اسد قیصر قومی اسمبلی کے نئے اسپیکر منتخب

ایڈیٹوریل  جمعرات 16 اگست 2018
نئی حکومت کواپنی ترجیحات اور اہداف کے حصول کے لیے غیر معمولی وژن،استعداد،جرات مندی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

نئی حکومت کواپنی ترجیحات اور اہداف کے حصول کے لیے غیر معمولی وژن،استعداد،جرات مندی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

جمہوریت کا ایک اور مرحلہ طے ہوا۔ اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کا انتخاب ہوگیا، پی ٹی آئی کے نامزد کردہ اسد قیصر 176 ووٹ لے کر اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوگئے ہیں، انھوں نے بطور اسپیکر قومی اسمبلی حلف اٹھا لیا۔

ایاز صادق نے اسد قیصر کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے لیے 330 ووٹ کاسٹ ہوئے جس میں سے 8 ووٹ مسترد ہوئے، اسد قیصر نے 176 ووٹ حاصل کیے جب کہ خورشید شاہ نے 146 ووٹ حاصل کیے، اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے ووٹنگ تقریباً 3 گھنٹے جاری رہی، تحریک انصاف کی جانب سے اسد قیصر اور پیپلز پارٹی و ہم خیال جماعتوں کے امیدوار خورشید شاہ میں کانٹے کا مقابلہ ہوا۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، اسد قیصر، خورشید شاہ اور موجودہ اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر اراکین اسمبلی نے اسپیکر کے انتخاب میں حصہ لیتے ہوئے ووٹ کاسٹ کیا۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر تحریک انصاف کے قاسم سوری 183ووٹ لے کرمنتخب ہوئے۔

ادھر پاکستان پیپلز پارٹی امیدوار آغا سراج درانی دوسری مرتبہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوگئے، اسپیکر منتخب ہونے کے بعد آغا سراج درانی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، پریزائیڈنگ افسر نادر مگسی نے ان سے حلف لیا۔ سندھ اسمبلی کے کل 158 میں سے سراج درانی نے 96 ووٹ حاصل کیے، جاوید حنیف نے 59 ووٹ حاصل کیے جب کہ 3 مسترد ہوئے۔ ریحانہ لغاری سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئیں۔انھوں نے 98 ووٹ حاصل کیے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار مشتاق غنی خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر اور محمود جان ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے۔

مشتاق غنی کے اسپیکر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد سردار اورنگزیب نلوٹہ نے ان سے عہدے کا حلف لیا۔ مشتاق غنی کے اسپیکر منتخب ہونے کے بعد ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کا مرحلہ شروع ہوا، جس میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی اسپیکر محمود جان منتخب ہوئے اور انھوں نے بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا، نومنتخب اسپیکر مشتاق غنی نے ان سے حلف لیا۔

اسپیکر کے لیے تحریک انصاف کے امیدوار مشتاق غنی کا مقابلہ اپوزیشن کے لائق محمدخان سے تھا، ڈپٹی اسپیکر کے لیے تحریک انصاف کے امیدوار محمود جان کا مقابلہ اپوزیشن کے جمشید مہمند سے تھا۔ دریں اثنا پنجاب اسمبلی کے نو منتخب ارکان اسمبلی نے حلف اٹھا لیا ہے، اسپیکرپنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال نے نو منتخب ارکان سے حلف لیا۔ واضح رہے کہ پیر 13 اگست کو انتخابات 2018ء میں کامیاب ہونے والے قومی اسمبلی، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے ارکان حلف اٹھا چکے ہیں۔

پنجاب اسمبلی کے نو منتخب ارکان نے سب سے تاخیر میں بدھ کو حلف اٹھایا۔ اس سے قبل پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ ن کے اراکین نے احتجاجاً بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھ کر شرکت کی۔ اسد قیصر کے حلف اٹھانے کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نے شدید احتجاج کیا اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی تصاویر والے پوسٹرز اٹھا کر اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے۔ لیگی اراکین نے اس موقع پر ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے بھی لگائے۔

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف قدرے تاخیر سے قومی اسمبلی آئے، انھوں نے کالی پٹی باندھ کر ایوان میں شرکت کی اور اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اجلاس شروع ہوا تو کسی وجہ سے 13 اگست کو حلف نہ اٹھا پانے والے 5منتخب اراکین قومی اسمبلی نے آج حلف اٹھایا، اسپیکر ایاز صادق نے ان سے حلف لیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹاس ہم نے جیتا ہے، پچ اچھی ہے، میچ بھی اچھا ہوگا، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نئی اسمبلی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے جو بھی مسائل ہیں وہ پارلیمنٹ میں ہی حل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے لیے اسپیکر کے امیدوار اسد قیصر کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے۔

یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات سے مملکت خداداد کے22 کروڑ ہم وطنوں کے لیے جمہوریت کی نئی شاہراہ کھل گئی ہے، ووٹ کی پرچی کی طاقت جمہوریت کی اساس بن کر ابھری ہے، صدر ممنون حسین نے جشن آزادی کے موقع پر قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ ملک کی تقدیر کے فیصلے ووٹ کی پرچی سے ہونگے۔

یوں عام انتخابات کے بعد اب سیاست دانوں کی قومی آزمائش شروع ہوئی ہے، قومی اسمبلی کے ارکان کی حلف برداری کا مرحلہ مکمل ہوگیا، بدھ کو قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات تقریباً مکمل ہوگئے اور اگلا مرحلہ وزیراعظم کے چنائو کا ہوگا، جمہوری اصطلاح میں قوم معروف اور مسلمہ جمہوری روایات اور قومی جذبہ کے ساتھ نئی منزل کی طرف عازم سفر ہونے کا عندیہ دے چکی ہے، اب چیلنجوں سے نمٹنے کا وقت آگیا ہے، انتقال اقتدار بھی ہوجائیگا، نئی حکومت کو اپنی ترجیحات اور اہداف کے حصول کے لیے غیر معمولی وژن، استعداد، جرات مندی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

پی ٹی آئی اور ملک کے نئے متوقع وزیراعظم عمران خان کے لیے تاریخ نے سنہرا موقع عطا کیا ہے، وہ اصلاحات اور تبدیلی کے لیے قومی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کرکے اپنا نام تاریخ میں امر کرسکتے ہیں، اپوزیشن بھی جمہوری اسپرٹ کے تحت نئی حکومت کو فری ہینڈ دیتے ہوئے اپنے جارحانہ تنقیدی طرز عمل میں ملکی تعمیر و ترقی سے مطابقت پیدا کرے، بلا ضرورت یا اختلاف برائے اختلاف کی مہم جوئی نہیں ہونی چاہیے، اسے اپنا جمہوی کردار ادا کرنے کے لیے ان خدشات اور اندیشوں کو دفن کرنے کی سعی کرنی چاہیے جو طاقتور اپوزیشن کے منفی حوالہ سے اس سے منسوب کیے جارہے ہیں۔

اپوزیشن جمہوریت کا دوسرا ہاتھ ہے، جمہوریت کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا صائب ہے کہ نئے پاکستان میں عوام کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی، ہمیں خود اپنے اندر سے بھی تبدیلی لانی چاہیے۔

یہ بات قابل بحث ہے کہ اصلاحات کا ایجنڈا لے کر تحریک انصاف ملکی سیاست کی کایا پلٹ کا ارادہ رکھتی ہے، تبدیلی کی دو صورتیں ہیں، ایک انقلابی اور دوسری ریفارمز یا اصلاحات کی شکل میں، مگر ہر دو صورتوں میں برسراقتدار جماعت کو اپوزیشن کی طرف سے ان کے اچھے کاموں پر شاباش ملنی چاہیے اور جہاں حزب اقتدار اپنے منشور، جمہوری اہداف اور اصولوں سے انحراف کرے اپوزیشن کو اس پر گرفت کرنے کا آئینی حق حاصل ہے کہ اس کا بروقت محاسبہ کرے، تاہم تمام اسٹیک ہولڈرز ملک کو درپیش چیلنجوں کا حقیقی ادراک کریں، پاکستان کو داخلی و خارجی خطرات اور مشکلات کا سامنا ہے، ایک آزاد اور جرات مندانہ خارجہ پالیسی اور اقتصادی نظام کی تنظیم نو کیے بغیر تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کو درپیش مصائب اور مشکلات کا ذکر تو ہوتا ہے مثلا ً دو تہائی اکثریت سے محروم حکومت، مضبوط ترین حزب اختلاف، الیکشن پر دھاندلی کے سنگین الزامات و نتائج کا استرداد، سینیٹ میں عددی اکثریت کا فقدان وغیرہ وغیرہ، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران کو تبدیلی کے لیے کھلا آسمان، وسیع تر زمینی قدرتی وسائل اور عوامی حمایت بھی تو حاصل ہے، ان کے راستے میں آسانیاں بھی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے عمران کون سا راستہ چنتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔