سیاسی ڈراموں سے کچھ نہیں ہوگا

سید نور اظہر جعفری  منگل 4 ستمبر 2018

دنیا میں جو قومیں ترقی کرتی ہیں وہ چند اصول اور ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے یہ ہدف حاصل کرتی ہیں اور صرف ہدف کا حصول ہی وہ پیش نظر نہیں رکھتیں بلکہ اس کامیابی کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھنے کا پلان بناتی ہیں اور جن منفی رجحانات کو وہ ختم کرتی ہیں۔ ان میں نسل، رنگ، زبان، مقامی، غیر مقامی، پہلے سے آباد بعد میں آنے والے اور دوسرے ایسے ذاتی بے شمار رجحانات ہیں، جن کے خلاف قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کے ذریعے نفرتوں کے تمام دروازوں کو بند کردیا جاتا ہے اور One Nation کا تصور قائم کیا جاتا ہے۔

اس تصور سے بہت کامیابی حاصل ہوتی ہے ۔ جرمن کا مطلب جرمنی، برٹش کا مطلب برطانیہ، جاپانی کا مطلب جاپان، چائنی کا مطلب چین، رشین کا مطلب روسی۔ کیا یہ ملک لسانی، علاقائی بحرانوں سے اور مسلم غیر مسلم بحرانوں تک سے نہیں گزرے۔ بالکل گزرے، ان ملکوں میں علاقے بھی ہیں، علاقائی ثقافت بھی ہے، زبان کا فرق بھی ہے، ہر ملک میں ایک سے زیادہ قومیں بستی ہیں مگر وہ آرام سے ہیں کیونکہ وہاں قانون بھی ہے اور اس کی حکمرانی بھی، وہاں حکمران قانون کا پابند ہے، قانون حکمران کا پابند نہیں ہے۔

براعظم ایشیا میں برصغیر وہ بدقسمت خطہ ہے جہاں اس میں موجود تمام ہی ملک اس نعمت سے محروم ہیں، بھارت تو ایک ظالم ملک بن چکا ہے جہاں اقلیتیں ظلم کا شکار ہیں اور اسرائیل جوکئی ملکوں کے گٹھ جوڑ سے قائم ہوا اور قائم ہے اس کے مطابق بھارت چل رہا ہے۔ اسرائیل کو ایک دن ختم ہونا ہے یہ طے شدہ ہے اور اس کی نقل کرنے اور اس کا ساتھ دینے والوں کا بھی یہی انجام ہوگا۔ یہ پردہ غیب میں ضرور ہے مگر آشکار ہے۔

بھارت کے ظلم پر خاموش رہنے والے اب جیل میں ہیں اور خوش فہمی میں ہیں کہ عوام جیل توڑ کر انھیں تخت پر لا بٹھائیں گے حالانکہ ان کا ابھی ابتدائی احتساب ہو رہا ہے اور باقی بھی ہونے والا ہے۔ ’’جاگ پاکستانی جاگ‘‘ کے نعرے اب لوگوں کی زبان پر ہیں۔ ستر سال کے سیاسی ظلم کے خلاف عوام نے ووٹ کی طاقت سے جنگ کی اور عوام جیت گئے۔ جب عوام جاگ جائیں تو نتائج ملا، مولوی اور سیاسی دکانداروں کو حیران اور خوفزدہ کردیتے ہیں یہی پاکستان میں ہوا ہے 2018 میں خوب چھان لو ہر جگہ عوام نکلیں گے۔ سیاسی ڈراموں سے کچھ نہیں ہوگا۔

پنجاب سیاسی طور پر آزاد ہوگیا سیاسی لٹیروں سے، سندھ اب بھی ان کے دام میں ہے، روشنی کے پی کے اور بلوچستان میں بھی پھیل رہی ہے، ملک، خان، سردار راج کا خاتمہ آیندہ ایک دو الیکشن میں ہوتا نظر آرہا ہے اگر مرکز نے ان سیاسی ٹھیکے داروں سے قوم کو نجات دلادی تو پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے انشا اللہ۔

کچھ اچھا بھی ہونے لگا ہے پاکستان میں اور موجودہ حکومت کو سخت محنت کرنی ہوگی، کرپشن کے بیراجوں کو بند کرنے کے لیے کیونکہ کرپشن عوامی مزاج بن چکا ہے، لوگ رشوت کو اب لازمی سمجھتے ہیں تجربات نے سکھایا ہے۔ عوامی مزاج بدلنا ہوگا سرکاری نظام کو بدلنے سے ورنہ پہلے عوام غلام تھے، اب ’’آزاد غلام‘‘ ہوں گے سرکاری ادارے کرپٹ رہیں گے تو عوام مجبور ہوں گے انھیں اپنے کام کروانے ہیں کاروبار کرنا ہے۔ زندہ رہنا ہے ’’واچ ڈاگ‘‘ مقررکیے جائیں جو بہک نہ سکیں اور سو نہ جائیں تب ملک بیدار ہوگا۔

تھر میں کوئلہ نکلا صدر لغاری کی تختی لگی، میں ریڈیو حیدرآباد کی طرف سے کوریج کے لیے گیا۔ ان کی سرائیکی تقریر اردو میں ترجمہ کرکے اسی رات نشرکی، پھر خاموشی، طویل عرصے بعد بے نظیرکے نام کی تختی لگی میں پھر کوریج کرنے گیا، پھر خاموشی۔ یہ خاموشیاں مفادات کی تھیں سیاسی بھی اور بین الاقوامی بھی اور پھر ایسا ہی چلتا رہا ملک کا پیسہ اور وقت برباد ہوتا رہا۔ پانی اور بجلی کے معاملے میں پاکستان کے سابق حکمران قوم کے مجرم ہیں۔

ایک پرائیویٹ کمپنی نے جس کی راہ میں بہت روڑے اٹکائے گئے بالآخر کامیابی کے ساتھ ٹیسٹنگ اور انرجائزنگ کے تمام مراحل طے کرلیے اور 330 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹس کو نیشنل گرڈ سے منسلک کردیا۔ این ٹی ڈی سی نے تھر سے جامشورو تک 282 کلو میٹر ڈبل سرکٹ ٹرانسمیشن لائن بچھائی، اس طویل لائن کے لیے 851 ٹاور تعمیر کیے گئے۔ تمام ضروری آلات کی تنصیب اور 31 جولائی کو ٹیسٹنگ ایک بڑی کامیابی ہے، یہ تاریخی لمحہ تھا اور اس میں این ٹی ڈی سی، پاور پرچیزنگ ایجنسی اور چینی مشینری اور انجینئرنگ کارپوریشن مبارکباد کی مستحق ہیں۔

لاکھڑا پاور ہاؤس سے گیارہ سال میں ملکی خزانے کو گیارہ ارب روپے کا نقصان ۔ ملازمین کی تنخواہوں سمیت دیگر اخراجات واپڈا انتظامیہ برداشت کرتی ہے، کوئلے سے چلنے والا بجلی گھرگھاٹے کا سودا۔ یہ بجلی گھر ایشیا کا سب سے بڑا پاور ہاؤس ہے جو 1993 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ 2007 سے اب تک یہ قومی خزانے کو بارہ ارب روپے کا نقصان دے چکا ہے۔

20 جولائی 2017 میں پاور ہاؤس میں آگ لگ گئی جس سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ ایک سال بعد بحالی کا کام مکمل ہوا۔ 20 جولائی 2018 کو ٹیسٹنگ کے لیے چلانے کے بعد اب تک پاور جنریشن بحال نہیں ہوسکی۔ ملازمین کی تنخواہوں سمیت کروڑوں روپے کے اخراجات واپڈا برداشت کر رہا ہے۔ ملازمین کے ایما پر بندش نہیں کی جا رہی اگر اسے دوبارہ چلایا گیا تو نقصان ہی ہوگا ۔ یہ پاور ہاؤس ایک سو پچاس میگاواٹ بجلی پیدا کرتا تھا۔ اب تک یعنی 3 اگست تک فیصلہ نہیں ہوا کہ اسے چلانا ہے یا بند کرنا ہے۔

اس سرکاری پاور ہاؤس سے دوگنا طاقت کا پاور سپلائی نظام تھر سے پرائیویٹ کمپنی نے شروع کردیا ہے اورکامیاب ہے اور رہے گا، کیوں؟ وہاں صرف وہ لوگ کام کر رہے ہیں جو اس پلانٹ کی حقیقی ضرورت ہیں ۔ فالتو لوگوں کی وہاں کوئی گنجائش نہیں۔ 2007 سے پہلے لاکھڑا پاور ہاؤس کیوں ٹھیک چل رہا تھا کہ وہاں بھی وہی لوگ تھے جو ضروری تھے اور سسٹم پر کوئی معاشی بوجھ نہیں تھا ۔ 2007 سے 2018 تک ملک میں خالص سیاسی حکومتیں رہیں، جن کا کام قومی اور صوبائی دونوں سطحوں پر اداروں میں نام نہاد نوکریاں پیدا کرکے اپنے لوگوں کو داخل کرنا تھا اور سسٹم کوکمزورکرنا تھا۔

بہت آسانی سے لاکھڑا کے ابتدائی قوانین اور افرادی قوت کی تحقیقات کی جاسکتی ہے اور سیاسی طور پر بھرتی کیے جانے والوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ یہ نااہل تو ہوں گے ہی کہ اس کو نہ چلا سکے۔ اضافی بوجھ بھی ہوں گے ادارے پر۔ اس کے علاوہ پرچیزنگ اور کوالٹی میٹریل کو چیک کیا جائے تو بہت راز افشا ہوں گے ۔ یہ پاکستان کا جونیئر اسٹیل مل ثابت ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔