وہ بھی کیا دن تھے

سردار قریشی  بدھ 7 فروری 2018

گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا لیکن اگر لڑکپن اور جوانی کے دنوں کا کوئی دوست لمبی جدائی کے بعد بڑھاپے کی منزل پر پہنچ کر آواز دے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ ماضی میں لوٹ گئے ہیں۔ پچھلے دنوں اپنے کالم میں، میں نے کوئی 40 سال بعد اپنے دوست منان میمن سے رابطہ ہونے کا ذکر کیا تھا، جو میرے ساتھ اخبار میں کام کرتے تھے۔

اس کے ٹھیک تین دن بعد میرے ساتھ پھر ویسا ہی دوسرا واقعہ پیش آیا جب اس سے بھی پہلے کے ایک دوسرے دوست سے خلاف توقع فون پر بات چیت ہوئی۔ محمد موسیٰ خاصخیلی اور میں ساتھ پڑھتے تھے، گورنمنٹ ہائی اسکول ٹنڈو غلام علی تب ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ حیدرآباد کے زیر انتظام مڈل اسکول ہوا کرتا تھا اور ہم دونوں اس کے آخری پانچویں درجے کے شاگرد تھے۔ میں شہر میں رہتا تھا جب کہ وہ نواحی گاؤں دڑو کا رہائشی تھا، جو چمبڑ روڈ پر صرف ایک میل کی مسافت پر واقع تھا۔ کلاس فیلو تو تھے ہی، ہمارے درمیان گہری دوستی کا رشتہ بھی قائم تھا۔

پانچواں درجہ پاس کرکے ہم گویا پڑھائی سے فارغ ہوگئے، پھر ہمارا بیشتر وقت اس کے گاؤں میں گزرتا تھا، کبھی ان کی اوطاق میں بیٹھ کر گپیں ہانکتے تو کبھی بے مقصد کھیتوں اور کھلیانوں میں گھومتے پھرتے۔ اکثر دوپہر کا کھانا بھی اوطاق میں ساتھ کھاتے۔ موسیٰ کی شادی کمسنی میں ہو گئی تھی اور وہ اپنے ابا کا چہیتا بڑا بیٹا تھا، ان کے رویہ سے لگتا تھا جیسے اسے دیکھ دیکھ کر جیتے ہوں، اپنی زمینوں کا چکر لگا کر لوٹتے اور ہم دونوں کو اوطاق پر بیٹھا دیکھتے تو بڑے خوش ہوتے، بڑی شفقت سے پیش آتے، سب گھر والوں کی خیریت معلوم کرتے اور موسیٰ سے یہ پوچھنا نہ بھولتے کہ مہمان کی خاطر تواضع بھی کی ہے یا اسے خالی باتوں میں لگائے بیٹھے ہو۔

کھیتوں میں گھومتے ہوئے ایک دن موسیٰ کی نظر تلور پر کیا پڑی ہم شکاری بن گئے۔ وہ گھر سے اپنے ابا کی ایک نالی (سنگل بیرل) بندوق لے آیا، جس میں کارتوس ڈال کر فائر کیا جاتا تھا، ایک تو ہم کوئی ماہر نشانہ باز نہیں تھے، ہمارے اکثر نشانے خطا ہوجاتے، اس پر ستم یہ کہ جب تک دوسرا کارتوس لوڈ کرتے شکار اڑ جاتا۔ ہم نے اس کا حل یہ نکالا کہ میں ابا سے پوچھے بغیر ٹرنک سے ان کی ڈبل بیرل بندوق اور بہت سے کارتوس نکال لایا، لیکن ہم صرف کارتوس ہی ضایع کرتے تھے، کبھی ایک تلور بھی ہم سے شکار نہیں کیا گیا۔ اس شوق سے دل بھرگیا تو ہم لوگ کبھی ٹنڈو محمد خان تو کبھی حیدرآباد جاکر فلم دیکھنے لگے، بہت مزہ آتا لیکن آنا جانا مہنگا بہت پڑتا تھا۔

موسیٰ کو یاد آیا کہ اس کے ابا کا شہر میں ایک بنیے کے پاس ادھار کھاتہ کھلا ہوا ہے، پھر کیا تھا، جس دن فلم دیکھنے کا پروگرام بنتا وہ اس سے 50 روپے پکڑتا اور ہم چل پڑتے۔ پھر یہ چوری بھی پکڑی گئی اور موسیٰ کے ابا نے بنیے کو پیسے دینے سے منع کردیا۔ ہمیں مجبوراً فلم بینی کا شوق بھی ترک کرنا پڑا، جو جیب خرچ ملتا تھا اس سے حمید خان پٹھان کے ہوٹل پر بیٹھ کر چائے ہی پی جاسکتی تھی اور بس۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب ہم نے تنگ دستی دور کرنے کا کوئی مستقل حل تلاش کرنا شروع کیا۔ رئیس میر محمد تالپور کی اوطاق میں بیٹھ کر ہم خیالی پلاؤ پکاتے، حاجی نور محمد شیخ ہمیں مفت مشورے دیتے، جن کا گھر اوطاق سے متصل تھا۔ وہ نو مسلم تھے اور تجارت کا وسیع تجربہ رکھتے تھے، اسلام قبول کیا تو والد نے گھر سے نکال دیا اور یہ سڑک پر آگئے۔

ان کے مشورے سے ہم نے چھوٹے پیمانے پر اجناس خریدنے کا کام شروع کیا اور گاؤں دیہات سے آنے والوں سے کبھی گندم تو کبھی پھٹی (خام کپاس) خرید کر ہاتھ کے ہاتھ کسی دکاندار کو بیچ دیتے، اس کام سے ہمیں ٹھیک ٹھاک بچت ہوجاتی تھی اور اس وقت کے حساب سے ہم نے کچھ ہی دنوں میں اچھی خاصی رقم پس انداز کرلی، لیکن پھر زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں آکر ہم وہ ساری رقم ایک ہی جھٹکے میں گنوا بیٹھے۔ ہوا یوں کہ نواحی قصبے بڈھو قمبرانی کے ایک واقف کار نے ہمیں یہ کام کرتا دیکھ کر کہا اس طرح تم جتنے پیسے سال بھر میں کماؤ گے، میرے ساتھ مل کر ایک مہینے میں کما سکتے ہو۔ ہمارے پوچھنے پر بولا اگر ہم دوسری اجناس خریدنا چھوڑ کر صرف سرخ مرچیں خریدیں اور اس کے ساتھ کنری جاکر منڈی میں بیچیں تو دس گنا زیادہ کما سکتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ یہی کاروبار کرتا ہے اور 50 ایکڑ زمین کے مالک سے زیادہ کماتا ہے۔

ہم نے اس سے کہیں زیادہ چالاکی دکھاتے ہوئے سوچا کیوں نہ اپنا دو آدمیوں کا کرایہ بھی بچائیں اور اپنی مرچوں کی بوریاں بھی اسی کے ہاتھ کنری بھیج دیں، صرف ٹرک کا کرایہ ہی تو دینا پڑے گا۔ ہم نے ایسا ہی کیا، اپنی 6 بوریاں بھی اس کے حوالے کردیں اور بے صبری سے اس کے لوٹنے کا انتظار کرنے لگے۔ دو دن کی جگہ دو ہفتے گزر گئے مگر وہ نہیں لوٹا، اس کے گاؤں جاکر پتہ کیا تو اس کا سارا کاروبار سمجھ میں آگیا، وہ اس طرح لوگوں کو لالچ دے کر لوٹتا تھا، ورنہ وہ تو حیدرآباد کے علاقے ٹنڈو ولی محمد میں کوئلے سے چلنے والے پرانے بجلی گھر میں بطور ہیلپر نوکری کرتا تھا۔

موسیٰ کے پاس 50 روپے تھے، بولا حیدرآباد چل کر اس کو پکڑتے ہیں، میں نے کہا کچھ حاصل نہیں ہوگا، الٹا لوگ ہم پر ہنسیں گے، بہتر ہے جو ہوا اس کو بھول جائیں اور نئے سرے سے خواب دیکھنا شروع کریں۔ موسیٰ کو میری بات سمجھ میں آگئی اور ہم اپنے ساتھ ہونے والی واردات بھول گئے۔ دلچسپ بات کہ اس ٹھگ سے ہماری پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ موسیٰ سے فون پر بات ہونے کے بعد اس کے ساتھ گزرا ہوا وقت یوں یاد آتا رہا جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ ایک بار میں صبح سویرے اس کے گاؤں جا پہنچا، دونوں اوطاق میں بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے کہ اس کا ہاری عارب ملاح دور سے آتا ہوا دکھائی دیا، پاس آیا تو پتہ چلا کسی کام سے شہر گیا تھا اور پلہ مچھلی لایا ہے۔ موسیٰ نے کہا اچھے وقت پر آئے ہو، مہمان بھی آیا بیٹھا ہے، تم جاکر مچھلی بنواؤ، ہم کھانے آجائیں گے۔ اس نے تو یوں ہی مذاق میں کہا تھا لیکن عارب سیریس ہوگیا، اس کی جھونپڑی اوطاق سے متصل تھی۔ کوئی گھنٹہ بھر گزرا تھا کہ وہ آیا اور بہت اصرار کرکے ہمیں ساتھ لے گیا۔ صحن میں بیری کے درخت کے نیچے چارپائی بچھی تھی جس پر ہم تینوں بیٹھ گئے اور لگے ادھر ادھر کی باتیں کرنے۔ سامنے کچھ فاصلے پر ان کا چولہا تھا، میرا رخ اسی طرف تھا اور میں نے عارب کی بیوی کو شروع سے آخر تک مچھلی پکاتے دیکھا تھا۔

اس نے ثابت مچھلی نمک اور آٹے سے صاف کرکے دھوئی اور اسے ایک طرف رکھ کر چولہے سے راکھ نکالنے لگی، یہاں تک کہ اچھا خاصا گڑھا بن گیا۔ پھر اس نے چھوٹے تولیے جتنے کورے لٹھے کے کپڑے میں مچھلی لپیٹی اور اس کے اوپر دھلے ہوئے پرانے کپڑوں کی مزید دو تہیں لگاکر اسے گڑھے میں رکھا اور وہ ساری راکھ اس پر ڈال کر گڑھا بند کردیا جو پہلے چولہے سے نکالی گئی تھی۔ میں حیران تھا کہ وہ مچھلی کے ساتھ یہ کیا کر رہی ہے۔

اب اس نے جلانے کی دو چار لکڑیاں رکھ کر انھیں آگ دکھائی اور دانگی (مٹی کا توا) چولہے پر رکھ کر (جسے تپنے میں خاصا وقت لگتا ہے) لگی آٹا گوندھنے۔ چھ آٹھ روٹیاں بنا کر اس نے چھینٹے مارکر سلگتی ہوئی لکڑیاں بجھائیں اور عارب کو آواز دے کر بولی مہمان کے ہاتھ دھلاؤ، میں کھانا لاتی ہوں۔ پھر اس نے دوبارہ راکھ نکال کر کپڑے میں لپٹی ہوئی مچھلی نکالی جو غیر روایتی طریقے سے پکائی گئی تھی اور جس میں سے بھاپ کے مرغولے اٹھ رہے تھے۔ میں نے دیکھا اس نے دم کی طرف سے چٹکی میں لے کر ایک ہی دفعہ پوری کھال چھلکوں سمیت اتار لی اور پڑیا میں سے پسا ہوا مصالحہ نکال کر مچھلی پر چھڑکا اور پلیٹ میں ڈال کرہمارے سامنے لا رکھی۔ لسی کا جگ موسیٰ کے گھر سے پہلے ہی آچکا تھا۔ اس کا تو پتہ نہیں، منفرد طریقے سے پکائی ہوئی میٹھے پانی کی اس مچھلی کا ذائقہ میں آج تک نہیں بھولا۔ میں اپنا آج کا یہ کالم پیارے دوست حبیب الرحمان قریشی کے نام کرتا ہوں جس نے موسیٰ سے میری بات کرائی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔