متحدہ مجلس عمل کی شکست اور جماعت اسلامی

اصغر عبداللہ  اتوار 26 اگست 2018
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

الیکشن 2018 ء میں پاکستان کی مذہبی سیاست جس عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئی ہے، یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا کارڈ بری طرح ناکام ہوا اور خیبرپختون خوا جہاں مولانا فضل الرحمن حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے، وہاں وہ اپنی نشست بھی نہیں بچا سکے۔ سراج الحق جو سینیٹ کے رکن ہوتے ہوئے یہ الیکشن لڑ رہے تھے، وہ بھی ہار چکے۔

خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک اگرچہ پہلی بار انتخابی میدان میں اتری، مگر تمام تر دعووں کے باوجود قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک ناکامی کے خوف سے انتخابی میدان میں اتری ہی نہیں۔ جماعت اہلحدیث، سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک، مجلس وحدت المسلمین بھی ووٹرز کی توجہ نہ حاصل کرسکیں۔ حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ بھی نقش برآب ثابت ہوئی۔

متحدہ مجلس عمل جو 2002ء میں پہلی بار مذہبی پارٹیوں کے اتحاد کی علامت بن کر ابھری تھی اور پہلے ہی ہلے میں نہ صرف خیبرپختون خوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی، بلکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈری بھی اس کے حصہ میں آئی تھی،2018ء میں اسی امیدکے ساتھ میدان میں اتری تھی۔ فضل الرحمن نے2013 ء میں بھی متحدہ مجلس عمل کی بحالی کی کوشش کی تھی۔

خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کے خطرے کی انھوں نے بو سونگھ لی تھی؛ مگر سید منورحسن جو اس وقت امیر جماعت تھے، ان کی راہ میں حائل ہو گئے۔2013ء میں جماعت نے سید صاحب کے ایما پرخیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی اور بعد میں مل کر حکومت بھی بنائی۔2018 ء سے پہلے مولانا فضل الرحمن پھر متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا نعرہ لگا کر میدان میں آ گئے۔اب سید صاحب امیر جماعت نہیں تھے جب کہ ان کے جانشین سراج الحق ان کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے۔

لطف یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے پہلے پورے پانچ سال فضل الرحمن ن لیگ کی وفاقی حکومت میں شامل رہے، جب کہ سراج الحق ن لیگ کی حریف تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا حصہ رہے۔ جماعت اسلامی کے اندر ایک بہت بڑا طبقہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کی مخالفت بھی کر رہا تھا،اور دلیل ان کی یہ تھی کہ فضل الرحمن عملی طور پر ن لیگ کی بی ٹیم بن چکے ہیں۔

نظر بظاہر یہی آتا ہے کہ یہ اختلافی نوٹ سراج الحق اور ان کے ہم نواوں کو متاثر نہ کر سکا اور سراج الحق نے ن لیگ کے اتحادی فضل الرحمن کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرہی انتخابی میدان میں اترنے کافیصلہ کیا۔ ستم یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کہنے کو تو باقی سب پارٹیوں کے خلاف تھی مگر عملی طور پر اس کا ہدف خیبرپختون خوامیں تحریک انصاف تھی۔سراج الحق تو کبھی بھول کر نوازشریف کے خلاف کچھ کہہ دیتے، مگر فضل الرحمن کی ہر تقریر کی تان عمران خان پر ٹوٹتی تھی۔

مستزاد یہ کہ کے پی کے میں شہبازشریف جس نشست پر کھڑے ہوئے، اس پر فضل الرحمان نے ان کی حمایت کر دی۔ادھر عمران خان بھی خیبر پختون خوا میں فضل الرحمن ہی کو نشانہ بناتے اور ان پر تابڑ توڑ حملے کرتے۔ نتیجہ یہ ہواکہ خیبر پختون خوا میں الیکشن عملی طور پر عمران خان بمقابلہ ’’ فضل الرحمن اور ان کے اتحادی‘‘ بن گئے۔ عام ووٹر کو یہ پیغام گیا کہ متحدہ مجلس عمل کے کسی بھی امیدوار کو پڑنے والا ووٹ فضل الرحمن اور ن لیگ کو جائے گا۔

خیبر پختون خوا میں جماعت اسلامی کی تحریک انصاف کے ساتھ پانچ سالہ رفاقت اور اپنی شناخت ووٹروں کی نگاہوں میں دھندلا گئی۔ اب سراج الحق سمیت جماعت اسلامی کا ہر امیدوارعملی طورپر فضل الرحمن ہی کا امیدوار سمجھا جا رہا تھا۔ پنجاب میں، جہاں زیادہ تر جماعت اسلامی کے ارکان ہی متحدہ مجلس عمل کی نمایندگی کر رہے تھے، عملی طور پر وہ انتخابی دوڑ سے باہر ہو گئے۔

الیکشن کے بعد کی اس ممکنہ صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے8 جون کے کالم میں ارباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا،’’ فضل الرحمن کا تو خیبر پختون خوا کے لیے پورا ایک گیم پلان ہے اور متحدہ مجلس عمل کی بحالی اس کی ایک سیاسی تدبیر؛ مگر جماعت اسلامی کو اس گیم پلان کاحصہ بننے سے کیا حاصل ہوگا ؟ محض یہ سیاسی تسکین کہ خیبر پختون خوا میں ہمارے بغیر عمران خان حکومت بنا سکتے ہیں، نہ فضل الرحمان ؛ اور اگر یہ مفروضہ اس بار غلط ثابت ہو گیااور تحریک انصاف تنہا اپنے طور پر ہی خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہو گی، اس بارے میں سوچنے کی زحمت شاید جماعت اسلامی نے نہیں کی۔

معلوم ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت اس وقت یہ سوچنے کے لیے تیار ہی نہ تھی اور سراج الحق بھی فضل الرحمن کی طرح خیبر پختون خوا میں حکومت کا خواب دیکھ رہے تھے۔ یہاں رہ رہ کر مجھے سید منور حسن کے ساتھ منصورہ لاہور میں اپنی ایک ملاقات یاد آ رہی ہے۔ برادرم سلیم منصور خالد بھی میرے ساتھ تھے۔ یہ پانامہ لیکس سے پہلے کی بات ہے۔

سید صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست جس رخ پر آگے بڑھ رہی ہے، اس کے پیش نظر جماعت اسلامی کو اپنی الگ شناخت برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف خیبر پختون خوا میں بلکہ باقی صوبوں میں بھی ن لیگ کے بجائے تحریک انصاف کے قریب رہنا چاہیے۔بقول ان کے، یہ بات انھوں نے سراج الحق کو براہ راست بھی گوش گزار کی۔مگر دیکھنے میں یہی آیا کہ سید صاحب کی نصیحت کو درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا اور نہ صرف ضمنی اور بلدیاتی الیکشن میں، بلکہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں بھی تحریک انصاف کے خلاف ن لیگ کی حمایت کی گئی، اور آخر کار خیبر پختون خوا میں بھی تحریک انصاف کو چھوڑ کر ن لیگ کے سرگرم اتحادی فضل الرحمن کو گلے لگا لیا گیا۔

نوازشریف سے فضل الرحمن کی دل بستگی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ الیکشن میں شکست کے فوراً بعد وہ جماعت اسلامی کو اعتماد میںلیے بغیر آل پارٹیز کانفرنس میں ن لیگ میں ہمنوا بن گئے۔معلوم ہوتا ہے کہ اس پر جماعت کی مجلس شوریٰ کو کچھ ہوش آئی اور انھوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں فضل الرحمن کے بیانیہ سے لاتعلقی کااعلان کیا اور کہا کہ جماعت اسلامی تحریک انصاف کی نومنتخب حکومت کے خلاف کسی احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی ۔

یہ بھی واضح کر دیا کہ جماعت اسلامی فضل الرحمن کی حلف نہ اٹھانے کی تجویز کی حمایت نہیں کرتی اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنا بے لاگ کردار پہلے کی طرح ادا کرتی رہے گی۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ پہلے ہی فضل الرحمن کی تجویز مسترد کر چکی تھیں۔اس پر جب کہا جانے لگا کہ متحدہ مجلس عمل پھر سے غیر موثر ہو چکی تو فضل الرحمن نے کہا کہ وہ جماعت اسلامی کے موقف آل پارٹیز کانفرنس میں رکھیں گے۔ حالانکہ آل پارٹیز کانفرنس میں دونوں بڑی پارٹیاں پہلے ہی ان کا موقف مسترد کر چکی تھیں۔ اور اب نہ صرف ن لیگ اور پیپلزپارٹی بلکہ ایم ایم اے بھی حلف اٹھا کر نئے جمہوری عمل کا حصہ بن چکی ہے۔

کہتے ہیں، سیاست میں غلطی کی کوئی معافی نہیں۔ 2018ء کے الیکشن سے عین پہلے جماعت اسلانی نے متحدہ مجلس عمل کا جو طوق گلے میں ڈالا ، وہ الیکشن میں جماعت اسلامی کے لیے بوسہ موت ثابت ہوا۔ جماعت اسلامی نے یہ بھی نہیں سمجھا کہ یہ الیکشن عملی طور پر تحریک انصاف بمقابلہ ن لیگ ہیں۔ ایسی حالت میں جماعت کے لیے عین جنگ کے دوران اتحادی بدلنا انتہائی مہلک ثابت ہوگا۔

بہرحال جو سیاسی غلطی ہوئی،اس کی سزا بھی مل گئی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس غلطی کا کھلے دل سے اعتراف نہیں کیا گیا، اور وہی پرانا ’انگور کھٹے ہیں‘ والا اموختہ دہرا یا جارہا ہے ںکہ ’’الیکشن لڑنا تو جماعت کا مقصد ہی نہیں، جماعت کا مقصد تو اس طرح کے انتخابی جھمیلوں سے بہت اعلیٰ ، بہت ارفع اور بہت مقدس ہے۔‘‘ شاعر نے کہا تھا،

چل دیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ

جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔