ڈیوڈ کاپر فیلڈ کی طرح مجسمۂ آزادی غائب کرسکتا ہوں

اقبال خورشید / اشرف میمن  بدھ 15 مئ 2013
 ’’اسٹریٹ میجک‘‘ کے ماہر ،  ارشد حسین کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

’’اسٹریٹ میجک‘‘ کے ماہر ، ارشد حسین کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

 ایک روز سڑک سے گزر رہے تھے کہ مجمع دیکھ کر رک گئے۔

سحرزدہ چہروں سے ہوتی ہوئی نظر ایک نوجوان پر پڑی، جو جادوئی کمالات دِکھا رہا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب اُن کی آنکھوں کے سامنے اچانک رومال غائب ہوگیا، راکھ نے ہزار روپے کے نوٹ کی شکل اختیار کر لی۔ مجمع چھٹا، تو ساحر کے پاس پہنچ گئے۔ کمالات سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ جواب میں سات ہزار روپے کا تقاضا کیا گیا۔ جیب میں ساڑھے چار ہزار روپے تھے، جو فوراً حوالے کر دیے۔ ساحر نے کچھ چیزیں ہاتھ میں تھمائیں۔ جُھکا، اور کان میں سرگوشیاں کرنے لگا۔

یہ نقطۂ آغاز تھا، اُس سفر کا جس نے ارشد حسین کو جادو کی حیرت بھری دنیا میں دھکیل دیا۔ کسی کو باقاعدہ استاد نہیں کیا۔ ٹِرکس کا ہمیشہ تنہا تعاقب کرتے رہے۔ جہاں ملیں، معاوضہ ادا کرکے سیکھ لیں۔ ٹی وی شوز نے اُن کی شہرت کو مہمیز کیا۔

لگ بھگ 70 شوز کرچکے ہیں، جن میں سے دو ’’دم ہے‘‘ اور ’’جادو‘‘ بے حد مقبول ہوئے۔ نجی تقریبات کی تعداد تو سیکڑوں میں ہے۔ چند ماہ قبل سفاری پارک، کراچی میں ہونے والے، چھے گھنٹے پر محیط ایک شو کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں، جہاں حاضرین کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی۔ اُن کے مشہور آئٹمز میں سامنے والے کا دماغ پڑھنا، کولڈ ڈرنک کے کین میں سکہ داخل کرنا، زمین کو ہاتھ لگائے بغیر مٹی اٹھانا، چُھوئے بغیر تسمے باندھ دینا اور شیشے سے سکہ گزارنا نمایاں ہیں۔

اپنے نئے Illusion ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں، جو انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اِس Illusion میں وہ خالی ڈبے سے روٹی، کپڑا اور ایک چھوٹا سے مکان برآمد کر کے حاضرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ ارشد بلا کے بذلہ سنج ہیں۔ چٹکلے سنانے کے ماہر۔ لباس کے معاملے میں دیگر میجیشینز سے مختلف واقع ہوئے ہیں۔ عام طور سے شعبدے باز سوٹ پہنتا ہے، آستینیں اور جیبیں اشیا چھپانے میں معاون ہوتی ہیں، مگر ارشد ہمیشہ آدھے بازو کی شرٹ میں نظر آتے ہیں۔ ڈیوڈ کاپر فیلڈ کے وہ مداح ہیں۔ خواہش ہے کہ ہندوستان میں اپنے فن کا جادو جگائیں۔

ارشد حسین نے دسمبر 1971 میں کراچی میں آنکھ کھولی۔ والد، راشد حسین کاروباری آدمی ہیں۔ چار بہنوں، چار بھائیوں میں وہ بڑے ہیں۔ بچپن میں خالہ نے گود لے لیا، اُن ہی کے زیرسایہ پروان چڑھے۔ والدین کے اسلام آباد منتقل ہونے کے بعدوہ کراچی کی گلیوں میں شعور کا سفر طے کرتے رہے۔

ٹیبل ٹینس من پسند کھیل رہا۔ پتنگ بھی خوب اڑائی۔ شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوا کرتا۔ 85ء میں میٹرک کرنے کے بعد گریجویشن کا مرحلہ پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے طے کیا۔ اُسی زمانے میں سُروں سے دوستی ہوئی۔ گائیکی کے علاوہ گٹار، ڈرم اور دیگر انسٹرومینٹس سے بھی رشتہ رہا۔ بعد میں اِس شعبے سے الگ ہوگئے۔ البتہ آج بھی ٹھیک ٹھاک گا لیتے ہیں۔

میٹرک کے بعد ہی عملی زندگی میں قدم رکھا دیا۔ سمندر کی سمت چل پڑے۔ اُس زمانے میں سیپیوں سے بنی اشیا کی خرید و فروخت کلفٹن کے علاقے تک محدود تھی، اُنھوں نے ڈیلر کی حیثیت سے اُن اشیا کو کراچی کی دیگر مارکیٹوں میں متعارف کروایا۔ کاروبار میں کام یابی حاصل ہوئی۔ مصنوعی زیورات کے کاروبار میں بھی قسمت آزمائی۔ شہر کے بگڑتے حالات اسلام آباد لے گئے۔ پنڈی اور اسلام آباد کے دو بڑے ہوٹلز میں ملازم رہے۔ پھر پاکستان اٹامک انرجی کا حصہ بن گئے۔

اگلے بارہ سال وہاں بیتے۔ اس عرصے میں کراچی کی یاد ستاتی رہی، جس نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ بالآخر ملازمت چھوڑ کر شہر قائد لوٹ آئے۔ یہاں آنے کے بعد ملازمتیں کیں، اپنا کاروبار شروع کیا، مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی کہ اُس وقت تک جادو کی دنیا جکڑ چکی تھی۔آغاز میں سیکھی ہوئی ’’ٹِرکس‘‘ دوست احباب کے سامنے پیش کیا کرتے تھے۔ وقت شوق کے لیے مہمیز کا کام کرتا رہا۔ کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔ امریکا سے سی ڈیز منگوائیں، جن کے لیے ٹھیک ٹھاک پیسے خرچ کرنے پڑے۔

اب سے اٹھارہ برس قبل ایک تقریب میں پہلی بار باقاعدہ پرفارم کیا۔ اگلے ہی روز نارتھ ناظم آباد میں واقع ایک ریسٹورنٹ کے مالک سے ملاقات ہوگئی۔ چند دن بعد ارشد وہاں فن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ جلد ہی اپنا سکہ جما لیا۔ اگلے بارہ برس وہاں گزرے۔ وہیں ایک زور پرائیویٹ چینل کی ایک پروڈیوسر سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے اُنھیں ریالٹی شو میں شرکت کرنے کی پیش کش کردی۔ ’’دم ہے‘‘ نامی اُس شو کے پہلے ہی پروگرام نے اُنھیں توجہ کا مرکز بنا دیا۔ سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی۔ پورے ملک میں اُنھیں پہچانا جانے لگا۔

یہ ایک بڑی کام یابی تھی۔ ’’دم ہے‘‘ کے توسط سے اُنھیں ایک اور پرائیویٹ چینل کے شو ’’جادو‘‘ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔ 26 اقساط پر مشتمل اِس شو کی بہت پزیرائی ہوئی۔ آنے والے دنوں میں اُنھیں متعدد ٹی وی چینلز کے شوز میں مدعو کیا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

 

میجیشین کے حوالے سے ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ کیا ہے؟ اِس بابت کہتے ہیں،’’میرا تجربہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں میجیشین کو عزت دی جاتی ہے۔ اب اِسے آرٹسٹ تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ویسے بھی یہ پرفارمنگ آرٹ ہے۔‘‘

Illusions موضوع بنے، اُن کی مہارت پر بات ہوئی، تو کہنے لگے،’’دنیا کے دوسرے ممالک کے میجیشین جو Illusions کر سکتے ہیں، وہ میں بھی کرسکتا ہوں۔ مسئلہ اسپانسر کا ہے۔ دراصل Illusions بہت آسان ہوتے ہیں، معاملہ تکنیک، پریکٹس اور سرمایے کا ہے۔

میں بھی ہاتھی، ریل کا انجن اور ٹائی ٹینک غائب کرسکتا ہوں۔ اگر اسپانسر ہو، تو ڈیوڈ کاپر فیلڈ کی طرح مجسمۂ آزادی غائب کرسکتا ہوں۔‘‘ اُن کے مطابق جب تک آپ ’ٹِرک‘ سمجھ نہیں پاتے، فقط تب ہی تک وہ جادو ہے۔ سِکھانے کا سلسلہ بھی برسوں سے جاری ہے۔ ہر عمر کے افراد اُن سے ’’ٹِرکس‘‘ سیکھ چکے ہیں۔ فیس معمولی ہے۔ ’’میں نے شیشے سے سکہ گزارنے کی ٹِرک 29000 روپے میں سیکھی، مگر یہ ٹِرک آج میں فقط دو ہزار روپے میں سِکھا رہا ہوں۔ معاوضہ کم رکھنے کی وجہ بڑھتی منہگائی ہے۔ فیس زیادہ ہوں گی، تو کون سیکھنے آئے گا۔‘‘

شادی کب ہوئی؟ یہ سوال سنتے ہی ان کی رگ مزاح پھڑکتی ہے۔ سرد آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں،’’وہ 18 مارچ کا دن تھا۔ سال 2001۔ اُس زمانے میں میرے اعمال اچھے نہیں تھے، بس اِسی وجہ سے ’اُن‘ سے سامنا ہوگیا۔‘‘ بیگم کی بابت کہتے ہیں،’’بس، وہ اردو ادب میں ماسٹرز ہیں، اور میں بے ادبی میں پی ایچ ڈی! شادی کی سال گرہ پر میں اُنھیں مالا کا وہ گیت ضرور سناتا ہوں: میری قسمت بتا، کیا ہے میری خطا، کن گناہوں کی مجھ کو ملی ہے سزا۔

(قہقہہ)‘‘ خدا نے اُنھیں ایک بیٹی، تین بیٹوں سے نوازا۔ شفیق والد ہیں۔ مذہب سے گہرا لگاؤ ہے۔ قرآن کی کئی سورتیں یاد ہیں۔ اردو ادب سے بھی دوستی گہری ہے۔ کہتے ہیں،’’شاعری سے گہرا شغف ہے۔ لدھیانے کا جادوگر (ساحر لدھیانوی) بہت پسند ہے۔‘‘ دیوان غالب پسندیدہ کتاب ہے۔ موسیقی سے گہرا شغف ہے، جو وراثت میں ملا۔ ’’جب میں اسلام آباد جاتا ہوں، تو والد صاحب اپنی الماریوں کو تالا لگا دیتے ہیں۔ اُن کے پاس، اور میرے پاس بھی سہگل اور بیگم اختر سمیت کئی گلوکاروں کے انتہائی پرانے ریکارڈز ہیں۔‘‘ امیتابھ بچن کے مداح ہیں۔

فلموں میں ’’باغ بان‘‘ اچھی لگی۔ دو خواہشات ایسی ہیں، جن کے پورے ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ ایک بیوی بچوں کے ساتھ حج کرنا، دوسری اپنے چھوٹے بیٹے، عبداﷲ کے بچوں کے ساتھ کھیلنا۔

’’میجک‘‘ نظر کا دھوکا ہے، نظر بندی نہیں!
ارشد کے نزدیک Illusions نظر کا دھوکا ہے، مگر چند کم فہم اِسے نظربندی سمجھ لیتے ہیں۔ کہنا ہے، میجیشین ایک ایسی صورت حال پیدا کردیتا ہے، جس سے حاضرین کی نظر دھوکا کھا جاتی ہے، التباس جنم لیتا ہے۔ وہ نظربندی کو پوری طرح رد کرتے ہوئے کہتے ہیں، میجک میں اس کی نہ تو ضرورت ہے، نہ ہی گنجایش۔

ماضی کی طرح کیا آج بھی حاضرین یہ خیال کرتے ہیں کہ میجیشین پُراسرار قوتوں کا حامل ہوتا ہے؟ اِس تعلق سے کہتے ہیں، ’’نہیں۔ لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ میجک ایک فن ہے۔ وہ اِس سے محظوظ ہوتے ہیں، البتہ اب بھی کچھ افراد ایسے ہیں، جو ڈر جاتے ہیں۔ اس میں کچھ پراسرار نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے یہ فن عام ہوگا، غلطی فہمیاں گھٹتی جائیں گی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔