کچھ تاریخ کے دریچوں سے

مقتدا منصور  اتوار 14 اپريل 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ڈاکٹر مبارک علی پاکستان کے ایک معتبر تاریخ دان ہیں۔ اپنے ایک مضمون میں انھوں نے 19 ویں صدی میںجرمنی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کاجائزہ لیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں جرمن فلاسفر اور مفکرین اپنے اطراف میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے۔ انقلاب فرانس کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی معاشرے کی سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی کوسمجھنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ انتہائی اہم ہوتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ابتدا میں اہل جرمن نے نپولین کے یورپ کو فتح کرنے کی خواہش کا خیرمقدم کیا تھا۔ مگر 1806 میں جب اس نے پروشیا کی سلطنت کو شکست سے دوچار کیا تو جرمن فلاسفر اور مفکرین  کے علاوہ مقتدر حلقوں نے مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے اپنی شکست کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی شکست کا سبب کمزور سیاسی و انتظامی ڈھانچہ ہے، جو سماجی انصاف اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اس لیے نظم حکمرانی کو درست سمت دینے کے لیے سیاسی اور انتظامی اصلاحات بہت ضروری ہوگئی ہیں۔

چنانچہ بعض دوررس اقدامات تجویز کیے گئے، جن میں زرعی اصلاحات، تیز رفتار معاشی نمو کے لیے صنعتی ترقی پر توجہ اور سب سے بڑھ کر اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت شامل تھے۔ ان اقدامات کی وجہ سے سیاست روایتی فیوڈل سیاستدانوں کے چنگل سے آزاد ہوئی۔ یوں بسمارک نے 1871 میں ایک نئی پورشیائی ریاست کی بنیاد ڈالی، جو جمہوریت اور جدید ریاستی ڈھانچہ کی طرف پہلا قدم تھا۔

جرمنی کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی 66 برس کی تاریخ کا مطالعہ کریں، تو ہمیں ایسی کوئی نظیر نظر نہیں آتی جب حکمرانوں نے کسی ناکامی یا شکست کا کھلے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لے کر کوئی صائب حکمت عملی ترتیب دی ہو۔ 1971 میں ہونے والا تاریخ کا بدترین سانحہ جس میں ملک دولخت ہوا، پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اور اہل دانش کے لیے لمحہ فکریہ تھا۔ مگر ایسی کوئی وسیع البنیاد تحقیق نظر نہیں آتی جس میں سقوط ڈھاکا کے اسباب کا ہر پہلو سے جائزہ لے کر آئندہ ایسے کسی سانحے سے بچنے کی حکمت عملی تجویز کی گئی ہو۔ حد تو یہ ہے کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کو بھی بعض مخصوص مصلحتوں کے مدنظر عوام تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔

تیس برس بعد جب اس رپورٹ کے بعض اقتباسات بھارت میں شائع ہوئے ہیں، تو کہیں جاکر پاکستانیوں کی اس تک رسائی ممکن ہوسکی۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان میں تبدیل ہوتے عالمی رجحانات کے مدنظر سیاست، سماج اور نظم حکمرانی میں کسی قسم کی تبدیلی کے لیے راہ ہموار نہ ہوپارہی بلکہ ریاست کے منطقی جواز اور طرز حکمرانی کے حوالے سے جو تضادات پاکستانی معاشرے میں قیام پاکستان کے ساتھ پیدا ہوئے تھے، وہ مقتدر اشرافیہ کی عدم توجہی کے باعث آج اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔

یہ تضادات آئین سے نظم حکمرانی تک اور پیشہ ورانہ ذمے داریوں کی ادائیگی سے سماجی روایات تک ہر جگہ واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ لہٰذا سماج کے مختلف حلقے ریاست کے منطقی جواز، نظم حکمرانی اور آئین کی مختلف شقوں کی اپنے مخصوص نظریات اور فکری رجحانات کی روشنی میں مختلف توجیہات و تشریحات بیان کرتے ہوئے ان پر اصرار کررہے ہیں۔ چونکہ اس اہم قومی مسئلے پر کسی بھی دور میں سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا گیا، اس لیے یہ مسائل اب بحرانی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

ہمارے دوست بیرسٹر اقبال حیدر مرحوم مختلف فورمزمیں آئین میں پائے جانے والے مختلف تضادات کی نشاندہی کیا کرتے تھے۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر کسی حکومت اور کسی سیاسی جماعت نے ان کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور اعتراضات پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی کبھی کوشش نہیں کی۔

گزشتہ پارلیمان میں میاں رضا ربانی کی قیادت میں قائم ہونے والی پارلیمانی کمیٹی نے گوکہ اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کے ذریعے آئین کو خاصی حد تک اس کی اصل شکل میں لانے کی کوشش کی، مگر بعض حلقوں کی ناراضگی کے خوف سے چند متنازعہ شقوں پر غور کرنے سے گریز کرتے ہوئے انھیں جوں کا توں رہنے دیا۔ اس تساہل عارفانہ یا مصلحت کوشی کا یہ نتیجہ نکلا کہ جب حالیہ انتخابات سے قبل آئین کی شقوں 62 اور 63 کے تحت امیدواروں کے کردار اور ان کے ذاتی اوصاف جانچنے کے لیے مختلف حلقوں نے دبائو ڈالا تو ان شقوں کی واضح تشریح اور تفہیم نہ ہونے کے سبب مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہوگئی۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، اس مضحکہ خیز صورتحال کے پیدا ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ریاست کے منطقی جواز اور طرز حکمرانی کے بارے میں جو کنفیوژن پیدا ہوا تھا، وہ آج تک جاری ہے۔ اس کنفیوژن کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ حال ہی میں مذہبی شدت پسند عناصر نے دو اعلانات کیے ہیں۔ اول، یہ کہ جمہوریت کفر کا نظام ہے، جس سے چھٹکارے کے لیے جہاد ضروری ہے۔ دوئم، عوام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ لبرل خیالات کی حامل پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور ANP کے انتخابی جلسوں میں جانے سے گریزکریں۔ ان دونوں بیانات پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی سے ان کی مصلحت کوشی سے زیادہ منافقانہ سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔

حالانکہ اس غیر جمہوری اور آمرانہ طرز عمل پر تمام جماعتوں کو ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے تھی۔ کیونکہ اس قسم کی دھمکیاں سیاسی عمل کے تسلسل اور انتخابی شفافیت کو متاثر کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ صورتحال کسی بھی وقت کسی دوسری جماعت یا جماعتوں کو بھی درپیش ہوسکتی ہے۔ مگرسیاسی کوتاہ بینی، مفادپرستی اور انتخابات میں شدت پسند عناصر کے ہمدردوں کے ووٹوں کے لالچ میں سیاسی جماعتیں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ کسی حلقے میں یہ جرأت نہیں کہ وہ جمہوریت کو کافرانہ نظام قراردینے والوں کو یہ یاد دلائے کہ پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے ہی میں وجود میں آیا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی اجتماعی دانش کو استعمال کرتے ہوئے علمائے دین کے بجائے جدید تعلیم یافتہ مسلم رہنمائوں کی قیادت کو قبول کیا۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مسلمانان ہند کی اکثریت ایک وسیع المسلکی جمہوری ریاست کے قیام کی خواہشمند تھی اور ہے۔

عوام کی خواہشات کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ 65 برسوں کے دوران جب کبھی انھیں اپنے لیے حکومت منتخب کرنے کا موقع ملا، تو انھوں نے ان جماعتوں کا انتخابات کیا، جو مخصوص مسلکی شناخت کے بجائے کثیرالبنیاد سیاسی رجحانات کی حامل رہی ہیں اور جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس لیے یہ طے ہے کہ پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف جمہوری عمل کے تسلسل سے مشروط ہے۔ جس کی ایک واضح مثال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی فوجی آمر مارشل لاء کو زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکا اور بالآخر اسے کسی نہ کسی شکل میں جمہوری عمل کی طرف بڑھنا پڑا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ فوجی آمروں کی اس کاروائی کے نتیجے میں سیاسی عمل کو کیا نقصانات پہنچے۔

اس پوری صورتحال سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان میں اس وقت جو کشکمش جاری ہے، اس کا محور یہ ہے کہ آئندہ طاقت کا منبیٰ پارلیمان ہوگی یا حسب سابق اسٹبلشمنٹ ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی رہے گی۔ اس لحاظ سے 2013 کے عام انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے بعض بااثر ریاستی حلقوں کے علاوہ غیر ریاستی ایکٹر بھی سرگرم ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ جانے کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر ہنوز شکوک و شبہات کی دھول اٹی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ معروضی حالات میں سیاست کا محور دائیں اور بائیں بازو کا روایتی نظریاتی اختلاف نہیں ہے، بلکہ اصل معرکہ جمہوریت نواز اور جمہوریت مخالف قوتوں کے درمیان ہے۔

اس لیے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر اس مرتبہ جمہوریت نواز قوتیں جمہوری عمل کا تسلسل قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، تو معاملات کے بہتری کی جانب بڑھنے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ اس لیے تاریخ، سیاست اور سماجیات پر نظر رکھنے والے اہل دانش اور متوشش شہریوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ امیدواروں کے کردار میں مثالیت تلاش کرنے کے بجائے جمہوری عمل اور اقدار کے استحکام پر توجہ مرکوز کریں۔ اس سلسلے میں ہمیں انیسویں صدی کے جرمنی کی نظیر کو مدنظر رکھنا ہوگا، جس کی جانب ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے  متذکرہ بالا مضمون میں اشارہ کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔