ہم پر نشانہ

وجاہت علی عباسی  منگل 14 اگست 2012
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

کرے کوئی بھرے کوئی کی بہترین مثال ہیں ہم، آج دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی سانحہ کیوں نہ ہو وہ گھوم پھر کر کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کی پوری قوم کی غلطی بن جاتا ہے۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ 9/11 کے بعد سے ہم میں سے بیشتر لوگ دنیا میں امن لانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کررہے ہیں، کتنے گورے نظر آتے ہیں امریکا، انگلینڈ میں Peace کو پروموٹ کرتے؟ لیکن پچھلے دس برسوں میں پاکستان سے باہر رہنے والے طلبا امریکا، انگلینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا میں ان گنت امن کے سلسلے میں پروگرام اور ریلیاں کرچکے ہیں۔ ایک عام بیرونِ ملک رہنے والا پاکستانی ہو یا بڑا بزنس مین، سائنس داں، انجینئر، ڈاکٹر جسے جہاں جیسے موقع ملتا ہے وہ دنیا تک یہ پیغام پہنچاتا ہے کہ مسلمان اور پاکستانی امن پسند لوگ ہیں۔

لمبے عرصے چلنے والے شفیلہ احمد کے کیس کا پچھلے ہفتے فیصلہ ہوگیا۔ 2002 میں برطانوی شہری شفیلہ احمد اپنے لندن کے گھر سے لاپتا ہوگئیں، بہت تلاش کے بعد ان کی لاش چھ مہینے بعد ان کے گھر کے قریب ایک جھیل سے ملی، ماں باپ کمیونٹی اور پولیس کی بہت کوششوں کے باوجود ان کے قتل سے متعلق کوئی سراغ نہیں ملا، لیکن 2010 میں جب اِسی خاندان کی دوسری بیٹی اپنے ہی گھر میں چوری کرتے پکڑی گئی تو پولیس کو انھوں نے بتایا کہ ان کے والدین نے شفیلہ کو خود اپنے ہاتھوں سے اس لیے مار ڈالا کیوں کہ انھیں بیٹی کا ویسٹرن طریقے سے رہنا اور آگے پڑھنا پسند نہیں تھا۔

کچھ دن پہلے شفیلہ کے ماں باپ کو عمر قید ہوگئی، دو سال تک چلنے والے اِس کیس میں ہر بار پاکستان کا نام انٹرنیشنل میڈیا میں لیا جاتا۔ وہ پاکستانی تھے، اِس لیے انھوں نے اپنی اولاد کو ’’آنر کلنگ‘‘ میں مار ڈالا جب کہ سچ یہ ہے کہ ان کے والدین کا تعلق ضرور پاکستان سے تھا لیکن اب وہ برٹش شہری ہیں جو 30 سال سے وہیں رہتے ہیں اور قتل کے وقت ان کی ہر چیز انگلینڈ سے جڑی تھی، پاکستان سے نہیں۔ ہر خبر پڑھ کر ایسا لگتا تھا جیسے پاکستان میں سارے والدین ایسے ہی ہوتے ہیں جب کہ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ اپنے بچّوں کو مار ڈالنا دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے۔

امریکا میں مہینے میں کم از کم پچاس ایسے کیسز ہوتے ہیں جن میں والدین بچّوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اِسی طرح چین اور بھارت میں ہر سال جتنی لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا ہے، اتنی لڑکیاں تو امریکا میں پیدا ہی نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں پچھلے سال 1200 واقعات سامنے آئے ہیں جن میں والدین نے اپنے بچّوں کو مار دیا لیکن یہ تعداد اور ملکوں سے بہت کم ہے۔ اِس کے باوجود شفیلہ کے کیس میں پاکستان اور گھوم پھر کر مسلمانوں کا نام خراب۔

جب بھی کوئی مسلمان کوئی غلطی کرے تو وہ غلطی دنیا کے سب مسلمانوں پر تھوپی جاتی ہے۔ وہ پوری قوم کی غلطی ہوتی ہے لیکن وہی غلطی جب کسی دوسری قوم کا کوئی فرد کرتا ہے تو وہ صرف اس کی ہوتی ہے، اس کے مذہب، سوسائٹی یا پرورش کی نہیں۔ 5 اگست 2012 ایک بہت ہی دکھ بھرا دن تھا امریکا کے لیے، جب ایک شخص مل واکی کے علاقے میں اتوار کی صبح سکھوں کے گردوارے میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کرنے لگا۔ فائرنگ سے چھ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے اور ایک لمبے مقابلے کے بعد پولیس نے اس فائرنگ کرنے والے کو موقع پر ہی مار ڈالا۔ خبروں کے مطابق شوٹنگ کرنے والا چھ فٹ لمبا ایک گورا تھا، جس کا سر پوری طرح شیو کیا ہوا تھا اور جس کے جسم پر کئی Tatto بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا بھی تھا۔

شوٹر نے کئی سال امریکن آرمی میں بھی کام کیا تھا۔ اس حادثے سے موت یقیناً کئی سکھوں کی ہوئی لیکن اِس کا اصل نشانہ مسلمان بنے، شوٹنگ کرنے والے شخص کو پولیس ابھی مار گرانے میں کامیاب بھی نہیں ہوئی تھی کہ ٹی وی میں آنے والی خبروں میں فوراً یہ آنے لگا کہ یہ یقیناً ’’Hate crime‘‘ ہے جس میں گن مین سکھوں کو مسلمان سمجھا ہوگا اور کیونکہ 9/11 کے بعد کئی سکھوں کو مسلمان سمجھ کر مارا گیا، اِس لیے یہ حملہ بھی اِسی لیے ہوا۔

شوٹر 1992 سے 1998 تک امریکن آرمی میں رہا ہے۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ شوٹر کو مسلمانوں کی پہچان نہ ہو، اِس بات پر کسی نے غور نہیں کیا کہ وہ شوٹر اسی علاقے میں رہتا تھا، اس علاقے میں بہت سے سکھ بھی رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے اس کی کسی سے دشمنی ہو، جس کا بدلہ لینے وہ آیا ہو لیکن اِس بات کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے ہی میڈیا بار بار ٹی وی ریڈیو پر یہ بتاتا رہا کہ حملہ اِس لیے ہوا ہے کہ شوٹر مسلمانوں سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔

امریکا کے ہر نیوز چینل پر پورے ہفتے ان معصوم سکھوں کی ویڈیوز دِکھاتے رہے جنھیں 9/11 کے فوراً بعد کچھ لوگوں نے مسلمان سمجھ کر مار دیا تھا۔ وہ حادثے جنھیں اب دس برس سے زیادہ ہوچکے ہیں، میڈیا نے ایک بار پھر ان زخموں کو تازہ کردیا اور قصوروار… وہی مسلمان۔ کیوں کوئی یہ کہتا سنائی نہیں دیتا کہ یہ واقعہ 9/11 سے تعلق نہیں رکھتا، کیونکہ اب کافی وقت گزر گیا ہے اور یہ اچانک حملہ نہیں ہوسکتا۔ اِس طرح کے حملے شوٹرز پلان کرتے ہیں اور جس جگہ حملہ کرنا ہو، اس کے بارے میں سارے حقایق جانتے ہیں۔

شوٹنگ کے وقت موجود لوگوں کے مطابق شوٹر کو گردوارے کے سارے راستے اچھی طرح معلوم تھے، یعنی وہ صرف کچھ داڑھی اور پگڑی والوں کو بلڈنگ کے اندر جاتے دیکھ کر غصے میں اتفاق سے فائرنگ کرنے نہیں پہنچ گیا تھا، پھر بھی مسلمان سمجھ کر بے چارے سکھ مارے گئے والی خبریں ہر جگہ… وہاں اگر مسلمان ہوتے تو وہ بھی اتنے ہی بے چارے ہوتے یا پھر اس سے بھی زیادہ کیونکہ کسی قوم کے کچھ لوگوں کے خراب ہونے سے پوری قوم خراب نہیں ہوجاتی۔

ہم تو ہر جگہ ہر موقع پر بتاتے نہیں چوکتے کہ ہم امن پسند لوگ ہیں۔ ہمارے یہاں نہتّے کو مارنا، معصوم پر ظلم کرنا حرام ہے لیکن پھر بھی ہماری قسمتوں پر وہ برا سایہ پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمیں بلاوجہ ایسی خبروں میں گھسیٹ رہے ہیں جن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام میں بیٹی کے جتنے حقوق ہیں کسی دوسرے مذہب میں نہیں۔ اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم سے روکنے والا باپ مسلمان نہیں۔ نہ ہی کسی طرح پاکستان کی پہچان ہے۔ اِسی طرح کوئی پاگل گورا امریکا کے گردوارے میں گھس کر مارتا ہے تو نشانہ ہمیں نہیں اس گورے کی سوسائٹی کو بننا چاہیے اور جواب دہ وہاں کے حکام کو ہونا چاہیے پوری دنیا کے مسلمانوں کو نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔