندہ رہیں گی۔جہاں جہاں مغربی تہذیب کو غلبہ حاصل ہوا۔ وہاں آبادی تیزی سے کم ہوتی گئی۔

جن ملکوں میں آبادی زیادہ ہوتی ہے، وہاں خاندانی منصوبہ بندی پر اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں تاکہ وہاں کی شرح آبادی کم ہوجائے ۔ مغرب کے لیے آبادی کا بم مہلک خطرہ نہ بن سکے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے تمام اداروں اور تنظیموں کو اسی لیے اربوں روپے کی امداد فراہم کی جاتی ہے۔

جینی ڈکسی (8جولائی1947) ایک پروٹو پوسٹ ماڈرن لکھاری ہیں۔آپ اگرچہ عام ڈگر سے ہٹ کر لکھتی ہیں لیکن خوب ہی سوچتی اور خوب ہی لکھتی ہیں۔آپ کو اپنی ایک کتاب پر ’’تھامس کُک ٹریول بک ایوارڈ‘‘ بھی ملا ہے۔آپ نے کچھ عرصہ قبل ہی روم کا دورہ کیا۔وہاں آپ کو بلیوں پر ممتا نچھاور کرتی خواتین نظر آئیں۔ یہ منظر اِس درجہ متاثر کُن تھاکہ وہ بھلا نہ پائیں۔انھوں نے اِس کا تذکرہ اپنے بلاگ پر کیا۔یہ پورا ایک مضمون ہے۔اِس مضمون میں وہ خواتین کے ایثار و قربانی کو سراہتی ہیں۔

بلیوںکی خدمت کو وہ ایک آفاقی کام کے طور پر دیکھتی ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ میں ریلنگ سے ٹِکی گھنٹوں ان بلیوں کو دیکھا کرتی تھی کہ وہ کس آزادی اورسر مستی سے بِلا خوف و خطر گھوم پھر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ’’جینی ڈکسی‘‘ کی ممتا نہیں تو اور کیا ہے؟

یقیناً روم میں بلیوں کے ساتھ پیش آنے والا یہ معاملہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ جب اتنی کثیر تعداد میں خواتین بلیوں کی خدمت میں جُت گئی ہیں۔یقیناً 1988میں روم میں جانوروں کے لیے بنائے گئے قوانین کا بھی اس میں بڑا عمل دخل ہے۔لیکن سوال پھر بھی یہ ہے کہ روم ایک قدیم ترین ملک ہے۔ روم کی تمام تر تاریخ اس طرح کے انسانی رویے،اس طرح کے ممتا کے اظہار سے خالی

کیوں نظر آتی ہے؟ہمارے خیال میں اس کی وجہ آج کے رومیوں کا فطرت سے اغماض ہے۔آج سے پہلے روم کی عورتوں کی گود اور کوکھ کبھی اتنی خالی بھی تونہ تھی۔عورت کی گود خالی رہنے کے لیے نہیں بنی۔ اپنا نہیں بلی یا کتے کا بچہ ہی سہی۔

آپ عورت کو آزادی کے پُر فریب نعروں میں اُلجھا کر اُسے مارکیٹ کی جِنس تو بنا سکتے ہیں۔لیکن اُس سے اُس کی ممتا نہیں چھین سکتے۔ممتا اس کائنات کا طاقت ور ترین جذبہ ہے۔اسے کسی پُر فریب نعرے یا جھانسے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔