کیا کپتان نے کبھی مقبول فیصلہ بھی کیا؟

حسنین انور  جمعـء 24 اگست 2018
سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کپتان نے کبھی مقبول فیصلہ بھی کیا ہے؟ فوٹو: انٹرنیٹ

سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کپتان نے کبھی مقبول فیصلہ بھی کیا ہے؟ فوٹو: انٹرنیٹ

عمران خان پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم کے طور پر اپنی ذمہ داری کا آغاز کرچکے ہیں۔ ان کے سامنے توقعات کا پہاڑ ہے جو کسی اور نے نہیں بلکہ اپنی ہی 22 سالہ جدوجہد کے دوران انہوں نے خود کھڑا کیا ہے۔ اس لئے ان توقعات پر پورا اترنا بھی ان کی ہی ذمہ داری ہے۔

عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب کے اہم ترین عہدے کیلئے عثمان بزدارکو نامزد کیا اور حسب توقع ان کے اس انتخاب کا بھی پوسٹ مارٹم شروع ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر غیر تو غیر، اپنے بھی خان صاحب کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکاری دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دکھ سکھ میں ان کا سوشل میڈیا کی جنگ میں دفاع کرنے والے پرانے کارکن بھی اس فیصلے کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں، کپتان سے یہ فیصلہ واپس لینے کی درخواست کی جارہی ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ ہمیں غریب اور پسماندہ علاقے کا چیف منسٹر قبول ہے مگر اس پر کوئی داغ نہیں ہونا چاہئے۔ ایسی باتیں کثرت سے ہورہی ہیں مگر دوسری جانب عمران خان ہیں جو ایک بار پھر اپنے فیصلے کے سامنے ڈٹ گئے ہیں اور دو ٹوک الفاظ میں واضح کرچکے ہیں کہ انہوں نے دوہفتوں کی تحقیق کے بعد عثمان بزدار کو فائنل کیا اور وہ نیا پاکستان بنانے کے مشن میں ان کے اہم معمار ثابت ہوں گے۔

سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کپتان نے کبھی مقبول فیصلہ بھی کیا ہے؟ عبدالقادر کی سلیکشن سے لے کر موجودہ الیکشن تک، ان کے ہر فیصلے پر ہنگامہ برپا ہوا؛ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ان کے اکثر فیصلے بعد میں درست ثابت ہوئے۔

زیادہ دور جانے کے بجائے اگر ہم حالیہ کچھ عرصے پر نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن 2018 کیلئے امیدواروں کی فہرست سامنے آئی، اس پر تنقید کا طوفان کھڑا ہوگیا۔ طنز کے تیر چلانے والوں میں وہ لوگ پیش پیش تھے جن کی اپنی جماعتیں موروثیت کی دلدل میں ڈوبی ہوئی ہیں، جن کے ہاں صرف وڈیرا شاہی کو دوام ہے، جن کے ڈیرے بدمعاشوں سے آباد ہیں، رسہ گیری جن کی فطرت میں شامل ہے، حریفوں پر بھینس چوری کے جھوٹے مقدمے دائر کرانا جن کا محبوب مشغلہ ہے۔ ان لوگوں کا سب سے بڑا اعتراض ہی یہ تھا کہ عمران خان نے چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں اور لٹیروں کو اپنی جماعت میں شامل کرلیا ہے مگر جب یہی چور، ڈاکو، قاتل اور لٹیرے ان کی اپنی جماعتوں کا حصہ تھے تو وہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھائے رکھتے تھے۔

الیکشن ہوگئے، تحریک انصاف کو اتنی اکثریت نہیں ملی جتنا کہ ملنی چاہئے تھی مگر جتنی ملی وہ بھی حریفوں کو ہضم نہیں ہوئی۔ خیر، حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی کو ان لوگوں اور جماعتوں سے بھی ہاتھ ملانا پڑا جن سے شاید وہ ملانا پسند نہ کرتی۔ اس پر بھی خوب لے دے ہوئی، خوب پھبتیاں کسی گئیں، مذاق اڑایا گیا؛ نئے پاکستان کے حوالے سے طنز ہوئے اور اب تک ہورہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ کے معاملے کو بھی خوب متنازع بنانے کی کوشش ہوئی، گروپ بندی کی خبریں اڑیں مگر آخر میں عمران خان کا انتخاب جب سامنے آیا تو پھر سب ایک طرح سے راشن پانی لے کر ان کی ہرزہ سرائی میں مگن ہوگئے۔ محمود خان پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ انہوں نے 18 لاکھ روپے کے حکومتی فنڈز اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کرائے تھے، سب اس بات پر واویلا تو کررہے ہیں مگر کوئی یہ بات سامنے نہیں لاتا کہ اس جرم میں ان کو وزارت سے ہٹا بھی دیا گیا تھا۔ مگر بعد میں ان کی جانب سے یہ وضاحت کی گئی تھی کہ قواعد سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ غلط فہمی میں یہ رقم اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کر بیٹھے، یہ رقم واپس سرکاری اکاؤنٹ میں گئی، وہ انکوائری میں کلیئر ہوئے اور دوبارہ وزیر بنے۔

اب جب عمران خان نے عثمان بزدار کا نام لیا تو ان کے بھی پرانے کھاتے کھل گئے اور کھلنے بھی چاہئیں۔ مگر ساتھ میں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر کسی پر کوئی الزام لگا تھا تو وہ اس سے کلیئر بھی ہوا یا نہیں؟ کیا اس پر وہ مقدمہ بدستور چل رہا ہے، کیا شواہد اس کے خلاف ہیں، ہم یہاں پر کسی کے جرائم یا کرتوتوں کا دفاع نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی ان پر پردہ ڈال سکتے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1998 میں ہونے والے واقعے پر 20 سال تک قانون کیوں خاموش رہا؟

عثمان بزدار کے حوالے سے ایک محترم اور جہاندیدہ صحافی کا تبصرہ کسی ’کھلے تضاد‘ سے کم نہیں تھا جس میں وہ فرما رہے تھے کہ عمران نے محمود اور بزدار کو اس لیے منتخب کیا کہ اگر وہ کامیاب ہوں گے تو واہ وا عمران کی ہوگی اور اگر وہ ناکام ہوں گے تو ملبہ خود ان دونوں پر گرے گا۔ حالانکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ناکامی کا بوجھ بھی غلط فیصلہ کرنے والے کی ہی گردن پر ہوتا ہے۔

نئے پاکستان کی کابینہ بھی بن چکی ہے جس میں تقریباً سارے چہرے ہی پرانے ہیں؛ اور 70 فیصد کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ سابق صدر پرویز مشرف کی کابینہ میں شامل رہے۔ فی الحال اس فیصلے کی حمایت اور مخالفت میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، مشرف کی کابینہ کے نورتن تو خود میاں محمد نوازشریف نے بھی اپنی کابینہ میں شامل کیے تھے جن کی حکومت کا تختہ خود جنرل صاحب نے الٹا تھا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان صاحب، ان کے دو وزرائے اعلیٰ اور وفاقی کابینہ کے 20 رتن حکومت کے ابتدائی 100 دنوں میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں کیونکہ گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ پارٹی شروع ہوچکی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Husnain Anwer

حسنین انور

بلاگر بیس سال سے میدان صحافت میں ہیں اور ایکسپریس گروپ سے منسلک ہیں۔ انہیں ٹویٹر ہینڈل@sapnonkasodagar پر فالو اور [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔