11مئی! ہمارا ووٹ ، ہماری تقدیر !!

سارہ لیاقت  ہفتہ 11 مئ 2013

11 مئی کا دن آن پہنچا ہے وہ دن کہ جس کا سب کو بڑی شدت سے انتظار تھا ۔اس بار ہمیں جن غیر معمولی حالات کا سامنا رہا ہے انھوں نے آخری دن تک ساری قوم کو اس بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کیے رکھا کہ کیا واقعی الیکشن ہونے جارہے ہیں یا نہیں ۔ سارے اندیشوں ،وسوسوں کے باوجود آخر الیکشن تک ہم پہنچ ہی گئے ہیں ۔

آج 18 کروڑ عوام کی سیاسی بصیرت اور اس ملک کے ساتھ محبت کے امتحان کا دن ہے کیونکہ آج ہماری اور ہمارے ملک کی تقدیر سیاستدانوں کے نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ہمارا آج کا کیا ہوا صرف ایک فیصلہ آیندہ پانچ سال ہمیں خود ہی بھگتنا ہوگا ۔ پچھلے 5سالوں کی تکلیفیں، اذیتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ بہت سے لوگوں کا تو جمہوریت وسیاست سے ہی اعتماد اٹھ چکا ہے لیکن پھر بھی ہمیں اس نظام پہ اپنے لوگوں پہ اعتماد کرنا ہے ۔کیو ں نا اب کی بارہمیشہ کی طرح آزمائے ہوئے لوگوں سے دھوکا کھانے کی بجائے کسی نئے پر اعتبار کر کے دیکھیں ۔

پاکستان کے اس وقت کے حالات اس قدر مایوس کن ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسی کڑی دھوپ میں کھڑے ہیں جہاں دور دور تک کوئی نخلستان دکھائی نہیں دیتا۔ آنے والا وقت بہاروں کا نقیب ہونے کی بجائے خزاؤں کی آمد کا اعلان کررہا ہے۔ بے گناہ لوگوں کا خون سڑکوں پر بہایا جا رہا ہے ۔

اسلام کے نام پہ بنے اس ملک میں اتنے زیادہ مذہبی فرقے بن گئے ہیں کہ ہر ایک کے لیے دوسرے کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ مہنگائی ، غربت کے ہاتھوں تنگ غریب لوگوں کا زندہ رہنا موت سے زیادہ اذیت ناک ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہزاروں لوگ نہ صرف حرام موت کو گلے لگا رہے ہیں بلکہ اب اجتماعی خودکشی جیسے لرزا دینے والے واقعات بھی منظر عام پر ہونے لگے ہیں ۔ مسجدوں سے اﷲ اکبر کی آوازیں گونجنے کی بجائے لاشے نکل رہے ہیں ۔ کسی کی جان ، مال ، عزت کا تحفظ نہیں ، عورتوں کی عزتیں سر بازار لٹ رہی ہیں ۔

زندگی گزارنے کی بہترین سہولیات صرف ان نام نہاد شرفاء کو میسر ہیں جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹا ہے اور آج پھرہمیں اپنی پارسائی کا یقین دلاتے پھر رہے ہیں۔ ہر گلی محلے میں یہ نام نہاد حکمران اپنی سیاست کی دکانوں کو سجائے لوگوں کے خواب بیچ رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے لوگ ایک بار پھر بکنے کو تیار کھڑے ہیں ۔

آج نجانے کیوں دل کرتا ہے کہ اپنے آپ کو حالات کی تلخیوں سے دور لے جا کر کچھ نئے خواب بنیں، ایک نئے پاکستان کا خواب دیکھیں۔ ایک خواب تو وہ تھا جو علامہ اقبال نے پاکستان بننے سے پہلے دیکھا تھا مگر اقبال کا خواب جو وطن تھا وہ خواب پاکستان کے بن جانے کے تریسٹھ برس بعد بھی ادھورا ہے اور اس کا قصور وار کون ہے ؟ اگر ہم سب اپنے گریبانوں میں جھانک کے دیکھیں اور اپنے آپ کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کریں تو کوئی بھی ہاتھ بے داغ نہیں دکھائی دیتا ہر دامن پہ لہو کے چھینٹے ہیں ۔

آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اس کے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ہم سب بھی قصوروار ہیں مگر ابھی بھی وقت ہے ، حالات ہماری دسترس میں آ سکتے ہیں اگر ہم ووٹ کو اپنا قومی فریضہ سمجھ کر ادا کریں اور آج کے دن گھروں سے باہر نکلیں ۔ یاد رکھیے 11 مئی فیصلے کا دن ہے اب پھر اگر فیصلے میں غلطی کی تو اس غلطی کا خمیازہ بھی ہم ہی کو اگلے پانچ برس بھگتنا پڑے گا ۔ خدارا اب ذات ، برادری، قومیت اور قبروں کی سیاست سے باہرآجائیں اور ووٹ دیتے وقت صرف اور صرف اپنے آپ کو یاد رکھیں ۔ ذات ،برادریوں،خاندانوں کی اورقبروں کی سیاست نے ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔

اب وقت آ گیا ہے کہ نئے لوگوں کو آ زمایا جائے۔ نئے وعدوں نئے چہروں اور نئی سوچ پر اعتبار کیا جائے ۔ نیا پاکستان تخلیق کیا جائے ۔ خود کو تجربہ کار کہلانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آج آگ و خون اگلتا پاکستان انھی لوگوں کے تجربے کا نچوڑ ہے ۔

سیاست پہ، ہمارے مستقبل پہ اپنی باریاں لگانے والے ، اپنا اور اپنے بچوں کا حق سمجھنے والے حکمرانی کے وقت کسی کو یاد نہیں رکھتے مگر عوام کے کٹہرے میں ان کو بھی بہرحال اب کی بار جواب دہ ہونا پڑے گا اور یہ صرف تب ہی ممکن ہے کہ ہم ان کو اپنے ہونے کا اپنی طاقت کا احساس دلائیں اور ہماری طاقت ہمارا ہتھیار ہمارا ووٹ ہے ۔ جس کا آج ہر قیمت پر ہمیں استعمال کرنا ہے ۔ حالات جتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں ۔ موسم جتنا ہی شدید کیوں نہ ہو بس آپ سب سے صرف ایک عہد چاہیے کہ اپنے ووٹ کا ، اپنے پاکستانی ہونے کا حق ضرور ، سچائی اور پوری دیانت سے یہ سوچ کر ادا کریں کہ ہمارے نئے پاکستان کے خواب کی تعبیر ہمارے اپنے ہی ہاتھ میں ہے صرف ہمارا ووٹ ہی ہماری تقدیر بدل سکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔