مفاہمت اور ٹکراؤ ساتھ ساتھ

جاوید قاضی  اتوار 1 اپريل 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

رواں ہفتے سیاسی منظر نامہ بہت تیزی سے آگے نکلا ، کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے جس سے بہت سے حقائق اور واضح   ہوئے ہیں ، جو ملاقات وزیر اعظم  اور چیف جسٹس آف پاکستان کی آپس میں ہوئی ، اس نے ایک طرف جو ٹکراؤ جیسی صورتحال اداروں کے بیچ بنی ہوئی تھی ، اس پر مثبت اثر  ڈالا۔ اس ملاقات سے میاں نواز شریف  نے لاتعلقی ظاہرکی تو دوسری طرف حزب اختلاف بالخصوص پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے شدید ناپسندیدگی کا اظہارکیا۔

اس ملاقات کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ،اس میں عدلیہ کا  پلہ مقننہ پر بھاری نظر آیا اور اب باقی دو مہینے رہتے ہیں، موجودہ حکومت کے ،اس کے بعد نگران حکومت 90 دن کے لیے آئے گی اور انتخابات کروا کے چلی جائے گی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا وہ شفاف انتخابات کروا سکے گی اورکیا وہ صرف نوے دن کے لیے آئے گی یا پھر کچھ وقت اور ٹھہرے گی ؟

اس سوال کا یقینی جواب اس لیے کسی کے پاس نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ابھی کام مکمل نہیں کرپائی ہے اور یہ آئینی حوالے سے ایک لازمی عمل ٹہرتا ہے۔ کیونکہ مردم شماری ہوچکی ہے۔ اس پر خود چیف جسٹس اپنے خدشات ظاہرکر چکے ہیں، یہاں تک لگ بھگ کہہ گئے کہ کہیں نظریہ ضرورت کی ضرورت نہ پڑ جائے ۔ میاں صاحب اور ان کی پارٹی کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ ایسی صورتحال پیدا ہو جب کہ حزب اختلاف اگر سپریم کورٹ  حالات کو مد نظر رکھ کر ایسا فیصلہ دیتی ہے تو اس کو صحیح قرار دے سکتی ہے ۔

اپریل کے دوسرے ہفتے  نیب کورٹ سے پاناما کیس کے حوالے سے جو میاں صاحب ، اسحاق ڈار اور مریم نواز کے خلاف ریفرنس دائر ہوئے تھے اس پر فیصلہ متوقع ہے۔ دونوں صورتوں  میں میاں صاحب کی کوشش ہوگی کہ سیاسی نمبر  بنائیں ۔ باقی دوسری صورت میں اس فیصلے کے خلاف  فریقین میں سے ایک اپیل میں چلا جائے گا ۔ نیب کورٹ سے آنے والا فیصلہ کچھ مہینے جوں کا توں برقرار رہے گا تا وقت فریقین کی اپیلوں کا حق Exhaust  ہو ۔ جو خاص بات ہے وہ یہ ہے کہ Judicial Activism  اپنے فل Swing  پر ہے اور اس پس منظر میں ایسے فیصلے آنے ہیں جس سے سپریم کورٹ سینٹرل اسٹیج پر رہے گی،کیونکہ حکمرانوں نے ان پانچ سالوں میں حالات بہتر نہیں کیے ، ادارے اور تباہ ہوگئے، بری حکمرانی عروج پر ہے۔

غیر ملکی قرضے وغیرہ سے ہمارے بیرونی ذخائر پر منفی اثر اس لیے بھی پڑا  ہے  کہ ہماری Export  ایک طرف رکی ہوئی ہے  تو دوسری طرف ہماری Imports  حیران کن طور پر بڑھی ہیں ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ CPEC  اس ملک پر اپنے گہرے نقوش چھوڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔

دوسری طرف خود ہندوستان جہاں اپنا اثرو رسوخ اس خطے میں گنواتا ہوا دکھائی دے رہا ہے وہاں پر چین کی خود یہ کوشش نظر آرہی ہے کہ وہ ہندوستان کو دعوت دے تو وہ بھی CPEC  سے مستفید ہو ۔ اس سارے تناظر میں پاکستان کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنے داخلی سیاسی صورتحال کے اندر موجود پیچیدگیوں پر قابو پائے اور ملک کے اندر آئین کی بالادستی یقینی بنائے ، بصورت دیگر ہماری سیاسی داخلی  بحران  CPEC  کو ڈسٹرب کرسکتا ہے۔

حال ہی میں باجوہ ڈاکٹرائن کے حوالے سے بحث چھڑی جس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فوج کے ترجمان نے یہ کہا کہ فوج صوبوں کی طرف ان اختیارات کی منتقلی جو صوبائی نوعیت کے ہیں اس کو ایک اچھا عمل سمجھتی ہے۔

جب اٹھارویں ترمیم آئی تھی تو اس زمانے میں ISI  کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے غالبا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو اٹھارویں ترمیم پر ان کیمرہ بریفنگ دی تھی ۔

میں سمجھتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ہماری عسکری سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور اگر ISPR کے سربراہ کے بیان کو صحیح سمجھا جائے تو یہ اس ملک کے حوالے سے ان کے Vision  میں بہت صحت مند تبدیلی ہے۔ ساتھ ہم نے بھی یہ سنا ہے کہ کور کمانڈر کے اجلاس میں اس عزم کا بھرپور اظہار بھی کیا گیا کہ فوج آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔

مختصر یہ کہ جو تین بڑے اس ملک کے نام ہیں ۔ عدالت  و فوج  یا سیاسی لیڈر کے حوالے سے وہ سب آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کون ہے جو انحراف کر رہا ہے؟  کورٹ جوڈیشل ایکٹوزم کرتے ہوئے جو آئین میں Separation of power  اداروں کے بیچ کام کی تقسیم ہے ۔ خود میاں صاحب نے بھی اداروں کو اس حد تک برا بھلا کہا جوکہ کسی بھی جمہوری نظام کے آداب کے زمرے میں نہیں آتے۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کے لیے جمہوریت وہی ہے جس میں وہ نمایاں نظر آئیں۔

میاں صاحب چونکہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے والے وعدے وفا نہیں کر پائے وہ اداروں سے ٹکراؤ جیسی صورتحال کو اپنی Election narrative  بناتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ لگتا ہے خان صاحب کی کرپشن والی Narrative  اتنی جاندار طور پر 2018 کی الیکشن میں نظر نہ آئے۔ آصف زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کو اس نہج تک لے کے آئے ہیں جہاں وہ صرف جاگیردار، وڈیروں اور سرداروں کی پارٹی بن کے ابھرے گی  اور اس طرح سینیٹ کی طرح قومی اسمبلی میں بھی واضح اکثریت سے کوئی نہیں جیتتا تو زرداری صاحب کی سینیٹ والی سیاست وہاں پر بھی زور پکڑے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔