کیرئیر کی تبدیلی: سوچ سمجھ کے!

منیرہ عادل  پير 22 اپريل 2013
خواتین نئے پیشے کے انتخاب میں جلد بازی نہ کریں۔ فوٹو: فائل

خواتین نئے پیشے کے انتخاب میں جلد بازی نہ کریں۔ فوٹو: فائل

پیشہ ورانہ زندگی میں بعض اوقات اپنی مرضی اور مزاج کے خلاف شعبے سے سمجھوتا کرنا پڑ جاتا ہے۔

ایسے میں بعض اوقات کچھ وقت گزارنے کے بعد شعبے کی تبدیلی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ یہ نہایت اہم اور بعض اوقات مشکل فیصلہ بھی ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ آپ نے ایک شعبے میں رہ کر جو تجربہ حاصل کیا ہوتا ہے وہ ایک نئے شعبے میں جانے کے بعد بالکل ایک طرف ہو جاتا ہے۔ نئی جگہ اور نئے کام کے لیے ہمیں پھر سے صفر سے آغاز کرنا ہوتا ہے۔ بالخصوص وہ خواتین جو نہایت مجبوری کے عالم میں ملازمت کر رہی ہوتی ہیں، اس کی متحمل نہیں ہو سکتیں، تاوقتے کہ انہیں بہتر تن خواہ نہ ملے۔

بعض خواتین شروع سے ہی اپنے کام کی نوعیت سے مطمئن نہیں ہوتیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب عملی میدان میں قدم رکھتی ہیں تو الجھن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ خود کو اس ملازمت اور عہدے پر ’’مس فٹ‘‘ محسوس کرتی ہیں یا بعض اوقات حالات، ماحول اور ساتھ کام کرنے والے افراد کے رویے مجبور کر دیتے ہیں کہ اس کام کو چھوڑ دیا جائے اور کسی نئے کیریئر کو اپنایا جائے۔ خواتین کی کیرئیر کی تبدیلی میں ان کی شادی اور بچوں کے بعد کی مصروفیات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔گھرداری میں وقت صَرف کرنے کا تقاضا بھی اکثر خواتین کے ایسے فیصلے کا محرک بنتا ہے۔

ایک ملازمت چھوڑ کر دوسری ملازمت اختیار کرنا یوں بھی ایک مشکل کام ہے، ساتھ اگر یک سر مختلف نوعیت کا کام کرنا ہو تو زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، لیکن اگر آپ پرعزم ہیں اور ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتی ہیں تو اس موقع پر ہر چیز کے بارے میں اچھی طرح چھان پھٹک اور صلاح مشورہ کر لیں۔

پہلے اس امر کا جائزہ لیں کہ اس وقت آپ کس شعبے اور کس عہدے پر ہیں؟ آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اب آپ پیشہ ورانہ طور پر کیا اور کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ آپ اپنے موجودہ شعبے سے مطمئن نہیں تو اس امر کا جائزہ لیں کہ نیا شعبے آپ کی بے چینی ختم کر سکے گا؟ نہایت پُرسکون ہو کر اپنے آپ سے یہ سوال کریں اور پوری سچائی کے ساتھ ان کے جواب پر غور کریں، تاکہ اپنی سمت اور منزل کا تعین کر سکیں۔ کسی بھی ایک کام کو چھوڑ کر دوسری مختلف نوعیت کے کام کو کرنے کے لیے سب سے اہم آپ کی لگن اور جذبہ ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر آپ کی تعلیم، تربیت اور تجربہ کسی ایک مخصوص پیشے کے متعلق ہیں، تو آپ کسی یک سر مختلف پیشے کو کیسے اپنا سکتی ہیں؟ اعلا سطح کے پیشہ ورانہ شعبوں میں تو یہ ممکن ہی نہیں۔ تاہم کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں جہاں بعض اوقات مجبوراً دیگر شعبے کے افراد بھی طبع آزمائی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ چوں کہ سمجھوتے کا سودا ہوتا ہے۔ اس لیے اسے ہمیشہ عارضی حل سمجھنا چاہیے اور ساتھ ہی اپنی تعلیم اور رجحان سے مطابقت رکھنے والے شعبے کی تلاش جاری رکھیے، پھر جب کوئی اسامی آئے تو کسی الجھن اور شش وپنج کے بغیر اس طرف قدم بڑھا دینے چاہیٔں، کیوں کہ یہی راستہ آپ کی منزل کی طرف جاتا ہے جب کہ موجودہ ملازمت کی حیثیت آپ کے کیرئیر میں اس ’’پڑاؤ‘‘ کی سی تھی ، جو اپنی  منزل کی طرف جانے والی سواری کا منتظر تھا۔

اس ضمن میں اپنی توقعات کو بہت بلند بانگ نہ رکھیے، آپ نے جہاں اپنے مزاج کے خلاف شعبہ چُن کر سمجھوتا کیا تھا تواب اپنے اصل شعبے کے لیے لچک پیدا کیوں نہیں کی جا سکتی۔ یاد رکھیے، یہ لچک  جلد ہی ثمر آور ثابت ہوگی۔ بہ صورت دیگرآپ کو شاید آگے جا کر پچھتانا پڑ جائے، کیوں کہ بعض اوقات مواقع بار بار بھی نہیں ملتے۔ لہٰذا کیریئر میں ایسی تبدیلی کو بہت مثبت انداز میں فوراً قبول کرنا چاہیے۔ یہ دراصل درست تبدیلی ہوتی ہے، اسے کیرئیر کی تبدیلی کے بہ جائے صحیح معنوں میں کیرئیر کا آغاز خیال کریں۔

دوسری طرف صورت حال اس کے برعکس ہو تو بہت سوچ سمجھ لیجیے۔ جیسے اگر آپ اپنے متعلقہ شعبے کے کسی چھوٹے عہدے پر ہیں اور آپ یک سر ایک مختلف شعبے میں محض زیادہ تن خواہ اور مراعات دیکھ کر دوڑ لگا دیتی ہیں، تو پہلے بہت سوچ  سمجھ لیجیے، ایک طرف آپ کی شدید معاشی ضروریات ہو سکتی ہیں، تو دوسری طرف آپ کا تاب ناک  مستقبل اور کام یابی اور ناکامی کا بھی سوال ہے۔ اس لیے فیصلہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر کیجیے، عارضی فایدے کے پیچھے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دینا دانش مندی نہیں۔ اکثر خواتین محض فوراً حاصل ہونے والے فایدے کے پیچھے غلط فیصلہ کر لیتی ہیں اور پھر نقصان اٹھاتی ہیں۔

ایک طرف ہمارے یہاں محنت کش خواتین کو تن خواہ کم دی جاتی ہے تو دوسری طرف نئے شعبے کی طرف جانے کے بعد ان سے افسران بالا کا رویہ نوواردان کا سا ہوتا ہے، جس سے کام کرنے والی خواتین کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور انہیں تکلیف ہوتی ہے کہ اتنے عرصے کام کرنے کے باوجود ان سے جونیئرز کا برتاؤ کیا جا رہا ہے، حقیقتاً وہ دوسرے شعبے کے تجربے کار بھی ہوتی ہیں، لیکن ایک نئے شعبے میں تو ان کا تجربہ صفر ہی قرار پاتا ہے۔

خواتین کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہوئے کوشش کرنی چاہیے کہ کم سے کم اپنے متعلقہ شعبے کی نہ سہی کم سے کم اس سے قریب تر جگہ حاصل کی جائے، تاکہ من پسندشعبے کی طرف بڑھنے کے مواقع زیادہ اور جلد ملیں۔ مثلاً ایک ادارے میں آپ کا متعلقہ شعبہ موجود ہے، لیکن اسامی کسی دوسرے شعبے کی ہے۔ ایسے میں کوشش کیجیے کہ بہ جائے کسی دوسرے ادارے میں جانے کے آپ اس ہی ادارے کی دوسری اسامی قبول کرلیجیے، کیرئیر کی یہ تبدیلی آپ کے مستقبل کے لیے بہتر ثابت ہوگی۔

ایسے ادارے سے منسلک ہونے کے بعد اس ادارے میں اپنے متعلقہ شعبے میں دل چسپی کا اظہار کیجیے۔ اس شعبے کے لوگوں سے رابطے میں رہیے اور انہیں اس حوالے سے اپنی مہارت اور استعداد کے بارے میں بتائیے، بعض مواقع پر آپ یہاں عملاً رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دے سکتی ہیں، تاکہ آپ کی اہلیت کا پتا چلے کہ واقعتاً یہی آپ کا اصل شعبہ ہے۔ اس موقع پر آپ کو کیرئیر تبدیل کرنے کا فیصلہ مشکل نہیں لگے گا، بلکہ آپ کو یوں لگے گا جیسے جدوجہد کرتی ہوئی اپنی سمت کی طرف گام زن ہوگئی ہیں۔

بعض خواتین باقاعدہ کسی شعبے کی اعلا تعلیم حاصل نہیں کرتیں، اس لیے ان کی خدمات مختلف شعبوں میں کام آسکتی ہیں۔ اس لیے وہ بس روزگار کی خاطر کوئی بھی شعبہ اختیار کر لیتی ہیں اور درمیان میں جانے کے بعد انہیں کیرئیر تبدیلی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں مواقع نہ ہونے کے علاوہ کم زور قوت ارادی اور ابتدا میں مناسب راہ نمائی نہ ملنا ہو سکتا ہے، پھر خواتین خود سے ہی اپنے روزگار کے لیے شعبے منتخب کر لیتی ہیں کہ ان کے مزاج اور میلان کے مطابق صرف یہی میدان ہیں، جہاں انہوں نے مواقع ڈھونڈنے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ خواتین کے لیے سود مند اور بہتر ماحول ہے۔ کام کرنے والی خواتین کو باہر نکلتے ہوئے بالکل الگ مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اس لیے کیرئیر بدلتے ہوئے بھی خیال رکھنا چاہیے، تاکہ ترجیحات برقرار رہیں اور کسی بھی قسم کی دشواریوں اور مسائل سے بچا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔