کھیل دلچسپ ہو چلا

فاطمہ نقوی  جمعـء 15 جون 2018
fnakvi@yahoo.com

[email protected]

مسلم لیگ ن اس وقت حالت انتشار میں نظر آرہی ہے، اندرونی ٹوٹ پھوٹ کی کہانیاں اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے شروع ہی سے پاکستان کی عدلیہ اور مسلح افواج کے ساتھ تصادم کی پالیسی اختیار کی اور کوشش کی کہ اداروں کو ظالم اور خود کو مظلوم اپنے بیانیوں کے زور پر ثابت کرسکیں۔ اس میں ان کا ساتھ کچھ صحافیوں نے بھی دیا جوکہ فوج کی بالادستی کے خلاف ہیں۔ مجھے کیوں نکالا کے بعد مجھے پتہ نہیں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔

لگتا ہے ان کی یادداشت خراب ہوگئی ہے، جس کے لیے انھیں بادام کھانے کا مشورہ نیب دے سکتی تھی، مگر پھر سوچا ہوگا کہ اس کے اخراجات بھی حکومت کے پلے سے خرچ کرنا پڑیں گے۔ ساڑھے تین سو سوالات کے جوابات مجھے پتہ نہیں کہہ کر نواز شریف نے نیب کا خون تو بہت جلایا ہوگا، مگر اس بات کا پتہ چل گیا کہ انھوں نے ایسے پزل حل کیے ہوںگے جن میں کچھ سوالات دے کر پوچھا جاتا ہے کہ جواب ایک ہی ہونا چاہیے۔

انھوں نے ان سوالات کو بھی اسی پزل کی صورت جان کر ایک ہی جواب سے سب سوالوں کو نمٹادیا کہ مجھے کچھ پتہ نہیں۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کے مفرور بیٹے جنھیں انتہائی کم عمری میں ارب پتی کھرب پتی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا، کون سی گیدڑ سنگھی تھی ان کے پاس جس کے ذریعے وہ اس مقام تک جا پہنچے۔ نوازشریف کا رابطہ اپنے بیٹوں کے ساتھ مسلسل ہے، لندن جاتے ہیں تو یہی بیٹے انھیں ریسیو کرتے ہیں، اس متنازعہ گھر میں ان کا قیام ہوتا ہے، پھر بھی کچھ پتہ نہیں۔ ہمارا تو مشورہ ہے کہ اب عید منانے لندن یاترا پر جائیں تو کچھ پتہ کرکے ضرور آئیں، مستقبل میں کام آئے گا۔

واقعی ہمت کی بات ہے اپنے اس بیانیہ پر قائم رہنا، لاڈلے تو یہ لوگ ہی ہیں، ورنہ ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ پیپلزپارٹی ہو یا ایم کیو ایم، ان پر ہونے والے الزامات ان لوگوں نے بھگتے اور کوئی ریلیف بھی نہیں ملا۔ آصف زرداری، بے نظیر بھٹو نے اپنے قیمتی سال جیل میں گزارے یا پھر عدالتوں کے چکر کاٹتے ہوئے، مگر کسی حالت میں توہین عدالت کے مرتکب نہ ہوئے۔ بے نظیر انتہائی بے بسی کے عالم میں اپنے بچوں کو ایک عام عورت کی طرح جیل میں باپ سے ملوانے لے جاتی تھیں مگر انھوں نے نہایت تدبر، بردباری، سنجیدگی کا ثبوت دیا، اداروں کا احترام ہر صورت میں ملحوظ خاطر رکھا۔

دوسری جانب نواز شریف مستقل عدلیہ اور فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کررہے ہیں، مگر نہ ان کی اور نہ ان کی بیٹی، بلکہ سوشل میڈیا پر جہاں ان کی حمایتی معزز اداروں کے خلاف مہم چلارہے ہیں، مگر کوئی کارروائی ان کے خلاف نہیں ہورہی۔ اب ایک نیا ڈرامہ شروع کیا ہے کہ ان کے وکیل نے کیس چھوڑ دینے کی دھمکی دی ہے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے اپنے دلائل مکمل نہ کرسکیں گے۔ تقریباً 9 مہینے سے زیادہ وقت ہوگیا مگر ان کی وقت کی کمی دور نہ ہوئی۔ یہ کھلا کھلا پریشر ڈالنے کا ایک انداز ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں، اس لیے نواز شریف کی مشاورت سے یہ طے ہوا ہے کہ وقت کو جتنا گھسیٹ سکتے ہو گھسیٹ لو، تاکہ الیکشن سے پہلے فیصلے کی گھڑی نہ آجائے۔ اب مزید ایک ماہ کی مہلت بھی ان کو کم لگ رہی ہے۔ تاخیری حربے استعمال کرکے نواز شریف صفا چٹ نکلنا چاہ رہے ہیں، کیونکہ قطری خطوط ان کے غلط ثابت ہوچکے، یہ کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے، مگر پریس کانفرنس کے ذریعے لوگوں کو بہکانے اور غلط رخ پر ڈالنے کا عمل جاری ہے۔

پریس کانفرنس بھی وہ جہاں سوالات کی اجازت ہی نہیں، موصوف آئے بیانیہ دیا اور چلے گئے۔ میرے خیال میں تو صحافیوں اور چینلز کو ایسی پریس کانفرنسز کی کوریج ہی نہیں کرنی چاہیے اور ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے اور ان کے بیانیہ کو سپورٹ کے بجائے اس بات پر اصرار کرنا چاہیے کہ سوالات ضرور کیے جائیں گے، مگر ان لوگوں میں نہ تو صحافیوں کے سوالات کے جوابات دینے کی ہمت ہے اور نہ ہی نیب کے سوالات کے جواب دے پارہا۔ کیونکہ کوئی جواب ایسا نہیں جو لوگوں مطمئن کرسکے، مگر ڈھٹائی کی حد ہے کہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھ رہے ہیں۔ عوام کی حالت پتلی سے پتلی ہوجاتی ہے مقدمات کا سامنا کرتے کرتے، مگر ان پر کوئی اثر نہیں۔ یہ لوگ اس ایجنڈے پر کارفرما ہیں کہ فوج کے کردار کو انتہائی کمزور ظاہر کیا جائے، تاکہ اگر سزا ہو تو بین الاقوامی میڈیا اور کرتا دھرتائوں کو یہ ظاہر کیا جائے۔

ان کو سزا حقائق کے سامنے لانے پر ہوئی ہے۔ لیکن فوج نے انتہائی دانش مندی سے فیصلہ کیا کہ عدالتی کارروائی میں دخل اندازی نہ کی جائے، مگر کیا کریں مریم نواز اور نواز شریف کی توپوں کا رخ اسی طرح ہے، جب کہ شہبازشریف نے ہاتھ ہلکا رکھا ہوا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات رکھے جائیں۔ چوہدری نثار کا بھی مشورہ یہی تھا مگر نواز شریف اور ان کی بیٹی ’میں نہ مانوں‘ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ چوہدری نثار کو مسلم لیگ ن کی طرف سے ٹکٹ بھی نہیں ملا، کیوںکہ شرط تھی کہ وہ خود درخواست دیں، اس طرح سے نواز شریف کی انا کو تسکین ملنے والی تھی مگر چوہدری نثار نے پروں پر پانی نہ پڑنے دیا اور فیصلہ کرلیا کہ وہ آزادانہ ہی انتخابات میں حصہ لیں گے۔

2018ء کے انتخابات بہت اہم ہیں، ان انتخابات میں ہی فیصلہ ہونا ہے کہ کون مقدر کا سکندر بنے گا، مگر ہمیں تو یہ نظر آرہا ہے کہ ایسی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی، اگر عمران خان وزیراعظم بن بھی گئے تو حکومت تو مخلوط ہی بنے گی، سندھ زرداری کے ہاتھوں میں ہی رہے گا، کراچی میں بھی امکان نظر آتا ہے کہ کچھ سیٹیں پیپلزپارٹی لے جائے کیونکہ ایم کیو ایم تو بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، ووٹر پریشان ہے کہ کس دھڑے کو ووٹ دے، خیبر پختونخوا میں عمران نے کام تو کیے مگر ٹکٹوں کی تقسیم میں جو کارنامے انجام دیے ہیں جس سے تحریک انصاف کے کارکنوں میں بڑا غم و غصہ پایا جاتا ہے، کیونکہ خان صاحب نے ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ سے نوازا ہے جو صرف اور صرف چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ کھیل بڑا دلچسپ ہوچکا ہے، دیکھیں کیا ہوتا ہے، سب کو 25 جولائی کا انتظار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔