اصلاح معاشرہ کی مہم

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 26 فروری 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ہمارے معاشرے میں آج جوکچھ ہورہا ہے اس پر ایک بڑی مہم اصلاح معاشرہ سے متعلق چلانے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے راقم نے سن دو ہزار سے اب تک کئی کالم لکھے ہیں اور کوشش کی ہے کہ اس جانب صرف لوگوں ہی کی نہیں اس خاص طبقہ کی بھی توجہ دلائی جائے جو قوم کی رہنمائی کا دعویٰ کرتے ہیں۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین پاکستان کی جانب سے ہر سال اصلاح معاشرہ مہم منائی جاتی ہے چنانچہ اس سال بھی 10 فرری تا 28 فروری 2018 ملک گیر سطح پر اصلاح معاشرہ مہم بعنوان ’’آؤ بنائیں سب مل کر، آج سے بہتر اپنا کل‘‘ جاری ہے۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں ہونی چاہیے کہ ہم زبانی کلامی اپنے معاشرے کی اصلاح کی کوئی مہم چلائیں اور پھر سکون سے سو جائیں۔

اصل بات یہ ہے کہ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے کہ جنکے باعث ہمارا معاشرہ اس قدر پستی کا شکار ہوگیا ہے کہ ایک جانب ان بھیڑیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو ننھے اور ناسمجھ بچوں کو بے دردی سے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر کچرے کے ڈھیر پر پھینک رہے ہیں اور دوسری جانب پڑھے لکھے اور مذہب کے ارکان کی ادائیگی کرنیوالوں کے پاس بھی وہ اخلاق اور وقت معاشرے کے لیے نہیں ہے جو کبھی ہمارے معاشرے کا خاصہ تھا۔

آج ہمارے سامنے بری سے بری خبر بھی آجائے تو ہم محض تبصرہ کرکے، اپنے غصے کا اظہار کرکے پھر سے اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں، ہمیں یہ تک خیال نہیں آتا کہ کبھی ہمارے گھر کی زینب بھی کسی ’’بریکنگ نیوز‘‘ کا حصہ بن سکتی ہے۔ہم ان واقعات کی گہرائی میں جاکر ان کی وجوہات کیوں جاننے کی کوشش نہیں کرتے؟ کیوں نہیں سوچتے کہ آخر مردان میں ایک چھ سالہ بچی کو اس کا پندرہ سالہ کزن جبری زیادتی میں ناکامی پر کیوں قتل کررہا ہے؟ کراچی جیسے شہر میں سوتیلے باپ کے ہاتھوں بیٹی کی عزت کیوں محفوظ نہیں؟

ایک بہن اپنی دوسری بہن کے قتل میں کیوں ملوث ہے؟ فیصل آباد میں سات سالہ بچی کی عزت کو ایک بارہ سالہ بچہ کیوں پامال کر رہا ہے؟ ایک ستر سالہ پڑھا لکھا سیاسی انسان اپنی بیوی کو قتل کرکے خود کیوں خودکشی کر رہا ہے؟ کراچی جیسے شہر میں طلاق سے بھی زیادہ خلع کے کیسز کیوں سامنے آرہے ہیں؟ یہ سب ہمارے معاشرے کی بے سکونی اور بے چینی کو ظاہر نہیں کرتا؟ اب سوال یہ ہے کہ یہ بے چینی اور بے سکونی معاشرے میں کون پھیلا رہا ہے؟ آخر یہ کون سے عقائد آگئے ہیں، جن کے باعث اس معاشرے کے انسان کا سکون اور چین، بے سکونی اور بے چینی میں بدل گیا ہے؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ ذرا غور کریں چالیس، پچاس برس قبل کیا ہمارے معاشرہ ایسا ہی تھا؟ ایسی ہے بے سکونی تھی؟ کراچی جیسے شہر میں لوگ رات کو دروازے کھلے رکھ کر سو جاتے تھے، بچے اور بچیاں میلوں دور پیدل اسکول جاتے تھے، ریڈیو سے خبریں اور ڈرامہ سن کر لوگ رات دس بجے سو جاتے اور چھٹی والے دن بھی صبح سویرے اٹھ جاتے، گھر بھر کے افراد صبح آٹھ، نو بجے ’حامد میاں کے ہاں‘ اور ’بچوں کی دنیا‘ جیسا اخلاق اور نصیحت سے بھرپور پروگرام سنتے تھے۔

لوگوں کے پاس ایک دوسرے سے ملنے کا وقت ہوتا تھا۔ ایک مزدوری کرنیوالا بھی دال چاول، چٹنی کھا کر خدا کا شکر ادا کرتا نظر آتا تھا۔ محلے کے چار پانچ سو گھرانوں میں کسی ایک آدھ کے پاس ہی لینڈ نمبر والا فون ہوتا تھا اور پورا محلہ بوقت ضرورت اس سے فائدہ بھی اٹھاتا تھا مگر آج…؟ جی ہاں آج ہر گھر میں نہیں، ہر فرد کے پاس فون ہوتا ہے، اس کا دنیا بھر سے رابطہ ہوتا ہے، دنیا بھر کی خبر رکھتا ہے مگر اسے اپنے پڑوس تو دور کی بات اپنے گھر کی بھی خبر نہیں ہوتی کہ اس کے بچے اور دیگر لوگ کس حال میں ہیں، ان کی کیا سرگرمیاں ہیں؟

آج اپنوں کی ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی بلکہ اپنوں کے لیے وقت بھی نہیںہوتا۔ بچے، بہن بھائی، ماں باپ سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں، کسی کے پاس وقت نہیں کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی دیکھ لیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، ان کی مصروفیات کیا ہیں؟ ان کے تعلقات کس کے ساتھ ہیں؟ ہم ایک ایسے جدید دور کا حصہ بن گئے ہیں جہاں کسی کے پاس کسی کے لیے کوئی وقت نہیں، گھر کے بچے بچیاں تعلیمی اداروں میں وقت گزار تے ہیں، میاں بیوی بھی گھر سے باہر کمانے کے لیے، کوئی ایک آدھ فرد گھر پر ہوتا ہے تو اس کے ہاتھوں میں بھی موبائل، سب کی اپنی اپنی دنیا، سب ایک دوسرے سے بے خبر، پھر جب کوئی واقعہ ہوجائے تو مل کر گریہ و زاری؟ مل کر شکوے، یہ کیا ہوگیا؟

لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ہم سب ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی تنہا کیوں ہوگئے؟ کیا ہم کو پتہ نہیں کہ خونخوار بھیڑیا اس بھیڑ کو باآسانی اٹھا لے جاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے الگ ہو جائے۔ آج ہمارے خاندانی نظام کو کس نے تتر بتر کردیا؟ اور سب تنہا تنہا کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ سب سے پہلے خاندانی نظام میںدراڑ اس وقت پڑی جب گھر پر رہنے والی خواتین بنیادی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے نام پر اور پھر ملازمت کے نام پر گھر سے نکلیں اور آزادی کے نام پر باہر وقت گزارنا شروع کیا۔

مشہور مغربی مفکر جان رالز اپنی کتاب ’لاء آف دی پیپلز‘ میںکہتا ہے کہ تعلیم اور ملازمت، عورت کو مرد بناکر شرح ولادت صفر کردیتی ہے، اس سلسلے میں وہ ریاست کیرالہ کی مثال دیتا ہے کہ عورت کو مساوات کے ذریعے مرد کے برابرکردیا گیا تو کیرالہ میں شرح ولادت صفر تک پہنچ کر چین سے بھی کم ہوگئی۔ گویا خاندن کو برباد کرنے کا یہ ایک خوبصورت مگر بڑا سبب ہوتا ہے۔

ہمارا میڈیا بھی آزادی، مساوات اور زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی تعلیم صبح و شام دے رہا ہے چنانچہ اب ہمارے ہاں بھی ہر کوئی اپنی اپنی ذمے داریوں سے جان چھڑا کر آزادی چاہتا ہے۔ بچے بچے کے ہاتھ میں سیکس کی دنیا ہے، والدین بھی منع نہیں کرتے کہ یہ تو دور جدید کی ضرورت ہے چنانچہ دن رات دل لبھانے والے مناظر کے بعد بچے بھی آزادی چاہتے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ انھیں کوئی اس لذت کو حاصل کرنے سے روکے لہٰذا جس کو جیسا موقع ملتا ہے وہ اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، کوئی بارہ سالہ بچہ چھوٹی عمر کی بچی کو قابوکرلیتا ہے تو کہیں اسکول، کالج وغیرہ کے مخلوط ماحول میں اپنی خوشی کے ساتھ ڈھکے چھپے انداز میں ’آزادی‘ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جدید دنیا میں جدید اشیاء حاصل کرنے کی ترغیب بھی عروج پر ہوتی ہے اور میڈیا یہ کام بہت کامیابی سے کرتا ہے اور اپنے استعمال کرنیوالوں کو بے چین کیے رکھتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کیسے حاصل کی جائے چنانچہ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ خاندان کا ہر شخص دن رات دولت کے حصول میں لگ جاتا ہے، اس کے پاس اولاد، پڑوسی سمیت والدین کے لیے بھی وقت نہیں ہوتا۔

آج امریکا سمیت تمام جدید ممالک میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے ساتھ گفتگو ہی کرسکے، سب کا ایک ایک لمحہ کرنسی کے حصول سے جڑا ہوتا ہے، بیگانگی کا یہ عالم آج ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے، ایک بھاری بھرکم فیس لینے والا ڈاکٹر بھی مریض کوکم سے کم وقت دینے کے لیے دو کمرے یا باکس رکھتا ہے، مریض کو دیکھنے کے فوراً بعد دوسرے باکس میں مریض کو دیکھنے چلے جاتا ہے تاکہ ایک ہی باکس میں دیکھنے سے مریض کے آنے، جانے کے چند منٹ بھی بچا کر وہ مزید مریض دیکھ کر زیادہ دولت کما سکے۔

دولت کا زیادہ سے زیادہ حصول، مردو زن کی مساوات اور آزادی جیسے نظریات کا پرچار ہمارا میڈیا دن رات کر رہا ہے اور ہم سب اس میں گم ہوتے جارہے ہیں۔ یہی اس معاشرے کی تباہی کا اصل سبب ہے۔ آئیے ان معاملات کو سمجھیں اور دیکھیں کہ ہمارے کل اور آج میں کیا فرق ہے؟ وہ کیا فرق ہے کہ جس کے باعث آج ہمارا معاشرہ پستی کی جانب مسلسل بڑھ رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔