کیچ می ایف یو کین

سعد اللہ جان برق  جمعـء 23 فروری 2018
barq@email.com

[email protected]

خوشی کا تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ معاملہ خوشی کا نہیں خون کے آنسو رونے کا ہے لیکن ’’فخر‘‘ کے مارے ہماری گردن میں زبردست تناؤ پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارے پشتونوں نے ایک اور کارنامہ کر دکھایا۔

زینب کے سلسلے میں ابھی پنجاب والے اپنی مونچھوں پر تاؤ دے ہی رہے تھے کہ ادھر ہمارے پشتونوں کی بھی ’’رگ حمیت‘‘ پھٹرک اٹھی اور انھوں نے اسماء یا عاصمہ کا کارنامہ کر دکھایا جو پنجاب والوں سے زیادہ عش عش کرنے والا تھا۔ اور ثابت کر دیا کہ اگر تم سیر ہو تو ہم سوا سیر ہیں، اگر تم شیر ہو تو ہم ببر شیر ہیں، اور اگر تم باز ہو تو ہم شہباز ہیں

ایں کار از تو آئدو مردان چنس کنید

جہاں تک واقعات کی دردناکی الم ناکی بلکہ شرمناکی کا تعلق ہے تو وہ عارضی چیزیں ہیں کہ چند روز گرما گرمی رہے گی لیڈروں سے لے کر ووٹروں تک میڈیا ’’می ڈیا‘‘ تک اور اسمبلیوں سے لے کر ہر کوئی اپنا اپنا ’’دارو‘‘ نکال دے گا اور پھر کسی اور ’’شکار‘‘ کا انتظار رہے گا۔ لیکن انتظار کی گھڑیاں اتنی لمبی نہیں ہوں گی کیونکہ ہم نے یہ جو چوں چوں کامربہ ایک چوتھائی تیتر ایک چوتھا بٹیر ایک چوتھائی اور ایک طوطا اور مینا معاشرہ اور نظام بنایا ہوا ہے اس کی زمین اس قسم کے  واقعات اگانے کے لیے بڑی زر خیز ہے۔ اوپر سے یہ ملکی اور غیر ملکی کھادیں بھی چینلوں وغیرہ کے ذریعے اشتہاروں ماڈلوں اور ماڈلوں کے لبادوں بلکہ نہ لباسوں کی صورت میں چھڑکی جا رہی ہیں اور خوش قسمتی کے ساتھ قانون اور نظام انصاف کی دوائیں بھی ڈیٹ ایکسپائر ہو چکی ہیں اس لیے ’’پیداوار‘‘ مثالی ہو رہی ہے۔

اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایسے مواقع پر اکثر آوازیں اٹھتی ہیں کہ مجرموں کو ’’برسر عام‘‘ لٹکایا جائے۔ ہم نے جب کئی لوگوں سے یہ سنا اور اخباروں میں بھی آگیا کہ مجرموں کو برسرعام پھانسی دی جائے تو اورنگزیب عالم گیریاد آگئے جو اپنے بھائیوں وغیرہ کو تہہ تیغ کرنے پر کچھ اوور اسلامی ہو گئے تھے یقینًا اس کے پیچھے احساس گناہ اور ضمیر کی خلش کا رفرما تھی اور جن کے بارے میں رحمن بابا جیسے غیر سیاسی درویش اور صوفی قلندر نے کہا ہے کہ اورنگ زیب بھی فقیر تھا جو ٹوپیاں بناتا اور پہنتا تھا لیکن جب ’’موقع‘‘ آیا(شاید پاکستان میں ’’مواقع‘‘ کی اصطلاح وہیں سے آئی ہے)

تو اس کا رنگ ہی بدل گیا اور ’’خرم‘‘ کے ’’ٹبر‘‘ کو یکے بعد دیگرے تہہ تیغ کیا۔

’’موقع اور مواقع‘‘ کی وجہ سے اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ اورنگزیب تاریخ کا سب سے پہلا پاکستانی تھا بلکہ ایک ’’جماعت‘‘ کا نام بھی اس سلسلے میں لیا جاتا ہے لیکن وہ نام ہم نہیں لے سکتے،ہاں تو اورنگزیب نے اپنے والد شاہ جہاں کو بھی کاروبار سلطنت سے سبکدوش کرکے ’’آرام‘‘ فرما کر دیا کہ ابا جان بہت تھک گئے اب تم آرام کرکے آخرت کی تیاری کروں لوگ خوامخوا اورنگزیب پر منفی تنقید کرتے ہیں ورنہ وہ اتنا رحمدل تھا کہ ابا کو آگرہ قلعہ میں ایسی جگہ رکھا جہاں سے وہ ’’جمنا‘‘ کنارے اپنے تاج محل یا آخری آرام گاہ کو دیکھ سکے۔ ہم نے وہ نشست اور جھروکہ خود دیکھا ہے۔

جس میں شاہ جہان بیٹھ کر تاج محل کا نظارہ دور دور سے کرتا تھا اور یہ بہت بڑی سہولت تھی اگر اورانگزیب اسے ریٹائر کرکے اس جگہ تک محدود نہ کرتا تو وہ تو کاروبار سلطنت میں تاج محل کو بھول ہی جاتا۔ دیکھو’’بڑھوو‘‘ کی حکمرانی کی عادت اب بھی نہیں چھوٹی ہے۔ بڑوں کے بجائے اب بچوں پر اپنے اقتدار کا شوق پورا کرنا چاہتا ہے۔ اور یہی بات ہم بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ’’برسرعام‘‘ پھانسی کے مطالبے کے پیچھے بھی وہی ’’ذوق تماشا‘‘ کار فرما ہے ورنہ پھانسی کہیں بھی ہو نتیجہ تو ایک ہی ہوتا ہے تو پھر یہ برسرعام پھانسی ؟؟؟کہا جا سکتا ہے کہ اس سے شاید ’’عبرت‘‘ پکڑانا مقصود ہو لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو لوگ ستر سال میں بھی ایک شمہ بھر نہ بدلے ہوں وہ ایک برسرعام پھانسی سے کیا بدلیں گے اور کیا سدھر یں گے؟

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیو لا برق خرمن کا ہے ’’خون گرم‘‘ دہقان کا

امریکا و برطانیہ کے ’’فضل‘‘ آئی ایم ایف کی سرپرستی اور اپنے ’’ہمہ صفت‘‘ موصوف لیڈروں کی محنت و خلوص، علمائے کرام کی ’’رہنمائی‘‘ اور مشائخ عظام کی برکات سے جو معاشرہ تشکیل ہوا اور جس کے پیچھے اوپر بے مہارپڑوسی میڈیا اورمقامی ریٹنگ میڈیا نے اپنے مسالے چھڑکے ہیں اور چھڑک رہے ہیں وہ معاشرہ چٹخارے کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ اگر گینگ ریپوں، عصمت دریوں اور انسانوں کو ذبح کرنے کے نظارے بھی دکھائے جائیں تو عبرت کا تو پتہ نہیں البتہ ’’لذت‘‘ بہت پکڑے گا اور خود بھی اس قسم کے لذیذ تجربات کا ضمنی ہوگا۔ ایسے میں مذہبی قوانین کا نام لینا بھی ہمارے خیال میں پاپ ہے‘کسی کو ڑے کے ڈھیر پر پھول رکھنا حماقت ہی تو ہے۔

وہ ایک وڈیرے جو تما م برائیوں کا مجموعہ تھا اس نے ایک مولانا سے فرمائش کی کہ میرے لیے کوئی ایسا مسٔلہ نکال لو کہ ان ’’کہ ان ’’روزوں‘‘ کی مصیبت سے جان چھوٹے۔ مولانا نے انکار کیا کہ میں فرض ’’روزے‘‘ سے تمہیں کیسے چھٹکارا دلا سکتا ہوں جب کہ تم ہٹے کٹے اور ہر لحاظ سے ٹھیک ٹھاک ہو۔ کچھ دن بعد مولانا نے سنا کہ اس صاحب نے ایک اور مولانا سے پوچھ کر خود کو ’’روزہ رکھنے ‘‘ سے چھوٹ دلوائی ہے۔

پہلے والا مولانا اس دوسرے مولانا کے پاس گیا کہ آخر تم نے کس بنیاد پر اسے یہ سہولت دلادی۔ دوسرے مولانا نے کہا۔ دیکھو اس شخص میں مسلمانی کی ذرہ بھر بھی رمق نہیں ہے۔ شرابی ‘کبابی نشئی زانی قاتل حرام خور سب کچھ ہے۔ میں نے اس بناء پر چھوٹ دے دی کہ صرف یہ ایک کام بھی نہ کرے تو اچھا ہے خوامخواہ ’’روزوں‘‘ کی بے حرمتی کیوں کی جائے۔خیر یو تو چلتا رہے گا۔ دین کا نام بھی اسی طرح لیا جاتا رہے گا میڈیا بھی اسی طرح اپنی روزی روٹی کماتا رہے گا اور انسانی مصیبتوں دکھوں اور روگوں کا پھل کھاتا رہے گا۔ تماش بینوں کو تماشے بھی ملیں گے۔لیکن یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ ہم پشتون بھی پاکستانیت میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ کوئی اور دس گز چھلانگ لگائے تو ہم بیس گز لگائیں گے ’’کیچ می ایف یو کین‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔