سینیٹ انتخابات؛ ایک اہم پیش رفت

ایڈیٹوریل  منگل 13 مارچ 2018
سیاسی بلوغت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات مکمل ہوئے۔ فوٹو : فائل

سیاسی بلوغت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات مکمل ہوئے۔ فوٹو : فائل

سینیٹ (ایوان بالا) کے انتخابات کا حتمی مرحلہ بھی طے شدہ شیڈول کے تحت انتہائی پرامن اور پارلیمانی روایات کے مطابق اپنے اختتام کو پہنچا۔ اسے ملکی سیاسی نظام کے جمہوری تناظر میں بلاشبہ ایک بریک تھرو اور احسن سفر کی ابتدا کہا جاسکتا ہے۔

سینیٹ میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونے والے انتخاب میں اپوزیشن اتحاد کے امیدوار میر محمد صادق سنجرانی 57ووٹ لے کر چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے، ان کے مد مقابل حکومتی اتحاد کے امیدوار راجہ ظفرالحق نے 46ووٹ حاصل کیے،اسی طرح اپوزیشن اتحاد کے امیدوار سلیم مانڈوی والا 54ووٹ لے کر ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے،ان کے مدمقابل حکومتی اتحاد کے عثمان کاکڑ نے 44ووٹ حاصل کیے۔اس طرح سینیٹ کی دونوں اہم نشستوں پر حکومتی اتحاد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ملکی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے جمہوریت کا بھرم بھی رکھا اور سیاست کے بظاہر طلاطم خیز منظرنامہ میں بطور اسٹیک ہولڈر اپنے جمہوری کمٹمنٹ کو نبھانے کی قابل قدر کوشش کی اور ساتھ ہی قوم کو یہ مثبت پیغام ملا کہ وقت کے سابق و جاری حوادث میں جمہوریت بہر طور جڑ پکڑ رہی ہے۔

سیاسی بلوغت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات مکمل ہوئے جب کہ سیاسی اختلاف رائے کے جمہوری حق کو تمام سیاسی رہنماؤں نے جمہوری اسپرٹ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے ایک سنگ میل عبور کرلیا، جس کے بارے میں قوم کو خلفشار، ذہنی دباؤ اور بے یقینی کے عجیب صحرا میں چھوڑ دیا گیا، سیاسی فضا قیاس آرائیوں اور بے بنیاد پیشگوئیوں سے بوجھل ہوچکی تھی لیکن خدا کا شکر ہے کہ سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کی روشنی میں دہشتگردی کی ان قوتوں کو شکست ہوئی جو جمہوریت کے تسلسل میں کسی بڑے حادثہ کی منتظر تھیں۔

یہ حقیقت بھی ملک کے فہمیدہ حلقوں کے لیے تقویت کا باعث بنی کہ ایک طرف سیاسی اجتماعات، جلسوں اور تقاریب میں کچھ افسوسناک واقعات پیش آئے۔ تاہم سیاسی قیادت کی جانب سے بروقت اس گھناؤنی لہر کا سختی سے نوٹس لیا گیا اور سیاسی سواد اعظم کی طرف سے عوام کو باور کرایا گیا کہ ایسے نازیبا طرزعمل سے گریز صائب اقدام ہوگا۔

اگر سیاسی کشمکش اور کشیدگی کے موجودہ سیاق وسباق میں دیکھا جائے تو سینیٹ انتخابات کے میکنزم، اس کے مناسب انتظامات اور خفیہ رائے شماری میں جس جمہوری جذبہ اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا گیا وہ اس امر کا غماز تھا کہ قوم کے سیاسی شعور میں اب یہ بات رچ بس گئی ہے کہ سیاسی اور جمہوری عمل کا سفر کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہنا چاہیے کیونکہ اسی میں ملک و قوم کی بقا ہے۔ تمام سیاسی قائدین نے تشدد کی ہر شکل کو مسترد کرکے ایک اہم پیش قدمی کی ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان اپنے سیاسی کارکنوں کی تربیت اور آیندہ انتخابات کے لیے منشور کی تیاری پر توجہ مرکوز کریں۔ بعض عناصر آئندہ انتخابات میں الیکشن مہم کی نئی شرانگیز بنیاد یا نعرہ کی وکالت کررہے ہیں اسے بھی غیر موثر کرنے کی ضرورت ہے۔

اسٹیک ہولڈرز واضح حکمت عملی کے ساتھ عوام کو بتائیں کہ انتخابات شفاف جمہوری مینڈیٹ، عوامی مسائل، سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور منشور کی بنیاد پر لڑے جائیں گے، وہ سینیٹ کے تمام انتخابی مراحل کی سرعت اور آئینی و قانونی حدود اور ضابطہ اخلاق کے تحت تکمیل کو اپنے آئندہ لائحہ عمل کی سیاسی و فکری بنیاد بنا سکتے ہیں تاکہ اداروں میں تصادم کی خواہاں باطل قوتوں کو ہر محاذ پر ہزیمت اور خفت کا سامنا ہو اور سینیٹ انتخابات کے نتائج کو معیار و منہاج بناتے ہوئے 2018 کے عام انتخابات کی جمہوری راہ ہموار کرنے میں اسی اسپرٹ، جوش و خروش، ذمے دارانہ اور آزادانہ جمہوری رویے کو بروئے کار لایا جائے۔

سیاست میں اتحاد بنتے اور ٹوٹتے ہیں، سیاسی جوڑتوڑ اگر جمہوری انداز میں ہے تو یہ روح جمہوریت کا کمپوننٹ ہے، انتخابی مہمیں اگر تشدد سے پاک ہیں تو جمہوریت کا لازمی جز قرار پاتی ہیں، ڈیموکریسی مکمل اور بے خوف اظہار رائے سے عبارت ہے، تاہم جمہوری کردار اور منصب ایک ذمے داری بھی ہے۔ سیاست دان بھی ہوشمندی سے کام لیں۔ بلاشبہ جمہوری عمل کا تسلسل جاری رہنا چاہیے۔

دنیا کو پاکستان میں جمہوریت کے باوقار ارتقا کا یقین دلانے کے لیے اہل سیاست چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے پیر کو ہونے والے انتخاب کا حوالہ پیش کرسکتے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین جب کہ سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ہمارے امیدوار ہوں گے، بلوچستان میں انسانی حقوق، پانی اور دیگر مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے اکثریت ہونے کے باوجود بلوچستان کے امیدواروں کو فوقیت دی کیونکہ بلوچستان میں احساس محرومی تھا۔

تحریک انصاف نے بھی صادق سنجرانی کی بطور چیئرمین سینیٹ نامزدگی کا فیصلہ کیا۔ دریں اثنا ن لیگ اور اتحادیوں کے مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف نے دعویٰ کیا تھا کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے ہمیں مطلوبہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے، فاٹا اور ایم کیوایم نے بھی ووٹ دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ اسے بھی سینیٹ انتخابات کے تناظر میں ایک اہم سیاسی حقیقت تسلیم کیا جانا چاہیے کہ رخصت ہونے والے سینیٹ چیئرمین میاں رضا ربانی ایک غیر متنازعہ سیاست دان بن کر سامنے آئے، ان کی کثیر جہتی حمایت سیاسی ارتقا کا قابل دید منظر ہے۔

میڈیا کے مطابق سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کے تین سالہ دور میں ایوان بالا میں 115 پرائیویٹ ممبر بل پیش کیے گئے، سینیٹ کو 67 حکومتی اور 9 پرائیویٹ ممبر بلز موصول ہوئے، آخری پارلیمانی سال کے دوران ایوان بالا میں 98 فیصد کارروائی مکمل کرتے ہوئے 50 بل جب کہ 69 قراردادیں منظور کی گئیں۔ اس دوران 112 توجہ دلاؤ نوٹسز اور 117 تحاریک التوا زیر غور لائی گئیں۔

اس عرصے کے دوران پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ نے پاکستان کے عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے قانون سازی کی ۔ اب ضرورت ہے کہ وفاقی اکائیوں اور قومی یکجہتی، پارلیمانی مساوات، جمہوری استحکام اور اجتماعی ترقی وخوشحالی کے لیے منتخب ایوانوں کی سرخروئی اور بالادستی کا نعرہ قوم کے خوابوں کی جمہوری تعبیر بنے تو بات بنے گی، اور یہ مہنگا سودا نہیں، قومی امنگوں سے ہم آہنگ ہر پاکستانی کی خواہش ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔