سب درست۔۔۔ ریلیف نہیں ملا

محمد سعید آرائیں  منگل 13 مارچ 2018

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو نااہلی کے بعد منتخب ہونے والے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جو اقتدار میں آکر بھی نواز شریف کو اپنا وزیراعظم قرار دیتے رہے اپنے اقتدار کے 6 ماہ مکمل کرچکے ہیں بہتر، منفرد اور محنتی وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم عباسی پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید بھی ہو رہی ہے اور کہا گیا کہ وہ تو نواز شریف کو ہی اپنا وزیراعظم قرار دیتے ہیں حالانکہ سپریم کورٹ انھیں نااہل قرار دے چکی ہے اور جب اپنی نا اہلی کے بعد نواز شریف نے بطور پارٹی سربراہ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا اور ان کے مشورے سے ہی کابینہ بنی اور (ن) لیگ کی عباسی حکومت کے معاملات میں نواز شریف نہ صرف مشاورت کرتے رہے بلکہ ان کے احکامات پر عمل ہوا۔ شاہد خاقان عباسی نے توکبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ (ن) لیگ میں رہ کر وزیر اعظم بنیں گے۔

اس لیے شروع میں انھوں نے نواز شریف ہی کو پارٹی سربراہ ہونے کی وجہ سے اپنا وزیر اعظم قرار دیا ، جوکوئی غلط بھی نہیں تھا ۔ جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے تو انھوں نے پی پی حکومت سے علیحدگی کے بعد بھی نواز شریف کا احترام جاری رکھا تھا اور آخر تک ان کے پنجاب حکومت سے اچھے تعلقات تھے۔

پی پی دور میں نواز شریف سندھ آتے تھے تو سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ان کا استقبال کرتے تھے حالانکہ نواز شریف وزیر اعظم نہیں مسلم لیگ (ن) کے صدر ہی تھے۔ سیاسی پارٹیوں میں بدقسمتی سے مفاد اور مطلب کو اہمیت دی جاتی ہے اور مفادات تک ہی ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا ہے اور بعد میں ایسے ہی آنکھیں پھیر لی جاتی ہیں جیسے آج کل آصف علی زرداری نے اپنے دور میں بنائے گئے بھائی نواز شریف سے پھیری ہوئی ہیں۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تو اپنے پارٹی قائد کو اپنا وزیراعظم کہا جب کہ مسلم لیگ (ق) کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی صدر جنرل پرویز مشرف کو اپنا باس قرار دیتے نہیں تھکتے تھے حالانکہ (ق) لیگ کے صدر چوہدری شجاعت تھے مگر ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم صدر جنرل پرویز مشرف نے بنایا تھا اور وہ واقعی وزیر اعظم کے باس تھے جس کا برملا اعتراف وزیراعظم جمالی کیا کرتے تھے۔

یہ الگ بات ہے کہ اقتدار جانے کے بعد عدلیہ نے پرویز مشرف کو قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیا جب کہ اپنے اقتدار میں صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے ناپسندیدہ ججوں کو معزول کیا تھا اور جن کو انھوں نے اپنے مفادات پورا کرنے کے لیے نااہل سمجھا ان ججوں سے انھوں نے پی سی او کے تحت حلف لینا بھی گوارا نہیں کیا تھا کیونکہ وہ ان ججوں سے اپنی مرضی کے فیصلے نہیں لے سکتے تھے۔

نواز شریف نے معزول ججوں کی بحالی کی تحریک چلائی تھی اور لانگ مارچ کے ذریعے معزول جج بحال ہوئے تھے اور عدلیہ بحالی کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پی پی حکومت کے خلاف جو فیصلے کیے اس کا شکوہ پی پی دور کے صدر زرداری اور وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اور پی پی رہنما اب تک کر رہے ہیں مگر انھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ عدلیہ کو انھوں نے موقع اپنی حکومتی من مانیوں سے خود دیا تھا۔

وزیر اعظم عباسی صرف تین ماہ کے لیے نہیں بلکہ (ن) لیگ حکومت کی بقایا دس گیارہ ماہ مدت کے لیے وزیر اعظم بنائے گئے اور انھوں نے پارٹی پالیسی اور اصولوں کے مطابق نواز شریف کو مکمل احترام دیا اور انھیں نہیں معلوم تھا کہ بعد میں عدلیہ پارلیمنٹ کے فیصلے کے برعکس نواز شریف کو (ن) لیگ کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے دے گی۔ وزیر اعظم یہ ضرور جانتے ہیں کہ نواز شریف وزیر اعظم یا پارٹی صدر نہ بھی رہیں (ن) لیگ میں انھیں ہی قائد مانا جائے گا کیونکہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف ہی نے بنائی تھی اور ان سے قبل مسلم لیگ اقتدار میں تھی تو اس کے صدر محمد خان جونیجو تھے۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اگست میں وزیر اعظم بنے اور اگر کچھ نہ ہوا تو جون کے شروع تک اپنی مدت پوری کریں گے۔ وزیر اعظم نے اندرون ملک کے علاوہ بیرون ممالک متعدد دورے کیے جس کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ کبھی سوٹ پہن کر بیرون ملک نہیں گئے بلکہ قومی لباس کو ہی انھوں نے ترجیح دی۔ ظفر اللہ جمالی کی طرح موٹاپا کبھی شاہد عباسی کی مجبوری بنا نہ انھوں نے سوٹ پہننے کا شوق پورا کیا اور بیرون ملک انھیں ہر جگہ عزت وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے ملی۔ قومی لباس ہماری شناخت ہے جس کی وزیر اعظم عباسی نے بیرون ملک پہن کر بھرپور ترجمانی کی جو ان کا ایک قابل ستائش و تقلید اقدام تسلیم کیا جانا چاہیے۔

وزیر اعظم عباسی نے یہ بھی کردکھایا کہ ایک ہی روز میں وہ ہرات افغانستان ایک سرکاری تقریب میں بھی گئے اور اسی روز لاہور میں بھی ایک تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ وزیر اعظم عباسی مخصوص وقت کی ڈیوٹی اور ہر اتوار اپنے گھر یا مری میں آرام کے عادی نہیں بلکہ کام کے عادی رہے اور سرکاری معاملات میں تاخیر کی اب تک کوئی شکایت منظر عام پر نہیں آئی۔

وزیر اعظم عباسی نے اپنی پارٹی، سربراہ اور ارکان اسمبلی کو بھی وقت دیا اور سرکاری کام اور ملکی و غیر ملکی دوروں پر بھی گئے مگر انھوں نے بیرون ملک غیر ضروری قیام ضروری نہیں سمجھا اور ملک میں اپنی زیادہ موجودگی کو یقینی بنایا مگر رہے وہ بھی عوام سے دور اور نہ انھوں نے عوامی جلسے کیے۔ وزیر اعظم عباسی کے دور میں ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں اور انھوں نے بھی عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔