قابلیت کو کسی قابل سمجھنے کی ضرورت

شاہد سردار  اتوار 13 مئ 2018

پاکستان ذہین، صلاحیتوں سے مالا مال، محنتی اور قابل لوگوں کا ملک ہے جنھوں نے زندگی کے ہر شعبے میں دنیا سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ نوبل انعامات اور دوسرے بین الاقوامی ایوارڈز اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ کامیابیاں ضروری سہولتوں سے محروم اورکمزور تعلیمی نظام کے باوجود حاصل کی گئیں، لیکن بدقسمتی سے جس طرح دوسرے شعبوں میں ہم وقت کے تقاضے پورے نہیں کر سکے، اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی ہم ترقی نہیں کر سکے۔

ہماری دانست میں وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ اداروں میں میرٹ پر تقرریوں کا فقدان ہے، جو جس کام کا اہل نہیں اسے اہلیت اور قابلیت ملی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں قابلیت کوکسی قابل سمجھنے یا حقدارکو اس کا حق دینے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ اقربا پروری “PR” ہمارا پھٹکار زدہ معاشرہ کیسے کیسے نابغہ روزگار نگل جاتا ہے اور کیسے کیسے نااہل، نکمے اور اوسط درجے کے لوگوں کو بام عروج پر بٹھا دیتا ہے، یہ ہمارے معاشرے میں بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

دراصل بے ہنر، بے مغز لوگوں کو اپنے درمیان کسی قابل یا لائق انسان کی موجودگی اچھی نہیں لگتی اور اہلیت کے آئینے میں جب وہ اپنی مسخ شدہ شکلیں دیکھتے ہیں تو آئینہ ہی توڑنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ قابلیت کوکسی قابل سمجھنا بھی حقیقت میں کسی کو عزت، مرتبہ اور اہمیت دینا ہی ہوتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ ’’اگر لوگوں کو عزت دینا اور معاف کر دینا انسان کی کمزوری بن جائے تو وہ دنیا کا سب سے طاقتور انسان بن جائے۔‘‘ افسوس ہمارے ملک میں ایسے طاقتور ڈھونڈنے سے بھی کہیں نہیں ملتے۔ جانے وہ انسان کہاں گئے جن سے چھونے والا پتھر بھی سونا بن جاتا تھا، جن سے تعلق عمر بھر کا افتخار بن جاتا تھا۔ آج ہم کس عہد میں رہ رہے ہیں ہمارا ہر شعبہ حیات کشت ویراں بن کر رہ گیا ہے۔

ہمارا یہ بہت بڑا معاشرتی المیہ ہے کہ یہاں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کیا جاتا جو ذہین ہوتے ہیں اور اگر شومیٔ قسمت سے ایسا کوئی انسان کسی اونچی کرسی پر فائز ہو جائے تو اسے بمشکل برداشت کیا جاتا ہے، پسند ہر گز نہیں کیا جاتا اور پھر اس کو ہٹانے کے بہانے اور مواقعے تلاش کیے جاتے ہیں۔ ہمارا تازیانہ اصل میں یہ ہے کہ ہم زندگی فرعون کی اور عاقبت موسیٰ کی چاہتے ہیں۔ کاش ہم جان پاتے کہ جس چہرے کے ساتھ ہم پیدا ہوتے ہیں وہ ہمارا انتخاب نہیں ہوتا مگر جس چہرے کے ساتھ ہم مرتے ہیں اسے تراشنے کے ذمے دار ہم خود ہوتے ہیں۔

کرکٹ جیسے بین الاقوامی کھیل کو ہی دیکھ لیں کہ کس طرح وہ ارباب اختیار کے ہاتھوں بے اختیار اور بے سمت پڑی ہوئی ہے۔ اس سے زیادہ برا حال ہماری فلم انڈسٹری کا ہوا ہے، کروڑوں روپے سالانہ سرکاری خزانے میں تفریحی ٹیکس کی مد میں جمع کراتی یہ صنعت جس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا تباہ و برباد ہو گئی۔

آخر یہ کوئی نہیں اورکیوں نہیں سوچتا کہ ہم نئے خیالات، نئی فکر اور نئے رجحانات سے بدکتے کیوں ہیں؟ ہم سب نے تاریخ کے اوراق میں پڑھا اور اب تک اس حقیقت کو تسلیم بھی کیا جا چکا ہے کہ مشرقی پاکستان کے سانحے کی وجہ محض سیاسی غلطی نہ تھی۔ یہ حکمران اشرافیہ کی ابلاغ کی ناکامی اور دبے ہوئے جذبات کو طاقت کے استعمال سے ابھرنے سے روکنے کی پالیسی تھی۔ ہمارے ارباب اختیار جب تک بلند ایوانوں میں اقتدار کے سنگھاسن پر جھولے جھولتے رہتے ہیں تو ملک اور دیگر امورکی خاطر کارکردگی دکھانے کی ضرورت سے مکمل طور پر بے نیاز ہوتے ہیں، اپنی من پسند دنیا سے باہر قدم رکھنے کی زحمت تک نہیں کرتے۔ اپنی مرضی کے جی حضوریوں کے نرغے میں گھرے رہتے ہیں اورکوئی اچھی، تعمیری اور بامقصد بات تک سننا بند کر دیتے ہیں، جب کہ کان اور آنکھیں بند کرکے تو گھر نہیں چلتے یہ لوگ ملک اور ادارے چلاتے ہیں۔

انتہائی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کو جو اصل مسائل درپیش ہیں اس کا حل تو درکنار، اس ملک کی سیاست اور صحافت کے میدانوں میں اس کا ذکر تک نہیں ہو رہا۔ نہ ارباب اختیار ان مسائل کی طرف توجہ دے رہے ہیں، نہ سیاست دان اور نہ ہی وطن کے محافظین اس جانب دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ مسئلہ ہی نہیں کہ نواز شریف وزیر اعظم رہیں یا عمران خان۔ آصف زرداری صدر رہیں یا پھر کوئی اور۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسائل ملکی سیاست کو نہیں بلکہ ریاست کو درپیش ہیں اور ہم سیاست میں شخصیات کو آگے پیچھے کرکے ان کا حل تلاش کر رہے ہیں۔ کاش جاننے والے جان لیں کہ چیلنجز سیاست کے نہیں ریاست کے ہیں اور  مواقع بھی اگر ہیں تو ریاست کے پاس ہیں۔ اس بات کو سبق کی طرح ہر بااختیار کو یاد کرلینا چاہیے کہ تبدیلی  ہر قوم اور معاشرے کے لیے لازم ہوتی ہے اور جمود کے شکار معاشرے کبھی ترقی نہیں کر سکتے، کیونکہ جمود  کا شکار نظام آخر میں تعفن پھیلا کر  قوموں کو تباہ کر دیتا ہے۔

اب بھی ہمارے پاس تھوڑا وقت ہے ہمیں اپنی قائدانہ صفوں میں، اپنے چھوٹے بڑے ہر اہم اور اچھے اداروں میں تبدیلیاں لے آنی چاہئیں اور تجربے کار، اپنے کام کے ماہر، بے لوث اور محنتی لوگوں کو ان کے شایان شان کام ضرور دینا چاہیے یہی ان کی قابلیت کا انعام ہو گا، کیونکہ لکھاری ہوں، ہنر مند، ادیب ہوں یا دانشور یہ سب معاشرے کا دماغ ہوتے ہیں۔ 60 سال کی عمر تک جب وہ تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن بن جاتے ہیں تو انھیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے ہمارے ملک میں۔

حالانکہ ہنرمند، قابل یا دانشوروں کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہونی چاہیے۔ بی بی قریشی کو اس ملک میں معدودے چند لوگ ہی جانتے ہوں گے وہ پاکستان کی پہلی پی ایچ ڈی کرنے والی خاتون ہیں اتنی ماہر تعلیم اتنی ہی خاموشی سے ایدھی سینٹر میں کسمپرسی کے عالم میں دنیا سے چلی گئیں اور جیتے جی ان کی کسی نے قدر نہیں کی کاش ان سے کوئی کام لیا جاتا، ان کے شایان شان قدر کی جاتی۔ لیکن ایسا ان کے ساتھ کیوں کر کیا جاتا کیونکہ ہمارے یہاں تو جعلی ڈگری لینے والوں کو قوم سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور اسے اعلیٰ عہدے بھی دیتی ہے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ ہم مردہ پرست لوگ ہیں جب تک کوئی فنکار، ہنرمند یا دانشور زندہ ہوتا ہے تو اسے جوتوں میں رکھتے ہیں اور جب وہ مرتا ہے تو اسے سر پر بٹھا لیتے ہیں۔

انسان کے مرنے کے بعد جو ہمدردی ہم اسے دیتے ہیں جیتے جی اسے نہیں دیتے ورنہ وہ کبھی نہ مرے۔ لیکن وطن عزیز کی یہ کڑوی سچائی ہے کہ یہاں ہمیشہ سے اہل فن، تخلیق کار، کچھ کر دکھانے والوں، فنکاروں اور ہنرمندوں کو اثاثوں سے زیادہ بوجھ سمجھا جاتا رہا ہے۔ کتنے گوہر نایاب ہم نے مٹی کردیے وہ بلاشبہ پاکستان کا اثاثہ تھے بوجھ نہیں لیکن عاقبت نااندیشوں نے انھیں کسی لائق نہ سمجھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔