ڈگریوں میں کچھ نہیں رکھا، انسان کو انقلابی ہونا چاہیے!

اقبال خورشید / اشرف میمن  بدھ 29 مئ 2013
سندھی اور اردو کے معروف کالم نگار،  اعجاز منگی کے حالات و خیالات ۔ فوٹو : فائل

سندھی اور اردو کے معروف کالم نگار، اعجاز منگی کے حالات و خیالات ۔ فوٹو : فائل

 دائرۂ غربت میں مقید بچپن، حساسیت میں الجھی زندگی، ایک مہلک امتزاج، جس سے اداسی کے گھور اندھیرے کا جنم ہوا۔ اندھیرا، جو ہکلاہٹ ساتھ لیا، اعتماد چاٹ گیا۔

چھوڑ گیا تو بس کتابیں، جو وحشتوں کی ساتھی بنیں۔ شاید مایوس کن تنہائی برقرار رہتی اگر سرخ سویرے کے منتظر اْجلے انسانوں سے ملاقات نہ ہوجاتی، جن کی صحبت نے اعتماد کا الاؤ روشن کیا، اظہار کی تحریک دی۔ یوں نوجوان کھڑا ہوا۔ امید کا پرچم تھاما، اور جدوجہد کے روشن سفر پر نکل گیا!

یہ سندھی اور اردو کے معروف کالم نگار، اعجاز منگی کی کہانی ہے، جنھوں نے میدان عمل میں قدم رکھا، تو ماسکو کے انقلابیوں کے نقوش پا کا تعاقب شروع کردیا۔ اِس تعاقب نے واضح نظریات، ایک خاص نوع کے اعتماد سے لیس کیا، قلم کو کاٹ بخشی، جو جلد ہی اُن کی شناخت بن گیا۔ سندھی میں کالم نگاری کا کام یاب سفر دو عشروں پر محیط ہے۔ آج کل سندھ ایکسپریس میں ’’کی جے بیجل بولیو‘‘ (جو بیجل نے کہا) کے زیرعنوان اُن کے کالم شایع ہورہے ہیں۔ اردو میں ’’آواز حق‘‘ کے زیر عنوان کالم نگاری کا آغاز 2001 میں کیا، جسے بہت پسند کیا گیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

سکھر کے نزدیک واقع ’’بدھ‘‘ نامی گاؤں اْن کے اجداد کا پہلا ٹھکانا تھا۔ شاید بدھ مت کے بے پناہ اثرات کی وجہ سے وہ گاؤں شاکیہ منی سے موسوم ہوگیا۔ کہتے ہیں،’’غالب امکان تو یہی ہے۔ بدقسمتی سے سندھ میں تحقیق کی جانب قطعی توجہ نہیں دی گئی۔

موئن جودڑو کے اسکرپٹ پر تحقیق نہیں ہوسکی، تو ایک گاؤں کے نام پر کون تحقیق کرے گا! دراصل راجا داہر سے پہلے سندھ میں بدھ مت کے پیروکاروں کی حکومت تھی۔ راجا ساھسی رائے حکم راں تھا، جسے راجا داہر کے باپ، راجا چچ نے قتل کیا، جس کے بعد برہمنوں کی حکومت آئی۔‘‘

اُن کے مطابق اگر راجا چچ پر قلم اٹھایا جائے، تو شاہ کار ناول تخلیق کیا جاسکتا ہے، جو ہمارے موجودہ مسائل کے حل میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ اِس ضمن میں دودو سومرو کی بیٹی، زینب تاری کا بھی ذکر کرتے ہیں، جس نے بڑی کام یابی سے سندھ پر حکومت کی، اور جب چھوٹے بھائی نے شعور کی دہلیز عبور کرنے کے بعد تخت کی خواہش کی، تو اقتدار بہ خوشی اس کے حوالے کر دیا۔ ’’درحقیقت تاریخ ہمیں بہت کچھ سِکھانے کے لیے وجود میں آئی، مگر بہ قول ایک مغربی مفکر، ہم نے تاریخ سے بس یہی سیکھا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔‘‘

سوانحی کوائف کچھ یوں ہیں کہ اعجاز منگی نے 15 اکتوبر 1965 کو ’’پیرس آف سندھ‘‘ کہلانے والے شکارپور میں آنکھ کھولی۔ ایک ایسے زمانے میں، جب قدیم شکارپور کے آثار مٹتے جارہے تھے۔ ان کے والد، نجم الدین ایک آزاد منش آدمی تھے۔ تبدیلی فطرت میں تھی، جو اُن کے سپوت کو وراثت میں ملی۔ چار بھائی، چار بہنوں میں وہ چھٹے ہیں۔ معاشی مسائل کے سائے میں پروان چڑھتے اعجاز منگی بچپن میں بہت بزدل اور اندروں بین ہوا کرتے تھے۔ یہی کیفیت کھیلوں سے دور لے گئی، کتابوں سے دوستی کا سبب بنی۔

شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوا کرتا۔ سن تو یاد نہیں، اندازہ ہے کہ جب گورنمنٹ ہائی اسکول شکارپور سے میٹرک کیا، مقتل ایک استعارہ بن گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوچکی تھی۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے وہ خاندان کے پہلے نوجوان تھے۔ راہ نمائی کا فقدان تھا، سو سائنس کے مضمون میں پھنس گئے۔

ایسے میں سکون کتابوں ہی میں ملا۔ علاقے میں جگ ناتھ لائبریری ہوا کرتی تھی، جو دھیرے دھیرے مٹ رہی تھی۔ لائبریری کے چوکی دار کی بیوی کم سن اعجاز کے ہاتھ کھانا بھجوایا کرتی۔ کھانا تو وہ پہنچا دیتے، مگر لوٹتے نہیں، لائبریری ہی میں ٹھہر جاتے۔ وہیں کتابوں کی لت پڑی۔ آغاز سندھی ادب سے ہوا۔ شاہ لطیف، شیخ ایاز، امداد حسینی سے پالا پڑا۔ پھر اردو ادب کی جانب متوجہ ہوئے۔ غالب اور اقبال کو سمجھنے کے لیے جیب خرچ سے لغت خریدی۔ وہ تجربہ شان دار رہا۔

بڑا بھائی برسرروزگار ہوا، تو معاشی مسائل گھٹنے لگے۔ تعلیم جاری رکھنے کا امکان پیدا ہوگیا۔ انٹر کے لیے گورنمنٹ کالج، شکارپور کا رخ کیا، جہاں شیخ ایاز کے صاحب زادے، سرمد سے دوستی ہوگئی۔ اِسی وسیلے سندھ کے اْس عہد ساز شاعر سے ملاقاتوں کا امکان پیدا ہوا۔ بہ قول ان کے،’’اْس وقت وہ میرے لیے کسی دیوتا کے مانند تھے۔ وہ ملاقاتیں بہت سحر انگیز ہوتیں۔ اس وقت وہ اپنے اوج پر تھے۔ اْن کی باتوں میں جن کتابوں کا تذکرہ آتا، میں اْنھیں پڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس طرح میں انگریزی ادب کی جانب متوجہ ہوا۔‘‘

کمیونسٹوں سے بھی اسی زمانے میں دوستی ہوئی۔ میر تھیبو کی صحبت میسر آئی، جو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، سندھ کے سیکریٹری تھے۔ نوجوان اعجاز ادب کے دل دادہ تھے، اور کمیونسٹوں میں مطالعے کو کلیدی حیثیت حاصل تھی، یوں جلد یہ رشتہ پختہ ہوگیا۔ مکالمہ شروع ہوا، مباحثوں کا آغاز ہوا۔ لیفٹ کے نظریات کی ترویج کے ارادے نے اْنھیں بچوں کی ایک تنظیم ’’ساتھی پارڑا سنگت‘‘ سے جوڑ دیا۔ جلد اْس کے چیف پیٹرن ہوگئے۔ تقریروں کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ یوں اداسیوں کو پچھاڑ کر محرومیوں سے نجات حاصل کی۔ کالج ہی کے زمانے میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) سے وابستگی ہوئی۔ تنظیم کی خواہش تھی کہ وہ طلبا میں کام کریں، مگر اْنھیں تو کسانوں میں کام کرنا پسند تھا۔ خاصے فعال رہے اْس زمانے میں۔

انٹر کے بعد ذہن میں یہ خیال پنپنے لگا کہ ڈگریوں میں کچھ نہیں رکھا، انسان کو انقلابی ہونا چاہیے۔ اس سرخ خیال کی انگلی تھامے 84ء میں کراچی کا رخ کیا۔ جامعہ کراچی کے شعبۂ فلسفہ کا حصہ بن گئے۔ رہایش ہوسٹل میں اختیار کی۔ اِس پورے عمل میں بڑے بھائی کی معاونت حاصل رہی۔ جامعہ کراچی میں بھی ڈی ایس ایف کے پلیٹ فورم سے فعال رہے۔ ایم آر ڈی سمیت کئی تحریکوں میں حصہ لیا۔ پمفلٹ چھپوانا، اْنھیں تقسیم کرنا، جلسے جلوسوں میں شرکت کرنا، یہی سرگرمیاں تھیں ان دنوں۔

اِسی دوران کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی جانب سے مارکس ازم، لینن ازم پڑھنے کے لیے بلغاریا کی اسکالر شپ ملی۔ وہ ایک سنہری موقع تھا، مگر اعجاز منگی اس سے استفادہ نہیں کرسکے کہ مرض عشق جکڑ چکا تھا، جس کے سحر نے کراچی کو خیرباد کہنے پر مجبور کر دیا۔ جن صاحبہ سے محبت ہوئی تھی، وہ بھی کمیونسٹ نظریات کی حامل تھیں، میر تھیبو کی بھانجی اور رسول بخش پلیجو کی بیٹی تھیں۔ رہتی جام شورو میں تھیں، جہاں پہنچنے کے بعد نوجوان اعجاز نے سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی میں داخلہ لے لیا۔ ماسٹرز سے پہلے شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ان کی آوارگی سے تنگ آکر بڑے بھائی نے معاونت سے دست بردار ہونے کا اعلان کر دیا۔ اب معاشی مسائل نے جنم لیا۔

اْسی زمانے میں حسن مجتبیٰ سے، جو آج کل بی بی سی سے منسلک ہیں، ملاقات ہوئی۔ اْن کے مشورے پر صحافت میں قدم رکھا۔ ’’سندھ نیوز‘‘ سے بہ طور سب ایڈیٹر، ساڑھے تین ہزار روپے ماہ وار پر منسلک ہوگئے۔ ایک برس وہاں رہے۔ اِسی عرصے میں ماسٹرز مکمل کیا۔ اب ’’عبرت‘‘ اور ’’سندھو‘‘ نامی میگزینز کی بہ حیثیت اَن چارج ذمے داری سنبھالی۔
لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ نظریات تو نہیں بدلے، مگر سیاسی سرگرمیاں محدود ہوتی گئیں۔ ہاں، ادبی سرگرمیوں کا دائرہ پھیلتا گیا۔ چند برس بعد وہ ’’کاوش‘‘ کا حصہ بن گئے۔ انٹرویو نگاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ جی ایم سید، مرتضیٰ بھٹو اور شیرباز مزاری سمیت کئی بڑی شخصیت کے انٹرویوز کیے۔ کالم نگاری کا بھی وہیں تجربہ کیا۔ تین برس بعد وہ ’’ڈیلی سندھ‘‘ کا حصہ بن گئے۔ ملازمتوں سے اوب گئے، تو اپنا میگزین ’’افیئر‘‘ نکالا۔ دو شماروں کے بعد معاشی مسائل رکاوٹ بن گئے، اور میگزین بند ہوگیا۔

اب روزنامہ ’’تعمیر سندھ‘‘ کا رخ کیا۔ ’’کانگ تڑو‘‘ کے زیر عنوان لکھے جانے والے کالمز نے ان کی شہرت کو مہمیز کیا۔ اخبار کا ادارتی صفحہ قارئین کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ہاکرز بھی یہ صدا لگاتے ہوئے اخبار بیچا کرتے؛ ’’آج اعجاز منگی کا کالم چھپا ہے!‘‘ ملازمتوں سے جان چھڑا کر کْلی طور پر کالم نگاری کی طرف آگئے۔ حق گوئی اور بے باکی دھمکیوں کا بھی باعث بنی۔ سیاسی اور ذاتی مخالفین نے غدار گردانا، مگر وہ کبھی اس نوع کی تنقید کو خاطر میں نہیں لائے۔ اْسی زمانے میں سندھی ادبی بورڈ میں سیکریٹری کی ذمے داری سنبھالی۔ دو برس اس عہدے پرفائز رہے۔ گذشتہ چند برسوں سے خود کو کْلی طور پر مطالعے اور کالم نگاری کے لیے وقف رکھا ہے۔

کالمز کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود انھیں کتابی شکل نہ دینے کا کیا سبب رہا؟ اِس ضمن میں کہتے ہیں،’’اگر میں اپنی سندھی تحریروں کو یک جا کروں، تو دو سو صفحات کی سو سے زاید کتابیں شایع ہوسکتی ہیں۔ اردو تحریریں بیس پچیس کتابوں کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔ البتہ میرا کتابیں شایع کرنے کا ارادہ نہیں۔ ایک سبب تو سُستی ہے۔ پھر کتابیں انسان شناخت اور شہرت کے لیے چھپواتا ہے، جس کی مجھے خواہش نہیں۔‘‘

پیشہ ورانہ سفر کے بعد پھر ادب موضوع بحث بن گیا۔ بتانے لگے، ایک زمانے میں اْنھیں کتابوں کی ایسی لت لگ گئی تھی کہ جو کچھ ہاتھ لگتا، پڑھ ڈالتے۔ جب انتخاب کرنے کی اہلیت پیدا ہوئی، تو کرشن چندر نے جکڑ لیا۔ تمام تخلیقات پڑھ ڈالیں۔ ٹیگور نے متاثر کیا، تو اس کی کتابیں کی کھوج میں نکل گئے۔ بیدی سے بھی اُسی زمانے میں دوستی ہوئی۔ روسی ادب کے وہ مداح ہیں۔ الیگزینڈر پشکن سے میخائل شولوخوف تک، سب ہی کو پڑھا۔ آج کل لاطینی امریکی ادب کا شہرہ ہے، مگر وہ اْس کے معترف نہیں۔ کہنا ہے،’’دراصل لوگوں نے کلاسیکی ادب کا مطالعہ نہیں کیا۔ جس نے دوستوفسکی کو پڑھا ہو، اْس کے لیے مارکیز کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘

ترقی پسند جمود کی مخالفت، ارتقا کی حمایت اور جدید رجحانات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، پھر کیا سبب ہے کہ ہمارے ترقی پسندوں کا ایک بڑا حلقہ ادب میں جدیدیت کو مکمل طور پر رد کردیتا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،’’میلان کنڈیرا، مارکیز، ہوزے سارا ماگو، پاؤلو کوئلیو، ہم اُنھیں بہت اچھا سمجھتے ہیں، مگر جب ہم پہلے کے ادیبوں کا اُن کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں، تو اْن کا قد بہت چھوٹا نظر آتا ہے۔ اب اردو میں دیکھیں۔ جدید ادیب بے شک اچھے ہیں، مگر قرۃ العین جیسا کوئی ادیب سامنے کیوں نہیں آیا؟ ’آگ کا دریا‘ جیسے ناول کیوں نہیں لکھا گیا؟ اگر قرۃ العین آج ہوتیں، تو جانے کیا کچھ لکھ ڈالتیں۔‘‘

اردو اور سندھی ادب کی موجودہ صورت حال اْن کے نزدیک ناگفتہ بہ ہے۔ ’’پروین شاکر اردو ادب کی آخری چنگاری تھیں۔ وہ بہترین شاعرہ تھیں۔ سندھی میں امداد آخری نام ہے۔ دراصل جب معاشرہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہو، تب بہترین ادب سامنے آتا ہے۔ آج معاشرہ جمود کا شکار ہے۔‘‘

اعجاز منگی کے نزدیک الیکٹرانک میڈیا نے آنکھوں اور کانوں کو یرغمال بنالیا ہے، جس کی وجہ سے مطالعے کے رجحان میں کمی آئی، فرد مارکیٹ کے تقاضے سامنے رکھتے ہوئے سوچنے لگا۔ ’’کیا آج شاعر اور ادیب کی عزت ہے؟ نہیں! ایسے میں کون اِس جانب آئے گا۔ یہی معاملہ کالم نگاروں کا ہے۔ اب کالم نگار کو کون پوچھتا ہے، اینکرپرسن کی عزت ہے۔‘‘ وہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو کیپٹل ازم کے سیفٹی والوز قرار دیتے ہیں۔ ’’دراصل کیپٹل ازم نے لوگوں کو مشینی مزدور بنادیا ہے۔‘‘

وہ حسین دن یاد ہیں، جب کراچی میں بوندا باندی ہوا کرتی تھی، جو کئی کئی روز جاری رہتی۔ Nikos Kazantzakis کے متنازع ناول The Last Temptation of Christ کے حصول سے عجیب یادیں وابستہ ہیں، جو فٹ پاتھ پر لگے ایک اسٹال سے ملا۔ جتنی رقم جیب میں تھی، سب کُتب فروش کے حوالے کر دی۔ گھر تک کا سفر پیدل طے کیا۔ جدوجہد کے دن بھی یاد ہیں۔ سماجی اور اقتصادی انصاف کے لیے ایک اور سیاسی جنگ لڑنے کی خواہش دل میں دہکتی ہے۔ والدہ کے انتقال کو زندگی کا سب سے کرب ناک لمحہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سانحہ 96ء میں پیش آیا۔

کسی زمانے میں پینٹ شرٹ اُن کی وردی تھی، اب شلوار قمیص میں نظر آتے ہیں۔ چٹ پٹے کھانے پسند ہیں۔ خود بھی اچھے ’’کْک‘‘ ہیں۔ گرمیوں کا موسم بھاتا ہے۔ شعرا میں شاہ لطیف اور غالب کے مداح ہیں۔ افسانہ نگاری میں نسیم کھرل اور قرۃ العین حیدر کا نام لیتے ہیں۔ ’’آگ کا دریا‘‘ پسندیدہ ناول ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے کراچی میں مقیم ہیں۔ زوجہ، ڈاکٹر انیتا اعجاز بہ طور ماہر نفسیات یہیں پریکٹس کرتی ہیں۔ خدا نے دو بیٹوں سے نوازا۔ دونوں زیر تعلیم ہیں۔ اطمینان کو جمود خیال کرتے ہیں، سفر پر یقین رکھتے ہیں۔

خالص ادب کا ترجمہ ناممکن ہے

تراجم کے وہ قطعی قائل نہیں۔ اُن کے نزدیک خالص ادب کا ترجمہ ناممکن ہے۔ ’’شیخ ایاز نے شاہ لطیف کے کلام کا جو اردو ترجمہ کیا، وہ میرے نزدیک ناقص ہے۔ ہاں، سچل سرمست کے کلام کا اْنھوں نے نسبتاً بہتر ترجمہ کیا۔ اسی طرح اقبال کے فارسی کلام کا فیض نے اردو میں جو ترجمہ کیا، اْسے پڑھ کر اقبال اور فیض دونوں پر رحم آتا ہے۔ اِس ضمن میں سب سے روشن مثال صوفی تبسم کا کلام غالب کا پنجابی ترجمہ ہے۔ اگر ترجمہ کرنا ہو، تو ایسا کیا جائے۔‘‘ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ برے تراجم دیکھ کر ان کے دل میں یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ خود اس میدان میں کچھ کریں۔

روسی ادب کا اردو میں جو ترجمہ ہوا، اْس سے بھی مطمئن نہیں۔ البتہ اسے یوں غنیمت جانتے ہیں کہ اِس کے توسط سے قارئین کلاسیکی ادب سے روشناس ہوئے۔ ’’ایک اجنبی کلچرل کو آپ اپنے ماحول میں کیسے منتقل کریں گے؟ دراصل ترجمہ کُلی طور پر تخلیقی عمل ہے۔ اور یہ مسئلہ پاکستان تک محدود نہیں۔ روسی اور دیگر زبانوں کے ادب کے انگریزی میں ہونے والے بیش تر تراجم بھی ناقص ہیں۔ میں پابلو نرودا کا عاشق ہوں۔ میں نے اپنی ایک ہسپانوی دوست کو اْس کی انگریزی میں ترجمہ کردہ چند نظمیں سنائیں، جنھیں سن کر اس نے کہا، یہ نظمیں نرودا کی ہے ہی نہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ادب کا کامل ترجمہ نہیں سکتا۔‘‘

جب تک غربت ہے، کمیونزم کا خاتمہ نہیں ہوسکتا!

کمیونزم کے ناقدین سوویت یونین کے زوال کو کمیونزم کے زوال پر محمول کرتے ہیں، مگر اعجاز منگی اِس خیال سے متفق نہیں۔ اْن کے نزدیک یہ فقط ایک ماڈل کا زوال تھا۔ ’’امیر اور غریب کے درمیان پایا جانے والا فرق اتنا واضح ہے کہ آپ اِسے نظرانداز نہیں کرسکتے۔ جب تک غربت ہے، کمیونزم کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ دراصل ایک احساس موجود ہے، جسے عملی راستہ نہیں مل رہا۔ اب عمران خان کو عوام کی جانب سے حیران کن ردعمل ملا۔

عمران خان کی جگہ کوئی لیفٹ کا آدمی ہوتا، ایک ترقی پسند پارٹی ہوتی، تو اِس الیکشن سے ملک کا نقشہ بدل جاتا ۔‘‘ اِس موضوع پر بات کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر نکل آیا، اسلامی سوشلزم پر بات ہوئی۔ اعجاز منگی کے بہ قول،’’اسلامی سوشلزم کا نعرہ ڈھکوسلا نہیں تھا، بھٹو صاحب ذاتی طور پر سوشلزم کو پسند کرتے تھے، مگر اس کے اطلاق کے لیے ایک پارٹی چاہیے، بھٹو پارٹی نہیں تھے، فقط ایک فرد تھے۔‘‘ ان کے نزدیک نوجوان، جو عظیم مقاصد کے لیے خود کو تج دیں، ترقی پسند نظریات کی تجدید میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اِس ضمن میں معراج محمد خان، رسول بخش پلیجو اور جی ایم سید کی مثال پیش کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔