لوڈ شیڈنگ کا عذاب ، قصور وار کون؟

عبدالرحمان منگریو  اتوار 29 اپريل 2018

عرصہ دراز سے کراچی کے عوام بیک وقت کئی مسائل کا شکار ہیں ۔ شہر میں صفائی ستھرائی کی ابتر حالت اور ٹریفک جام کا معمول بن جانا ہی انسان کو نفسیاتی مریض بنانے کے لیے کافی تھا اوپر سے شدید قلت ِ آب اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے تو کراچی کے عوام کو حواس باختہ کردیا ہے ۔

متذکرہ بالا اُمور کے انتظامات کے لیے ذمے دار اداروں کا 100سال سے زیادہ تجربے کا حامل ہونے کے باوجود یہ ادارے اپنی بنیادی ذمے داریاں بھی سرانجام نہیں دے پارہے ۔ جس کی تازہ مثال رواں ماہ کے دوران کراچی میں ہونے والی بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ ہے جس کے لیے مکمل طور پر ذمے دار ادارہ کے الیکٹرک ہے ۔ 1913 میںکے ای ایس سی کے نام سے قائم ہونے والے اس ادارے کا بنیادی کام کراچی کے عوام کو بلا تعطل بجلی فراہمی کی سہولت مہیا کرنا ہے ۔

اپنے قیام کے آغاز میں 1913 سے 1946تک اس ادارے کی کارکردگی شاندار رہی ۔ اس عرصہ کے دوران کراچی شہر کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ ادارہ بھی اپنی بہترین کارکردگی میں اضافہ کرتا رہا ۔ 1947سے 1952کے درمیان پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے ساتھ ہی اس شہر کی آبادی میں ہونے والے بے پناہ و بے ترتیب اضافے کے باعث شہر میں بجلی کی طلب میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ۔

1952میں وفاقی حکومت نے کے ای ایس سی کو قومی تحویل میں لے کر اس ادارے کے انفرااسٹرکچر پر سرمایہ کاری کی ، اورمجموعی طور پر 513میگاواٹ بجلی بنانے والے مزید 8نئے پیداواری پلانٹس قائم کیے تاکہ شہر میں بڑھتی ہوئی صنعتی و تجارتی اور رہائشی بجلی کی طلب کو پورا کیا جاسکے ۔ پھر 1981سے 2000کے دوران پورٹ قاسم پر بن قاسم پاور اسٹیشن قائم کیا گیا ۔

کے ای ایس سی کو شروع میں واپڈا کے ماتحت کیا گیا اور بعد میں پاک آرمی کے زیر نگرانی دیا گیا ۔ 2005میں کے ای ایس سی کی نجکاری کرکے ایک سعودی کمپنی کنگڈم ہولڈنگ (Kingdom Holding) کو فروخت کیا گیا ۔

بعد ازاں 2009میں دبئی کے ایک ادارے ابراج کیپیٹل(Abraaj Capital) کمپنی کے حوالے کیاگیا جو کہ اس کمپنی کے 72.58%شیئرز کی مالک بن گئی جب کہ 24.36%شیئر کی مالک وفاقی حکومت ِ پاکستان ہے ۔ اور اب حال ہی میں ابراج گروپ نے اپنے حصے میں سے 66.4%شیئرز چائنہ کے ادارے شنگھائی الیکٹرک (Shanghai Electric) کو1.77بلین ڈالر میں فروخت کردیے ہیں جب کہ 1260میگاواٹ کی پیداوار کے حامل بن قاسم پاور پلانٹ I-میں برائٹ ایگل انٹرپرائیز ادارہ بھی حصہ داری میں شامل ہے ۔

اس تفصیل دینے سے مراد یہ واضح کرنا تھا ماضی میں شاندار کارکردگی کا ریکارڈ رکھنے اور عالمی سطح کی انتظامی اُمور رکھنے والی انتظامیہ ہونے اور کے ای ایس سی سے کے الیکٹرک تک کا سفر طے کرنے کے باوجود یہ ادارہ حال میں یا توبے حال انتظامی اُمور کا محور بن چکا ہے۔

صوبائی حکومت کو تو وہ خاطر میں ہی نہیں لاتے لیکن وفاق کی سب سے بڑی انتظامی اتھارٹی وزیر اعظم سے منہ مانگی سہولیات حاصل کرکے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنے کے اعلان کے باوجود بھی مکمل طور پر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہ کیا جانا اس ادارے کی اجارہ داری کا ثبوت ہے جب کہ اوور بلنگ ، من مانی رفتارسے چلنے والے میٹر صارفین کو لگا کر دینے اور فیول ایڈجسٹمنٹ کی آڑ میں سالانہ اضافی چارجز وغیرہ جیسے اُمور تو پہلے ہی عوام کا سردرد بنے ہوئے ہیں جن کے حل کے لیے کوئی داد رسی نہیں ہوتی ۔

کمپنی اول روز سے لائین لاسز و دیگر نام نہاد مسائل کا رونا رو کر بیک وقت عوام اور حکومت دونوں کوبلیک میل کرتی رہی ہے ۔ مثلاً : کنڈا سسٹم و دیگر طریقوں سے بجلی چوری کا بہانہ ، سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے ضرورت کے مطابق گیس کی سپلائی نہ کرنااور فرنس آئل پر چلنے والے دو پلانٹ بند ہونے کا بہانہ وغیرہ ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب چیزوں کا ذمے دار کون ہے ؟جہاں تک کنڈا سسٹم اور بجلی چوری کی بات ہے تو وہ اب فنی طور پر مسئلہ حل ہوچکا ہے۔

نئے کیبل تار اور نئے میٹر اس نوعیت کے بنائے گئے ہیں کہ ان سے چھیڑ چھاڑ اب عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہاں البتہ محکمہ کے لوگ ملی بھگت سے کوئی کارروائی کرتے ہیں تو یہ الگ بات ہے لیکن اس کی بھی ذمے داری کمپنی پر اسی طرح ہے جیسے جرائم کی روک تھام کی ذمے دار پولیس ہوتی ہے ۔ باقی رہی بات ایس ایس جی سی کی جانب سے گیس کی فراہمی میں کمی کی تویہ معاملہ اچانک تو نہیں ہوا کہ راتوں رات یہ مسئلہ بن گیا ۔

درحقیقت موجودہ کے الیکٹرک اور ماضی کی کے ای اے سی کمپنی کی نجکاری کے وقت طے پانے والی دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ یہ شرط بھی طے پائی تھی کہ کمپنی اپنی ضرورت کے نصف کے برابر بجلی خود پیدا کرے گی اور تب تک کے لیے قومی گرڈ و ٹرانسمیشن سے حکومت واپڈا کے ذریعے یہ بجلی فراہم کرتی رہے گی ۔

لیکن کے الیکٹرک اپنی سرمایہ کاری سے بچنے اور منافع اپنے ہیڈ آفس شفٹ کرنے کے لیے اس طرح کے بہانے بناکر معاملے کو طول دیے جارہی ہے اور جہاں تک بات ہے فرنس آئل پر چلنے والے دو پاور پلانٹس کی تو ان کو چلانے میں کے الیکٹرک کوئی دلچسپی نہیں رکھتی جس کے لیے وزیر اعظم کی موجودگی میں وزیر توانائی کو صاف جواب دیا گیا کہ فوری طور پر کے الیکٹرک ان دو پاور پلانٹس کو نہیں چلا سکتی حالانکہ کے الیکٹرک صارفین کو بل فرنس آئل کے حساب سے بھیجتی اور وصول کرتی ہے ۔

عوام کے شدید احتجاج کی بناء پر وفاق کو آخر اس شدید گرمی میں عوام کو لوڈ شیڈنگ کے دوہرہ عذاب جھیلنے کی تکلیف کا احساس ہوا اور گذشتہ پیر کو وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں گورنر ہاؤس کراچی میں فقط اس لیے منعقد کیا گیا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے کراچی میں اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے بڑھتے ہوئے دورانیے اور بجلی کے بحران پر قابو پایا جاسکے ۔

گورنر ہاؤس میں ہونے والے اس اجلاس میں کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے درمیان گیس کی کم فراہمی اور بقایاجات پر ہونے والے تکرار کا فیصلہ کیا گیا حالانکہ اگر یہ فیصلہ پہلے کیا جاتا تو شاید عوام کو تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑتا لیکن کہتے ہیں کہ’’ دیر آید درست آید ‘‘۔ چلو دیر سے ہی سہی وفاق کو کچھ تو خیال آیا۔

اجلاس میں سوئی سدرن گیس کمپنی نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک جی ایس اے ایگریمنٹ پر دستخط کرنے کو تیار نہیں جس کے بغیر ہم انھیں اضافی گیس نہیں دے سکتے جب کہ کے الیکٹرک کو سیکیورٹی ڈپازٹ کی مد میں 7ارب روپے جمع کرانے کا بھی پابند بنایا جائے ۔

اجلاس میں کے الیکٹرک کی جانب سے 80ارب روپے بقایاجات کا معاملہ بھی سامنے آیا جس پر اختلاف ہونے کی بناء پر 32 ارب روپے کی بقایاجات کا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے ذریعے آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا اورکے الیکٹرک کو بقایاجات ادا کرنے کی تلقین کی گئی لیکن مسئلے کے فوری حل کے لیے سوئی سدرن گیس کمپنی کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ کے الیکٹرک کو گیس فراہم کرے اور فراہمی کا عمل اسی دن سے شروع ہوگیا۔

یوں وفاق بھی اپنا پتہ کھیل گیا جو کہ شاید عام حالات میں ممکن نہ ہوتا کیونکہ کافی عرصہ سے سندھ کو کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنی قدرتی گیس پنجاب کو بھی سپلائی کرے لیکن سندھ ایسا کرنے کو تیار نہیں تھا ۔ کراچی میں لوڈ شیڈنگ کے کھیلے گئے کھیل نے جہاں کے الیکٹرک کو فرنس آئل کی مد میں اپنی سرمایہ کاری بچانے کا موقع دیا، وہیں ایس ایس جی سی کو اپنے بقایاجات کی وصولی کا موقع دیا، اور ساتھ میں ایل این جی کے معاملے پر سندھ کو زیر کرنے کا موقع بھی مل گیا ۔ اس ساری صورتحال میں قصور وار کون ہے؟۔

یہ صاف طور پر نظر آرہا ہے لیکن نہ تو عوام کوپہنچنے والی تکلیف کے ذمے دار کا تعین کیا گیا اور نہ ہی کسی نے عوام سے معذرت کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی کوئی تادیبی کارروائی کی گئی ۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کراچی میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے ہاں البتہ دورانیے میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اب بھی کچھ علاقوں کو چھوڑ کر کراچی میں کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی اطلاعات پرنٹ ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر گشت کررہی ہیں حتیٰ کہ کراچی کے عوام کوکوئی رعایتی پیکیج دینا تو درکنار، الٹا ملک بھر کے صارفین کو دی گئی رعایت سے بھی مستفیض نہیں ہونے دیا جارہا یعنی نیپرا کی جانب سے حال ہی میں بجلی کے نرخوں میں کی جانیوالی 1روپیہ 86پیسے فی یونٹ کمی کا اطلاق بھی کے الیکٹرک اور اس کے صارفین پر لاگو نہیں ہوگا ۔

اس ساری صورتحال کی بناء پر کراچی کے عوام چاہتے ہیں کہ کے الیکٹرک کا متبادل ہونا چاہیے یعنی ٹیلی کمیونی کیشن شعبے کی طرح بجلی فراہمی کے لیے مسابقتی نظام ہونا چاہیے تاکہ اگر ایک کمپنی درست سروس فراہم نہ کرے تو عوام اپنی مرضی سے دوسری کمپنی سے بجلی کی فراہمی کے لیے رابطہ کرسکیں لیکن عوام کو یہ سہولت بھی میسر نہیں حالانکہ دنیا بھر کے تمام بڑے شہروں میں یہ سہولت موجود ہے ۔

پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اور حکمراں کراچی کو دنیا کے بڑے شہروں کی صف اول میں گردانتے ہیں لیکن اس شہر کو دیگر عالمی میٹروپولیٹن جیسی سہولیات دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ حکمرانوں کے کا یہ رویہ کراچی کے عوام کو ملک کے باقی اُمور سے دور کرتا جارہا ہے جو درست عمل نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔