بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں…

نسیم انجم  منگل 26 مارچ 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

سابقہ مشرقی پاکستان (جو کہ بنگلہ دیش بن چکا ہے) اور موجودہ حالات میں کافی مماثلت نظر آتی ہے، سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہے، جو ماضی میں وہاں ہو چکا ہے اور اس کے بھیانک نتائج ہم سب کے سامنے آ چکے ہیں اسی حوالے سے کرنل سید شفاعت علی (ر) کی کتاب غبار عسکری سے چند اقتباسات نذر قارئین۔

’’مشرقی پاکستان کی گرتی ہوئی صحت کو سنبھالنے کے لیے کئی نسخے استعمال کیے گئے، ڈاکٹر یعقوب کا نسخہ مریض کو پلایا ہی نہیں گیا، اس کے بعد ڈاکٹر کا نسخہ کام نہ آیا یہ زیادہ ثقیل تھا۔ آخر میں حکیم نیازی کو بھیجا گیا، وہ کشتہ شباب آور اور بہت سی جڑی بوٹیاں لے کر پہنچ گئے لیکن ان کے پاس پرچہ ترکیب استعمال نہ تھا لہٰذا مریض کی صحت میں افاقہ نہ ہوا۔

اگست 1971میں لیفٹیننٹ جرنل امیر عبداﷲ خان نیازی کمانڈر ایسٹرن کمان کی حیثیت سے ڈھاکا پہنچ گئے، اس وقت مشرقی پاکستان کی صحت کافی خراب ہو چکی تھی، مکتی باہنی کا کینسر پھیل چکا تھا، جب جنرل نیازی آئے تو ان کو دیکھ کر مشرقی پاکستان مسکرایا۔ حکام سمجھے کہ مریض کا حال اچھا ہے۔

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

ان کے آنے کے تھوڑے دن بعد ہی سابقہ گورنر عبدالمومن خان کو گولی کا نشانہ بنایا گیا، دوسرے دن ایک منسٹر صاحب کی کار کو جلایا گیا، تیسرے دن ٹی وی اسٹیشن پر حملہ ہوا، چوتھے دن اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور گورنمنٹ کی بلڈنگوں پر حملے ہوئے، پانچویں دن بجلی کے ٹرانسفارمر جلائے گئے، چھٹے دن ان مغربی پاکستانیوں کا قتل ہوا جو ٹرانسفارمر ٹھیک کرنے آئے تھے، مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ پنجابی سپاہی اور افسر مارے گئے، ہم فوجیوں کی نگاہ آیندہ کل پر نہ ہوتی تھی بلکہ اس لمحے پر ہوتی جو ہمارے سامنے ہوتا تھا، لیکن ہم خوش تھے کہ اس کے عادی ہو چکے تھے، ہم ٹرینڈ ہو چکے تھے اور اپنی اس ٹریننگ کے لیے مکتی باہنی کے شکر گزار تھے، انھوں نے ہی تو ہم کو ٹرینڈ کیا تھا۔

ستمبر 1971 میں میری روز مرہ زندگی کا خاکہ کچھ ایسا تھا کہ صبح ہی صبح اپنے گنوں کا گشت کرتا اور اگر ان کے دفاع میں کچھ کمی آتی تو انھیں ٹھیک کرتا، مارشل لاء کے دفتر میں جدید ترین ہنگامے پر کچھ نہ کچھ عمل کرتا، جلسوں، جلوسوں کو پیروی کرتا، شام کو ماسٹر کمانڈ کی چھت پر بیٹھ کر اپنے تمام افسروں کے دل کا غبار نکالنے میں مدد کرتا، عجب وقت ہوتا سامنے سورج غروب ہوتا نظر آتا ہمیں سورج پر بھروسہ نہ تھا کہ کل نکلے گا بھی یا نہیں۔ اس وقت میں حالات حاضرہ پر اپنے افسروں کو بریف کیا کرتا تھا کہ انڈین آرمی اور مکتی باہنی نے اپنے ’’ہنی مون‘‘ کے دوران کتنے پاکستانیوں کو کالی مائی کی بھینٹ چڑھا دیا۔

اکتوبر 1971 میں ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایک اسٹیٹمنٹ پر زور دیا جس میں انھوں نے “Proud support to East Bangal” کی گارنٹی دی تھی اس وقت ہمیں یہ احساس ہوا کہ مشرقی پاکستان کے کچھ علاقے ایسے تھے جن پر مکتی باہنی مکمل طور پر قابض ہو چکی تھی۔ ہمیں یہ بھی احساس تھا کہ پاکستانی فوج ان دریائی سانپوں سے لڑ کر اپنا علاقہ واپس نہ لے سکے گی۔ سنجیدہ اور بھیانک خوف یہ تھا کہ ہندوستان کسی وقت بھی ان علاقوں کو جو مکتی باہنی کے قبضے میں تھے ’’بنگلہ دیش‘‘ کے نام کا اعلان کر سکتا تھا، ہم جانتے تھے کہ ایسا ہوا تو حالات کا سنبھالنا ناممکن ہو گا اور مشرقی پاکستانی کھلم کھلا ہندوستان سے مدد مانگیں گے۔

اکتوبر کا مہینہ اختتام پذیر تھا۔ قابل تشویش بات یہ تھی کہ مغربی پاکستان سے فوج متواتر ہوائی جہازوں کے ذریعے اتاری جا رہی تھی کہ وہ بنگالیوں کو ٹھیک کر لے گی، مغربی فوج کو ڈھاکا اتارنے میں میری رجمنٹ کے لیے ایک اہم خوشخبری پنہاں تھی کہ میری رجمنٹ کو جنت نما دوزخ میں دو سال ہو چکے تھے۔ ایک یونٹ کو مشرقی پاکستان میں دو سال کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ GHO کو یاد آیا کہ میری رجمنٹ کو مشرقی پاکستان آئے ہوئے دو سال ہو چکے ہیں۔

ہم نے دن دیکھا نہ رات، نئی رجمنٹ کو سارے دفاعی مورچے سمجھا دیے اور ہینڈ اوور کرنے شروع کر دیے۔ جنگ کے دوران، ان توپوں اور ان مورچوں سے انڈین ایئر فورس کے اٹھارہ جہاز ڈھاکا پر اور پانچ جہاز چاٹگام ایئرپورٹ پر تباہ کیے گئے۔ رجمنٹ کی بے مثال کارکردگی پر ستارہ جرأت اور تمغہ جرأت جیسے اعزازات میں جہاز میں اپنے رجمینٹل ہیڈ کوارٹر کے عملے کے ساتھ بیٹھا تھا۔ جہاز کا دروازہ بند ہوا، انجن اسٹارٹ ہوئے اور جہاز حرکت میں آ گیا۔ یادوں اور جذبات کے ہجوم نے سب کے دماغوں کو اتنا گراں بار کر رکھا تھا۔ ہم اپنے پیچھے دو سو کے قریب ساتھیوں کو چھوڑ کر وطن واپس جا رہے تھے، میرے سامنے ان شہیدوں کے چہرے آئے جو جہاز کے نیچے زمین کے پیوند بن چکے تھے، بادلوں کے طوفان میں بجلی چمک رہی تھی اور جہاز کو اس میں سے گزرنا لازم تھا اور اسی راہ سے ہم کو اپنی منزل پانی تھی۔

ان تمام ساتھیوں کی شکلیں سامنے آئیں جو پیچھے رہ گئے تھے کیا وہ پاکستان آ سکیں گے؟ کیا میجر محی الدین ان کوسنبھال لیں گے، پھر اپنے آپ کو دیکھا، اپنے ہاتھوں اور جسم کو دیکھا کہیں پر کوئی خراش نہ آئی تھی، میں کتنا خوش قسمت تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے حفظ و امان میں رہا، اب صحیح سلامت وطن جا رہا تھا، یہ سوچتے سوچتے تھکاوٹ نے لوری دے دی اور میں سو گیا، کافی سویا پھر ایک دم انجنوں کی آواز بند ہو گئی، جیسے ہم زمین پر کھڑے ہوں، کانوں پر پریشر بڑھا تو میں نے آنکھ کھولی، ایئر ہوسٹس پوچھ رہی تھی “Sir! would you like some juice?”

رات کی تاریکی چھٹ چکی تھی، مشرق سے شفق پھوٹ رہی تھی، ایک نیا دن، ایک نیا مستقبل ہمارے سامنے تھا، موجودہ دور کے حالات بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں، ہر روز ایک خونی واقعہ جنم لیتا ہے، لیکن جو صاحب اختیار ہیں ان کی خاموشی نے ناسازگار ماحول کو مزید ہوا دی ہے۔‘‘

ہم مشرقی پاکستان کو اپنی عاقبت نا اندیشی کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔ اب بچا مغربی پاکستان جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے اس کی حفاظت بھی کرنی نہیں آ رہی ہے، اقتدار کی بندربانٹ ہے، ملک کے استحکام کی کسی کو فکر نہیں، غیرملکی ایجنسیاں اور ان کے ایجنٹ پاکستان کی بنیادوں میں شگاف ڈال چکے ہیں، لیکن بنیاد مضبوط ہے، اﷲ کی مہربانیوں کی بدولت یہ قائم و دائم ہے ورنہ تو پاکستانی حکام کی مہربانیوں کی بدولت آج غیرملکی اس ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں،  انتخابات کے موقع پر ملک بھر کے 80 ہزار پولنگ اسٹیشنوں پر 7 لاکھ سرکاری اہلکار حفاظتی اقدامات کے لیے 2-2 فوجی نوجوانوں کی تعیناتی عمل میں آ سکتی ہے۔

کشمیر کا مسئلہ اب تک کھٹائی میں پڑا ہے، اندرون پاکستان اس قدر گڑبڑ ہے کہ شہری آفت زدہ علاقوں سے کوچ کر رہے ہیں ’’تیراہ‘‘ میں ایسی ہی حالت ہے۔ علاقے کے لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔ جنوبی وزیرستان خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں 2 ماہ سے کالعدم تنظیموں کے 250 دہشت گرد مارے گئے، ادھر کالعدم تنظیمیں آپس میں لڑ رہی ہیں، بریگیڈیئر ظہیر ملک نے کہا ہے کہ برف پگھلتے ہی حملے ہو سکتے ہیں۔حکومت پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ وہ تمام مکتب فکر کے لوگوں کو اعتماد میں لے تا کہ خونریزی سے نجات مل سکے ورنہ بیتے ہوئے دنوں اور افواج پاکستان کے کارناموں کو بار بار دہرانا پڑے گا اور لبوں پر یہ مصرعہ ضرور آئے گا ’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں‘ تنہائی جنھیں دہراتی ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔