سائنس کی اثر پذیری

شیخ جابر  جمعرات 11 اپريل 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

عمومی طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ سائنس غیر اقداری ہے۔ جب کہ سائنسی ایجادات و نظریات ہمارے فکر، نظر اور عمل کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ یہ اثر پذیری تجریدی طریقے سے ہوتی ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز تک جدید سائنسی نظریات تصورات علم میں بنیادی تغیرات کے ذریعے معاشروں میں تبدیلی پیدا کر رہے تھے۔ اس صدی کے اختتام تک ٹیکنالوجی اس عمل میں اہم ترین عامل بن گئی۔ نئی اصطلاح وجود میں آئی جسے آج ہم ٹیکنو سائنس کے نام سے جانتے ہیں۔

ٹیکنو سائنس نے گزشتہ دو سو برس میں طبعی سماجی اور آفاقی سطح پر تبدیلی کے عمل کو تیز سے تیز تر کر دیا۔ یہ ایک خاص تہذیب خاص زماں خاص مکاں میں تخلیق ہوئی ہے اور ایک خاص مقصد کی حامل ہے۔ یہ ماورائے تاریخ بھی نہیں ہے۔ ’’ٹائن بی‘‘ کے مطابق دنیا میں اکیس تہذیبیں رہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان اکیس روایتی الہامی دینی مذہبی تہذیبوں میں کہیں بھی جدید سائنس نظر نہیں آتی۔ وجہ یہ ہے کہ ان تہذیبوں کے عالی دماغوں نے وہ باطل نظریات پیش نہیں کیے جو جدید سائنس کے ظہور کا سبب بنے۔ و ہ تہذیبیں کسی نہ کسی صورت میں حقیقت مطلق کا آخرت کا الحق اور الخیر کا کوئی نہ کوئی تصور اپنے یہاں رکھتی تھیں ۔

ان کے ذہین لوگ اپنی مابعد الطبیعیاتی اساسات کے زیر اثر وہ نظریات تخلیق ہی نہیں کر سکتے تھے جس قسم کے سائنسی نظریات مغرب نے سترہویں صدی میں پیش کیے۔ عصر حاضر میں تبدیلی، تغیر کا سبب سائنسی ایجادات نہیں بلکہ اصلاً وہ سائنسی نظریات ہیں جو سترہویں صدی میں ایک نئی مابعد الطبیعیات کے زیر اثر تاریخ انسانی میں جدیدیت، روشن خیالی کے نام سے پیش کیے گئے۔

جنھوں نے انسان، کائنات، خدا، آخرت، زندگی اور مقصد زندگی سے متعلق تمام قدیم مابعد الطبیعیاتی تصورات کو ظلمت اور ان افکار کے عہد کو تاریک دور قرار دیدیا۔ اپنے تئیں کائنات سے خدا کو نکال کر انسان کو خدا کے مقام پر فائز کر دیا گیا۔ نفس پرستی کا مذہب ایجاد ہوا، روشنی، بصیرت اور علم کا ماخذ اس زمین پر صرف انسان ہی قرار پایا۔ انسان نے خود کو سجدہ کیا۔ انسانیت کے نام پر نفس پرستی یعنی انسان پرستی کا آغاز ہوا۔ تسخیر کائنات کے نام پر تدفین کائنات کا تاریخی کام شروع کر دیا گیا۔

جدید سائنس جدید خدا انسان کے ارادے کو کائنات پر مسلط کرنے کا نام ہے۔ جدید سائنس خالص مغربی ثقافت و تہذیب اور تاریخ سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کے تاریخی تناظر کو نظر انداز کر کے اس کی ماہئیت کو سمجھنا ممکن ہی نہیں۔ یہ صرف یورپ میں ہی تخلیق ہو سکتی تھی۔ اس سائنس کے فروغ کے لیے جس بنیادی فکری کام کی ضرورت تھی وہ یورپ کے مخصوص حالات کے باعث اسی سرزمین میں ممکن تھا۔

اس کے لیے جس تصور نفس، تصور انسان، تصور خیر و شر، تصور کائنات، مقصد حیات کی ضرورت تھی وہ جدید فلسفے نے آزادی ارادہ عامہ، ترقی، معیار زندگی میں اضافے کی چار اصطلاحات کے اندر کفنا دیے تھے۔ اس لیے جدید سائنس کو آفاقی، کلی، قطعی، فطری، حقیقی ماوراء تاریخ سمجھنا بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید سائنس نے دنیا کے جس حصے میں بھی غلبہ حاصل کیا یا جہاں اس کا استقبال کیا گیا وہاں کی تہذیب، تاریخ، ثقافت، روایات، مذہب، اقدار سب کچھ بدل گیا۔

اگر جدید سائنس غیر اقداری ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہ جہاں جاتی ہے اس خطے کی صدیوں کی تمام روایات تبدیل ہو جاتی ہیں؟ ان کے اسالیب زندگی، طرز خور و نوش حتیٰ کہ سونے جاگنے کے اوقات بھی بدل جاتے ہیں۔ مثلاً روس، امریکا، برطانیہ، جاپان، یورپ، ہندوستان اور چین نے گزشتہ تیس برسوں میں ٹیکنو سائنس کے ذریعے غیر معمولی ترقی کی اور ان تمام تاریخی تہذیبی خطوں کی معاشرت تہذیب، اخلاقیات، طرز زندگی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی پیدا ہو گئی مثلاً جاپان ہندوستان، چین میں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ گیا۔ صدیوں کی اقدار سادگی اور تہذیبی روایات کا خاتمہ ہو گیا۔ بھارت میں پونے دو لاکھ کسان خود کشی کر چکے ہیں۔

موٹاپا، ذیا بیطس، امراض قلب اور خودکشی عالمی امراض بن گئے ہیں۔ خوشحالی، ترقی، سرمایہ اور خودکشی لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ کوریا میں1995ء میں پچاس لاکھ لوگ بھوک سے ہلاک ہوئے۔ افریقہ کے کئی ملکوں میں قحط سالی اور خشکی کے باعث کئی کروڑ لوگ موت کے خطرے میں ہیں۔ فرانس، یونان، آئس لینڈ کا معاشی طور پر دیوالیہ نکل گیا ہے۔ سعودی عرب کی حالت ابتر ہے۔ صرف دینی نہیں اخلاقی، معاشی، مالی اور صنعتی ترقی کی حالت بھی نہایت ابتر ہے۔ موٹاپے میں سعودیوں نے امریکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 1986ء تک چین کے لوگ ہلکا گرم پانی پینے کے لیے استعمال کرتے تھے لیکن اس کا استعمال اب متروک ہو گیا، فریج نے اس کی جگہ لے لی۔ عورتوں کی ملازمت سے خاندان تحلیل ہو گئے۔

معیار زندگی بلند ہوا معاشرت تباہ ہو گئی۔ ماحولیاتی آلودگی نے صرف چین کو نہیں پاکستان، ہندوستان کو بھی سیلاب، بارشوں سے تباہ کر دیا۔ خود کشی عام ہوئی۔ دنیا میں خود کشی کی شرح سب سے زیادہ چین میںہے۔ امریکا اور یورپ خود کشی میں سب سے آگے تھے چین نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہندوستان میں جدید تعلیم یافتہ خوشحال فارغ البال نئی نسل نے گھروں سے بوڑھے والدین کو نکالنا شروع کر دیا۔ یہ رویہ اتنا عام ہوا کہ لوک سبھا کو ایک قانون بنانا پڑا جس کے تحت ماں باپ کی خدمت اولاد کے لیے لازمی قرار دی گئی۔ اس سے انکار کرنے والوں پر ایک سال قید کی سزا لاگو کی گئی۔

لیکن کیا قانون ان جوہری تبدیلیوں کو روک سکتا ہے یا اُس نقصان کا ازالہ کر سکتا ہے جو جدیدیت سائنسی علمیت کے ذریعے پیدا کر چکی ہے؟ جاپان میں جدید سائنسی علمیت کے غلبے کے بعد خاندان منتشر ہو گئے۔ طلاق کی شرح بڑھ گئی۔ نوجوان نسل شادی نہیں کر رہی۔ بوڑھوں کی تعداد آبادی کا بیس فی صد ہو گئی، جن کی عمر سو سال سے زیادہ ہے۔ نوجوان نسل ختم ہو رہی ہے ترقی کا پہیہ اب کیسے چلے گا؟ بھارت اور چین میں لڑکیوں کی رحم مادر کی قبر میں مسلسل تدفین سے دلہنوں کا مسئلہ پیدا ہو گیا اب دوسرے ممالک سے دلہنیں در آمد کی جا رہی ہیں۔ جس سے تہذیبی معاشرتی اقداری مسائل جنم لے رہے ہیں۔

امریکا میں عورتیں کام کے بوجھ اور گھریلو ذمے داریوں کی مصیبت پر غصے کے باعث چھوٹے بچوں کو قتل کر رہی ہیں، فریز کر رہی ہیں، فرائی پین میں تل رہی ہیں۔ یہ کیسی ترقی ہے؟ جو سرمایہ پیدا ہو رہا ہے وہ ملک سے باہر محفوظ ہو رہا ہے۔ بھارت کے امیر وں کے سولہ سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں ہیں۔ جس کو تقسیم کریں تو پینتالیس کروڑ بھارتیوں کو کئی لاکھ روپے فی کس مل سکتے ہیں۔ یورپ کی آبادی منفی صفر ہو رہی ہے ناجائز بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سائنسی صنعتی ترقی اور کارخانوں سے گرمی اتنی بڑھی کہ امریکا اور روس کے جنگلات میں متعدد مرتبہ آگ بھڑک اُٹھی۔ روس میں گرمی کی شدت سے چھپن ہزار افراد ہلاک ہو گئے۔

پوری دنیا میں سیلاب طوفان، آندھیاں، عام ہو گئے ہیں۔ کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں انشورنس کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔ ، لندن، برلن، ہیمبرگ میں2011ء میں نوجوانوں کی جانب سے لوٹ مار، آتش زنی، خون ریزی کے ہولناک واقعات جس میں کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ جدید دنیا میں موٹاپا ایک وبائے عام بن گیا بلڈ پریشر، السر، دل کا حملہ عام ہیں جس کا اصل سبب جدید ترقی کے باعث ذہنی دباؤ، بے خوابی اور الرجی ہے۔ عہد حاضر کی تمام اخلاقیات ٹیکنو سائنس کے ذریعے صرف سرمایہ کے گرد گھوم رہی ہے۔ سرمائے اور سرمایہ داری کے جال نے انسانوں کو غلام بنا لیا ہے اور زمینی ماحولیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

آج ہمیں وہ دیدہِ کور بنا دیا گیا ہے جسے صرف سائنس کے فوائد نظر آتے ہیں۔ سائنس کی اثر پزیری اور اُس کے نتیجے میں اخلاقی، تہذیبی اور روحانی زوال نظر نہیں آتا، ارضیاتی و ماحولیاتی تباہی سمجھ نہیں آتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔