استعاروں کی زبان

سردار قریشی  ہفتہ 24 مارچ 2018

اور تو اور ہمارے دوست شاہد صاحب بھی اب استعاروں کی زبان بولنے لگے ہیں۔ کسی کو کچھ پلے پڑے نہ پڑے، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ پہلے میں سمجھا انھوں نے جس طرح بڑھاپے میں قرآن پاک حفظ کرکے سب کو حیران کردیا تھا ویسے اب اشاروں کی زبان (شارٹ ہینڈ) کی طرح استعاروں کی زبان سیکھ کر موصوف نے ایک اور اضافی قابلیت حاصل کی ہے اور اس کا رعب جھاڑنے کے لیے ہرکسی سے اسی زبان میں بات کرتے ہیں، لیکن پھر پتہ چلا کہ اپنے ہمنام ٹی وی اینکر کے حشر سے سبق سیکھ کر انھوں نے کسی ممکنہ پکڑ سے بچنے کا یہ راستہ نکالا ہے کہ بات چیت میں ایسے ذو معنی الفاظ استعمال کرو جنھیں موقعے کی مناسبت سے اپنے مطلب کے معنی پہنائے جا سکیں۔

دوسرے یہ کہ استعاروں کا استعمال اتنی کثرت سے کرو کہ کوئی سمجھ ہی نہ سکے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ استعارے تو ان کے ہمنام اینکر نے بھی بہت استعمال کیے تھے مگر وہ ان کے کسی کام نہ آئے، سپریم کورٹ نے ان کی معافی قبول نہ کرتے ہوئے قرار دیا کہ اس کا وقت گزر چکا ہے، اب آپ کیس کا سامنا کریں۔ اگلے روز شاہد صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے طنز کرتے ہوئے کہا اب استعاروں کی زبان بولنے کی باری سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی ہے، دیکھیں وہ اس کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔

اب جو میں نے ذہن پر زور دیا تو یاد آیا ایک ٹی وی ٹاک شو میں قصور کی معصوم بچی زینب کے مبینہ قاتل کے بارے میں ٹی وی اینکر نے بڑی بڑی باتیں کی تھیں اور بے پر کی اڑاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’’اس کا تعلق ایک بین الاقوامی گروہ سے ہے، اس کے اتنے اتنے فارن کرنسی بینک اکاؤنٹ ہیں، جن میں اتنی اتنی رقم موجود ہے، چیف جسٹس صاحب کو مخاطب کرکے پوچھا آپ اس کا نوٹس کیوں نہیں لیتے، میرا دعویٰ غلط ثابت ہو تو مجھے لٹکادیں وغیرہ وغیرہ۔‘‘ اس وقت انھیں بھول کر بھی یہ خیال نہ آیا ہوگا کہ اگر چیف جسٹس نے سچ مچ اس کا نوٹس لے لیا تو کیا ہوگا۔ تب انھوں نے استعاروں کی زبان کو غلط استعمال کرکے فوکس میں آنے کی کوشش کی تھی مگر اب جب دوسری طرف سے استعارے استعمال ہونا شروع ہوئے تو وہ ساری چوکڑی بھول گئے۔

اس پر مجھے کوئی نصف صدی پہلے کی ایک بات یاد آئی جب 1969ء میں کراچی آنے کے بعد میں نے بندر روڈ پر لکشمی بلڈنگ کے قریب ایک نجی کمپنی کے دفتر میں کچھ عرصہ ملازمت کی تھی۔ تب ٹائپ رائٹنگ اور شارٹ ہینڈ جاننے والوں کی بڑی مانگ ہوا کرتی تھی، خالق دینہ ہال کے بالمقابل سندھ زمیندار ہوٹل اور دہلی مسلم کالی ریستوران کے ساتھ والی گلی کے نکڑ والی بلڈنگ میں اوپر بلسرز کے نام سے ایک کمرشل انسٹی ٹیوٹ ہوا کرتا تھا، جس میں نوکری کے متلاشی میٹرک و انٹر پاس نوجوانوں کو ٹائپ رائٹنگ اور شارٹ ہینڈ سکھائی جاتی تھی۔ اس کی ساکھ کا عالم یہ تھا کہ وہاں کے سند یافتہ امیدواروں سے ٹیسٹ لینا وقت کا زیاں سمجھا جاتا تھا اور انھیں بغیر ٹیسٹ اور انٹرویو دیے نوکری مل جایا کرتی تھی۔

مگر ساکھ بنانے سے بنتی ہے، بڑی بڑی باتیں کرنے اور بے پر کی اڑانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ دیر آید درست آید کے مصداق ڈاکٹر شاہد مسعود کو بھی اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی۔ میں تو اپنی دنیا (شعبہ صحافت) میں ان کی آمد کے ہی خلاف تھا کہ میری رائے میں آدمی نے جو علم اور مہارت حاصل کر رکھی ہو اسے کام میں بھی لانا چاہیے اور ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ طب کے شاندار پیشے کو ترک کرکے آپ ٹی وی اینکر بن جائیں، بنیں گے تو استعاروں کی زبان میں ہی بات کرنی پڑے گی جو بعض اوقات بہت مہنگی پڑتی ہے۔

میں نے اکثر دیکھا ہے جو لوگ سیدھی اور سچی بات کرنے کے عادی ہیں انھیں استعاروں کی زبان کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرایا جانے والا اظہار وجوہ کے نوٹس کا جواب اس کا ثبوت ہے۔

فیض آباد دھرنے کے حوالے سے بعض فوجی عہدے داروں کے خلاف ان کے دیے ہوئے ریمارکس کے حوالے سے ایس جے سی کے نوٹس میں کہا گیا تھا کہ وہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جمشید دستی اور ایک خاتون وکیل کو پراکسی (آلہ کار) قرار دیا ہے جو اس کیس میں مدعی ہیں اور کہا کہ انھیں استعمال کیا جا رہا ہے۔ جسٹس صدیقی نے یہی تو کہا تھا نا کہ فوج بھی آئین کے تحت قائم ہونے والا ایک ادارہ ہے اور یوں وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول رہ کر اس کے احکامات کی بجا آوری کرنا اس کے فرائض میں شامل ہے نہ کہ وہ اس کے متوازی اقدامات کرے۔

اب یہ سیدھی سچی بات کرنے کے لیے انھیں کیا پڑی تھی کہ استعاروں کی زبان کا سہارا لیتے۔ ویسے منہ کا ذائقہ بدلنے اور لطف لینے کے لیے اگر کوئی نمونے کے طور پر استعاروں کی زبان سمجھنا چاہے تو سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب پر سینیٹر حاصل بزنجو، سینیٹر محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمان اور دیگر سینیٹر حضرات کا ردعمل جاننے کی کوشش کرے، جس میں استعاروں کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔

عمران خان اور شیخ رشید نے تو پارلیمان پر صرف لعنت بھیجی تھی، بزنجو نے استعاروں کی زبان کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اس انتخاب سے پارلیمان کا منہ کالا ہوا ہے، پارلیمان ہارگئی ہے، ثابت ہوگیا کہ بالادست طاقتیں پارلیمان سے زیادہ طاقتور ہیں، اسمبلیوں کو منڈی بنادیا گیا ہے، اب یہاں بیٹھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، وغیرہ۔ بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والے محمود خانٗٗٗٗ اچکزئی نے لقمہ دیا کہ لیڈر ایجاد کرنے کا تماشا اب بند ہونا چاہیے۔

مولانا فضل الرحمان کب چپ بیٹھنے والے تھے، بولے ووٹوں کے فرق پر ہم بھی حیرت زدہ ہیں، حالانکہ ذرائع کے مطابق ان کے سینیٹروں نے ڈپٹی چیئرمین کے لیے پیپلز پارٹی کے امیدوار مانڈوی والا کو ووٹ ڈالے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے مشاہد اللہ نے بھی خوب جلی کٹی سنائیں اور یہ کہہ کر بھڑاس نکالی کہ بھاری آصف علی زرداری نہیں بلکہ وہ ہیں جن کے اشاروں پر وہ ناچ رہے ہیں۔ طارق فضل نے سینیٹ کے انتخاب میں شکست کو ملکی سیاست کے لیے دھچکا قرار دیا۔

اپنے اپنے انداز میں بولی جانے والی استعاروں کی اس زبان سے قطع نظر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں صرف زرداری اور عمران کے اتحاد ہی نے کام نہیں کیا بلکہ انھیں بعض دوسرے عناصر کی مدد بھی حاصل تھی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ الیکشن نہیں ہوئے، سینیٹ کو قابو کیا گیا ہے تو دوسروں کی رائے میں اس انتخاب سے مسلم لیگ (ن) ہی کو نہیں جمہوریت کو بھی دھچکا لگا ہے۔ ان کی جو بات دل کو لگی وہ یہ تھی کہ بلوچستان سے شروع ہونے والا مشن کراچی سے ہوتا ہوا سینیٹ تک پہنچ کر ختم ہوگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔