تکریمِ انسانیت امن کی ضمانت

اسلام کی تعلیمات پر سرِ تسلیم خم کرنے میں درحقیقت معاشرے کا سُدھار ممکن ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام کی تعلیمات پر سرِ تسلیم خم کرنے میں درحقیقت معاشرے کا سُدھار ممکن ہے۔ فوٹو: فائل

’’ اِسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر واجب کردیا تھا کہ جو شخص کسی کو نہ تو جان کے بدلے اور نہ ہی زمین میں فساد پھیلانے کی سزا میں (بل کہ ناحق) قتل کر ڈالے گا تو گویا اُس نے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کردیا تو گویا اُس نے سب لوگوں کو بچا لیا۔‘‘

حمرانؓ کہتے ہیں کہ میں نے مفسّرِ قرآن حضرت امام محمد باقرؓ سے اللہ تعالیٰ کے اِس قول کے بارے میں سوال کیا کہ ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو صرف ایک انسان کو ناحق قتل کرے گا، وہ گویا ساری انسانیت کا قاتل قرار پاتا ہے؟‘‘

امامؓ نے فرمایا: ’’ اسے جہنم کے ایسے مقام میں رکھا جائے گا جہاں جہنمیوں کے عذاب کی آخری حد ہوگی۔ گویا اگر وہ ساری انسانیت ہی کو قتل کر ڈالے گا تو بھی اِسی جگہ سے اسے عذاب ملے گا۔‘‘ میں نے عرض کی: ’’اگر ایک اور انسان کو قتل کر ڈالے تو پھر؟‘‘ آپ ؓنے فرمایا: ’’اسے اس کا دُگنا عذاب ملے گا۔‘‘

آیت اللہ محمدی ری شہری اپنی معروف کتاب ’’میزان الحکمت‘‘ جلد نمبر8، صفحہ 55 پر رقم طراز ہیں: سورۂ بنی اسرائیل میں پروردگارِ عالم نے ارشاد فرمایا: ’’ اورجس جان کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اُسے قتل نہ کرنا، مگر جائز طور پر اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اُس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) اختیار دیا ہے۔‘‘

سورۂ نساء میں ارشادِ ربُّ العزت ہے: ’’ اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ نے اپنا غضب ڈھایا، اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بڑا سخت عذاب تیار کررکھا ہے۔‘‘

( مزید آیات کے لیے سورۂ نساء، سورۂ مائدہ، سورۂ انعام، سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف، سورۂ فرقان کی جانب رجوع کیجیے)

اِس ضمن میں نبی کریم آنحضرت محمد مصطفیؐ کی چند منتخب احادیثِ مُبارکہ کی نورانیت سے کسبِ فیض کرتے ہیں:

’’ سب سے بڑا سرکش اور نافرمان وہ انسان ہے جو ایسے شخص کو قتل کرے جس نے اسے قتل نہیں کیا، یا ایسے شخص کو مارے جس نے اُسے نہیں مارا۔‘‘ ( امالی صدوق)

’’ بندہ اُس وقت تک دِین کی دی ہوئی آزاد فضاؤں میں رہتا ہے جب تک کسی ناحق خون میں اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرتا۔‘‘ (کنز العمال)

’’ قیامت کے دن سب سے پہلے جس مقدمے کا فیصلہ ہوگا، وہ خون کا مقدمہ ہوگا۔‘‘ (کنز العمال)

’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کا یک بارگی خاتمہ کردینا ناحق خون بہائے جانے سے زیادہ آسان ہے۔‘‘ ( الترغیب و الترہیب، بیہقی نے بھی اِس حدیث کو روایت کیا ہے)

حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبر اکرم آنحضرت محمد مصطفیؐ کے خطبے سے اقتباس کا مطالعہ کرتے ہیں: ’’ لوگو! تمہارا خون اور تمہارا مال بھی اُسی طرح محترم ہے جس طرح آج کے دن (عرفہ) کی، اِس مہینے (ذی الحجہ) کی اور اِس شہر (مکّہ) کی حرمت ہے، یہ حرمت (قیامت کے دن تک) برقرار رہے گی، جس دن تم اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔‘‘ (وسائل الشیعہ)

حضرت امام جعفر صادقؓ کا فرمانِ مُبارکہ ہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ بن عمرانؑ کی طرف وحی فرمائی: ’’ اے موسیٰ! بنی اسرائیل سے کہہ دو کہ اے بنی اسرائیل! کسی شخص کو ناحق قتل نہ کرو کیوں کہ تم میں سے جو شخص کسی کو دُنیا میں قتل کرے گا، اسے اس کے بدلے میں ایک لاکھ مرتبہ اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح اس نے قتل کیا ہوگا۔‘‘

حضرت امام محمد باقرؓ فرماتے ہیں: ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ قاتل کے نام لکھ دے گا اور مقتول ان گناہوں سے بری الذمّہ ہوجائے گا۔‘‘

دین ِاسلام کی تعلیمات پر سر ِتسلیم خم کرنے کے نتیجے میں درحقیقت معاشرے کا سُدھار ممکن ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کے تحریر کردہ خط پر عمل ہی سے آج بھی ظلم کا خاتمہ ممکن ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کے اُس خط کا بہ غور مطالعہ اور اُس پر وسیع النظری کے ساتھ غور و خوض کریں، جو انھوں نے جناب مالکِ اشترؓ کو اُس وقت تحریر کرکے عطا فرمایا تھا، جب انھیں مصر کا گورنر بناکر روانہ فرمایا تھا۔

یہ عہدنامہ جو طرزِ حکومت کے حوالے سے بہترین دستور ہے، اعلیٰ ترین نظامِ حکومت ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے تمام سرکاری خطوط میں سب سے زیادہ مفصّل اور محاسنِ کلام کا جامع ہے۔ یہ خط بہ حمداللہ ’’نہج البلاغہ‘‘ میں مکتوبات کے حصے کی زینت ہے۔ بہ قول امیر المومنینؓ: ’’ یہ وہ خط ہے جو بندۂ خدا امیرالمومنین علی ؓنے مالک بن اشتر نخعیؓ کے نام لکھا ہے، جب انھیں خراج جمع کرنے، دشمن سے جہاد کرنے، حالات کی اصلاح کرنے اور شہروں کی آباد کاری کے لیے مصر کا عامل قرار دے کر روانہ کیا۔‘‘

آغاز میں حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ تحریر فرماتے ہیں:

’’سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو، اُس کی اطاعت اختیار کرو اور جن فرائض و سُنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے اُن کا اتباع کرو کہ کوئی شخص اُن کے اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا ہے، اور کوئی شخص اُن کے انکار اور بربادی کے بغیر بدبخت قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اپنے دل ، ہاتھ اور زبان سے دینِ خدا کی مدد کرتے رہنا کہ خدائے ’’ عزّاسمہٗ‘‘ نے یہ ذمّے داری لی ہے کہ اپنے مددگاروں کی مدد کرے گا اور اپنے دِین کی حمایت کرنے والوں کو عزت و شرف عنایت کرے گا۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کو کچل دو اور اسے منہ زوریوں سے روکے رہو کہ نفس بُرائیوں کا حکم دینے والا ہے جب تک پروردگار کا رحم شامل نہ ہوجائے۔‘‘

اِسی طرح دیگر اہم ترین احکام و اوامر بیان کرتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ

’’ قضاوت‘‘ کے عنوان سے عوام النّاس کی یوں عمدہ ترین راہ نمائی فرماتے ہیں :

’’اِس کے بعد لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ان افراد کا انتخاب کرنا جو رعایا میں تمہارے نزدیک سب سے بہتر ہَوں۔‘‘ علّامہ سیّد ذیشان حیدر جوادیؒ اِس جملے کے حوالے سے رقم طراز ہیں: ’’اِس مقام پر قاضی کی حسبِ ذیل صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے:

(1) خود حاکم کی نگاہ میں قضاوت کرنے کے قابل ہو۔

(2) تمام رعایا سے افضلیت کی بنیاد پر منتخب کیا گیا ہو۔

(3) مسائل میں اُلجھ نہ جاتا ہو بل کہ صاحبِ نظر و استنباط ہو۔

(4) فریقین کے جھگڑوں پر غصہ نہ کرتا ہو۔

(5) غلطی ہوجائے تو اُس پر اکڑتا نہ ہو۔

(6) لالچی نہ ہو۔

(7) معاملات کی مکمل تحقیق کرتا ہو اور کاہلی کا شکار نہ ہو۔

(8) شبہات کے موقع پر جلد بازی سے کام نہ لیتا ہو بل کہ دیگر مقررہ قوانین کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہو۔

(9) دلائل قبول کرنے والا ہو۔

(10) فریقین کی طرف رجوع کرنے سے اُکتاتا نہ ہو بل کہ پوری بحث سُننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

(11) تحقیقات میں بے پناہ قوتِ صبر و تحمل کا مالک ہو۔

(12) بات واضح ہوجائے تو قطعی فیصلہ کرنے میں تکلّف نہ کرتا ہو۔

(13) تعریف سے مغرور نہ ہوتا ہو۔

(14) لوگوں کے اُبھارنے سے کسی کی طرف جھکاؤ نہ پیدا کرتا ہو۔‘‘

حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں : ’’ایسے افراد یقیناً کم ہیں، لیکن ہیں۔ پھر اس کے بعد تم خود بھی ان کے فیصلوں کی نگرانی کرتے رہنا اور ان کے عطایا میں اتنی وسعت پیدا کردینا کہ ان کی ضرورت ختم ہوجائے اور پھر لوگوں کے محتاج نہ رہ جائیں۔ انھیں اپنے پاس ایسا مرتبہ اور مقام عطا کرنا جس کی تمہارے خواص بھی طمع نہ کرتے ہَوں کہ اِس طرح وہ لوگوں کو ضرر پہنچانے سے محفوظ ہوجائیں گے۔‘‘

حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا یہ پورا خط یقینا ًہر دَور کے حکم رانوں کے لیے کامل ترین نمونہ اور مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہمارے وطن عزیز کے حکم ران اِس سے عملی طور پر بھرپور استفادہ کریں تو یہ وطن عزیز بھی گویا خلد بداماں بن سکتا ہے۔ اِسی خط میں حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کیا لاجواب نصائح تحریر فرماتے ہیں: ’’ دیکھو خبردار! اللہ سے اُس کی عظمت میں مقابلہ اور اُس کے جبروت سے تشابہ کی کوشش نہ کرنا کہ وہ ہر جبار کو ذلیل کر دیتا ہے اور ہر مغرور کو پست بنا دیتا ہے۔

اپنی ذات، اپنے اہل و عیال اور رعایا میں سے جس سے تمھیں تعلقِ خاطر ہے، سب کے سلسلے میں اپنے نفس اور اپنے پروردگار سے انصاف کرنا، کہ ایسا نہ کروگے تو ظالم ہوجاؤ گے اور جو اللہ کے بندوں پر ظلم کرے گا، اُس کے دشمن بندے نہیں خود پروردگار ہوگا۔ اورجس کا دُشمن پروردگار ہوجائے گا اس کی ہر دلیل باطل ہوجائے گی اور وہ پروردگار کا مدِّمقابل شمار کیا جائے گا جب تک اپنے ظلم سے باز نہ آجائے یا توبہ نہ کرلے۔ اللہ کی نعمتوں کی بربادی اور اُس کے عذاب میں عجلت کا کوئی سبب ظلم پر قائم رہنے سے بڑا نہیں ہے۔ اِس لیے کہ وہ مظلومین کی فریاد کا سُننے والا ہے اور ظالموں کے لیے موقع کا انتظار کررہا ہے۔‘‘

اِسی خط میں ایک اور جگہ علی کرم اللہ وجہہٗ رقم طراز ہیں: ’’دیکھو خبردار! ناحق خون بہانے سے گریز کرنا کہ اِس سے زیادہ عذابِ الٰہی سے قریب تر اور پاداش کے اعتبار سے شدید تر اور نعمتوں کے زوال، زندگی کے خاتمے کے لیے مناسب تر کوئی سبب نہیں ہے اور پروردگار روزِ قیامت اپنے فیصلے کا آغاز خوں ریزیوں کے معاملے سے کرے گا۔ لہٰذا خبردار! اپنی حکومت کا استحکام ناحق خوں ریزیوں کے ذریعے نہ پیدا کرنا کہ یہ بات حکومت کو کم زور اور بے جان بنا دیتی ہے بل کہ تباہ کرکے دوسروں کی طرف منتقل کردیتی ہے اور تمہارے پاس نہ خدا کے سامنے اور نہ میرے سامنے عمداً قتل کرنے کا کوئی عذر نہیں ہے اور اس میں زندگی کا قصاص بھی ثابت ہے۔‘‘

’’ دیکھو جس چیز میں تمام لوگ برابر کے شریک ہیں، اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کرلینا اور جو حق نگاہوں کے سامنے واضح ہوجائے، اُس سے غفلت نہ برتنا کہ دُوسروں کے لیے یہی تمہاری ذمّے داری ہے اور عن قریب تمام اُمور سے پردے اُٹھ جائیں گے اور تم سے مظلوم کا بدلہ لے لیا جائے گا۔ اپنے غضب کی تیزی، اپنی سرکشی کے جوش، اپنے ہاتھ کی جنبش اور اپنی زبان کی کاٹ پر قابو رکھنا اور ان تمام چیزوں سے اپنے کو اِس طرح محفوظ رکھنا کہ جلد بازی سے کام نہ لینا اور سزا دینے میں جلدی نہ کرنا، یہاں تک کہ غصہ ٹھہر جائے اور اپنے اُوپر قابو حاصل ہوجائے۔ اور اِس امر پر بھی اختیار اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا ہے جب تک پروردگار کی بارگاہ میں واپسی کا خیال زیادہ سے زیادہ نہ ہوجائے۔‘‘

’’ تمہارا فریضہ ہے کہ ماضی میں گزر جانے والی عادلانہ حکومت اور فاضلانہ سیرت کو یاد رکھو، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آثار اور کتابِ خدا کے احکام کو نگاہ میں رکھو اور جس طرح ہمیں عمل کرتے دیکھا ہے اُسی طرح ہمارے نقش قدم پر چلو اور جو کچھ اِس عہد نامے میں ہم نے بتایا ہے اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرو کہ میں نے تمہارے اُوپر اپنی حجت کو مستحکم کردیا ہے تاکہ جب تمہارا نفس خواہشات کی طرف تیزی سے بڑھے تو تمہارے پاس کوئی عذر نہ رہے۔

اور میں پروردگار کی وسیع رحمت اور ہر مقصد کے عطا کرنے کی عظیم قدرت کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اور تمھیں اُن کاموں کی توفیق دے جن میں اُس کی مرضی ہو اور ہم دونوں اُس کی بارگاہ میں اور بندوں کے سامنے عذر پیش کرنے کے قابل ہوجائیں۔ بندوں کی بہترین تعریف کے حق دار ہوں اور علاقوں میں بہترین آثار چھوڑ کر جائیں۔ نعمت کی فراوانی اور عزت کے روز افزوں اضافے کو برقرار رکھ سکیں اور ہم دونوں کا خاتمہ سعادت اور شہادت پر ہو کہ ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور اُسی کی بارگاہ میں پلٹ کر جانے والے ہیں۔

سلا م ہو رسول اکرمؐ اور اُن کی طیّب و طاہر آل پر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔