چڑیا نے دانہ لیا‘ پھر سے اڑگئی

طارق محمود میاں  ہفتہ 18 مئ 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

یاد تو مجھے 1970 کے انتخابات بھی ہیں لیکن 11 مئی والے تازہ الیکشن کے بعد مجھے 1977 بہت یاد آرہا ہے۔ یعنی وہی انتخابات جن میں دھاندلی کا الزام لگا تھا اور بھٹو کے خلاف تحریک چلی تھی۔ 1970 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے باقی سارا سندھ اور پنجاب تو فتح کرلیا تھا لیکن کراچی میں ناکام ہوگئی تھی۔ جب 1977 کا الیکشن آیا تو بھٹو صاحب نے کراچی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایک خاص حکمت عملی ترتیب دی۔ انھوں نے شہر کے مخصوص حلقوں میں ایسے معروف لوگوں کو ٹکٹ دیے جو اچھی شہرت رکھتے تھے یا جن کا خاندانی پس منظر اچھا تھا ۔ ان میں حکیم محمد سعید، جمیل الدین عالی اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان کے بیٹے نوابزادہ اکبر لیاقت بھی شامل تھے، یہ سب الیکشن ہارگئے۔

لیاقت آباد کو فتح کرنا بھٹو صاحب کا دیرینہ خواب تھا۔ اسی مقصد سے انھوں نے وہاں ایک عظیم الشان کثیر المنزلہ سپرمارکیٹ بھی تعمیر کی تھی۔ یہیں سے انھوں نے اکبر لیاقت کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا کہ شاید وہ اپنے والد سے موسوم اس علاقے سے سیٹ نکالنے میں کامیاب ہو جائیں۔ یوں بظاہر یہاں کراچی کا سب سے بڑا انتخابی معرکہ ہونے والا تھا۔ نوابزادہ اکبر لیاقت ایک جوان جہان، فیشن ایبل اور دنیا جہان کی لذتوں سے آشنا شخص تھے۔ اس سے پہلے ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انتخابات ہوئے تو انھوں نے بہت بری طرح شکست کھائی۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر عبدالغفور احمد قومی اتحاد کی طرف سے ان کے مدمقابل تھے۔ وہ بڑی دھوم دھام سے کامیاب ہوگئے۔ کوئی بڑا معرکہ کیا ہونا تھا، یہ بالکل یکطرفہ مقابلہ ثابت ہوا۔

اس ہار کے چند ہی روز کے بعد میں نے اکبر لیاقت سے ایک طویل ملاقات کی تھی اور ان سے اس شکست کے پس منظر میں کراچی کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ اس بات کو 36 برس گزر چکے ہیں۔ یہاں میں اس ملاقات کی کچھ باتیں آپ سے شیئر کروں گا۔ دیکھیں اس طویل مدت میں ہم نے کتنا سفر طے کیا ہے۔

وہ کلفٹن کے علاقے باتھ آئی لینڈ میں رہائش پذیر تھے، میں ملاقات کے لیے پہنچا تو انھوں نے سادہ سی قمیض شلوار پہن رکھی تھی۔ ڈرائنگ روم میں گفتگو شروع ہوئی۔ میز پر بکھرے ہوئے بہت سے اخبارات، سگریٹ، ایش ٹرے اور چائے کی پیالیاں۔ انھوں نے بڑی تفصیل سے سیاست میں اپنی آمد کی کہانی سنائی۔ میرا خیال تھا کہ وہ ایکدم کود پڑے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 1973 میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن جب ان کی والدہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کو سندھ کی گورنر بنادیا گیا تو انھوں نے ارادہ ملتوی کردیا، تین برس کے بعد جونہی انھوں نے گورنری چھوڑی نوابزادہ صاحب نے پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ ٹکٹ ملنے کے بعد انھوں نے خوب جان مار کے اپنی انتخابی مہم چلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ڈور ٹو ڈور جاتا رہا۔ روز آٹھ گھنٹے پیدل چلتا رہا اور میں نے 11700 مکانات خود جاکے کور کیے۔ اکتیس روز تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ تین ووٹرز فی مکان کے حساب سے اوسط نکالی جائے تو میں نے تقریباً 35 ہزار ووٹروں سے بذات خود ملاقات کی۔

میں نے پوچھا کہ اتنی محنت کے باوجود آپ بری طرح ہار گئے اور اب پی این اے کے امیدوار پروفیسر عبدالغفور احمد پر دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں۔ تفصیل کیا ہے؟

جواب میں نوابزادہ اکبر لیاقت نے جو تفصیل بتائی وہ یوں تھی۔ ’’دھاندلی تو ان لوگوں نے الیکشن کی مہم کے دوران ہی شروع کردی تھی جب میرے بارے میں مختلف قسم کی افواہیں اڑائی گئیں۔ لوگوں کے سامنے قسمیں کھاکھا کے کہا گیا کہ اکبر لیاقت تو کوٹ ٹائی کے سوا  اور کچھ پہنتا ہی نہیں اور اسے تو اردو بھی نہیں بولنا آتی۔ حالانکہ دیکھئے میں آپ کے سامنے اردو بول رہا ہوں۔ انگریزی، فرانسیسی اور جرمنی بھی بولتا ہوں اور اردو بھی۔ جہاں تک الیکشن کے دن کا تعلق ہے تو اس روز ساڑھے دس بجے سے ہنگامہ شروع ہوگیا تھا جب سی سی ون لیاقت آباد پولنگ اسٹیشن پر دھاندلی کی گئی اور فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ایک 13 سالہ لڑکا مرگیا۔

میرے حلقے میں دس سینٹرز پر خواتین کے 23 پولنگ اسٹیشن تھے۔ پونے گیارہ سے بارہ بجے تک ان میں سے چھ سینٹرز جلادیے گئے اور اس دوران ہماری تین پولنگ ایجنٹس کو اسپتال لے جانا پڑا۔ ان میں سے دو کے بال کاٹے گئے تھے اور تیسری کو  پتھر مارے گئے تھے۔ مردوں کے 14 پولنگ سینٹرز میں 38 پولنگ اسٹیشن تھے جن میں سے پانچ سینٹرز اس وقت تک جلائے جاچکے تھے۔ سوا بارہ بجے سے ڈیڑھ بجے تک عورتوں کے بھی باقی کے تمام پولنگ سینٹرز یا تو جلادیے گئے یا پھر انھیں گرادیا گیا۔ اس کے بعد ہمارا ایک بھی ووٹ نہیں پڑسکا۔ یکطرفہ پولنگ ہوتی رہی۔ ہماری آٹھ پولنگ ایجنٹس اڑتالیس گھنٹے تک لاپتہ رہیں۔ وہ جانے کس طرح سے بچ بچا کے دوستوں وغیرہ کے گھروں میں چھپی رہیں کیونکہ انھیں مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ پروفیسر عبدالغفور بیس پچیس آدمیوں کے ساتھ خود عورتوں کے پولنگ اسٹیشنوں کے اندر جاتے رہے حالانکہ وہاں مردوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے‘‘۔

نوابزادہ صاحب سے ملاقات کی باقی تفصیل میرا آج کا موضوع نہیں ہے حالانکہ اس میں ریس کے گھوڑوں، شراب کی ٹھیکیداری، میتھیلیٹڈ اسپرٹ اور پولو کا بھی ذکر تھا۔ میرا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ اتنے برسوں کے اس طویل سفر کے بعد بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ہمارے انتخابی کلچر میں سرمو کوئی فرق نہیں آیا۔ جس کا زور ہوتا ہے وہ اسے دکھاتا بھی ہے۔ بیلیٹ بکس کے اندر بھی اور اس کے باہر بھی۔ ہاں البتہ اس دفعہ ایک فرق دکھائی دے رہا ہے کہ طاقت اپنے مرکز سے ہٹ رہی ہے۔ یہاں کے مینڈیٹ کو پہلی بار ایک چیلنج دکھائی دے رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا صرف پی ٹی آئی کی کوششوں سے نہیں ہوا ہے۔ یہ تبدیلی خودبخود آرہی ہے۔ شاید تاریخ تھک گئی ہے۔ ایک ہی ساز، ایک ہی راگ، ایک ہی کہانی کوئی کب تک اور کتنے برسوں تک دہرائے؟ چڑیا آئی، گندم کا ایک دانہ چونچ میں لیا اور پھر سے اڑگئی۔ پھر آئی، ایک دانہ لیا اور پھر سے اڑ گئی۔ نہ غلے کا گودام خالی ہو نہ کہانی آگے بڑھے ۔ تاریخ بور ہوجاتی ہے اور صفحہ پلٹ دیتی ہے۔

پی ٹی آئی نے محنت دوسری جگہوں پر کی، پھل اسے یہاں ملا۔ کون جانتا تھا کہ اسے ہر رنگ، نسل، زبان اور طبقے سے اتنے ووٹ ملیں گے۔ شاید یہ آغاز ہے ایک انجام کار اس تبدیلی کا، جسے حاصل کرنے کی بھٹو صاحب نے بھی کوشش کی تھی پر ناکام رہے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔