برائیڈل فیشن ویک

قیصر افتخار  منگل 11 ستمبر 2018
 عروسی ملبوسات کی نئی کولیکشن نے ایونٹ کوچارچاند لگادیئے۔ فوٹو: فائل

 عروسی ملبوسات کی نئی کولیکشن نے ایونٹ کوچارچاند لگادیئے۔ فوٹو: فائل

لاہور کو فن وثقافت کا گہوارا کہا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ تاریخی شہر ثقافتی ورثہ سے مالامال ہے تو دوسری طرف فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں نام کمانے والے عظیم فنکاروں کا تعلق بھی لاہورسے رہا ہے۔ اس اعتبار سے لاہورکوہمیشہ ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہاں پرمنعقد ہونے والے گرینڈ پروگرام ہرلحاظ سے منفرد اوریادگارثابت ہوتے ہیں۔

روایتی انداز سے پیش کئے جانے والے پروگراموں میں جہاں لاہورکی ثقافت دکھائی دیتی ہے وہیں یہاں کے فنکارکسی بھی پروگرام کو چار چاند لگانے میںاپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ویسے توموجودہ حالات میں فنی سرگرمیاں بہت محدود ہوچکی ہیں اورلوگوںکی بڑی تعداد کے پاس تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابرہیں لیکن گزشتہ ہفتے لاہورمیں پاکستان فیشن انڈسٹری کی جانب سے منعقد کئے جانیوالے ’ برائیڈل فیشن ویک ‘ نے یہاں کی رونقیں زبردست اندازسے بحال کی ہیں۔

فنون لطیفہ کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد نے فیشن شومیں شرکت کی اورڈیزائنرزکے نت نئے اندازکے ملبوسات کودیکھااورسراہا۔ فیشن شوزمیں جہاں ملک کے نامورفیشن ڈیزائنرزنے برائیڈل ویک کی مناسبت سے مختلف رنگوں میں عمدہ کولیکشن تیارکی تھی وہیں ٹاپ ماڈلزکے ریمپ پرکیٹ واک نے تقریب کوچارچاند لگانے میںکوئی کسرنہ چھوڑی۔ زندہ دلان لاہور جہاں فیش ویکس میں شرکت پر خوش دکھائی دے رہے تھے وہیں ایونٹ کے آرگنائزر پاکستان فیشن ڈیزائن کونسل کی جانب سے بنائی جانے والی پالیسی سے پریشان بھی ہوئے۔ منتظمین کی جانب سے برائیڈل فیشن ویک کوایک خاص طبقے کیلئے منعقد کیاگیا تھا، جس کی وجہ سے اکثرلوگوںکو پریشانی اٹھانا پڑی۔

خاص طورپراردواورپنجابی بولنے والوں کوایونٹ میں شرکت سے روکنے کی وجہ سے ہنگامہ آرائی بھی ہوئی، کیونکہ آرگنائزرکی خواہش تھی کہ اس ’’ خاص ‘‘ فیشن ویک میں صرف وہی لوگ شرکت کرسکیں، جو انگریزی زبان پرمہارت رکھتے ہوں یا ان کے لباس اوراندازسے مغرب کی جھلک نمایاں ہو۔ یہی وجہ تھی کہ اس مرتبہ ایونٹ میں شریک ہونے والوںکو خاصی پریشانی کا سامنا رہا۔ لیکن اس کے باوجود تین دن تک ایونٹ جاری رہا اوراس میں ڈیزائنرزکی خوبصورت کولیکشن کے ساتھ معروف فنکار بھی شرکت کرتے رہے۔

تین روزہ برائیڈل ویک میں اس مرتبہ معروف فیشن ڈیزائنر حسن شہریاریاسین ( ایچ ایس وائی ) ، نومی انصاری، حسین ریہار، حمزہ بخاری، احمد بلال، کامیارروکنی، میشالاکھانی، ندااظفر، فرح فاطمہ، رکی ملین، لاجونتی، ریما شہربانو، سائرہ شاکرہ، علی زیشان اوردیگرشامل تھے۔ اس موقع پرجہاں معروف ڈیزائنرز کی کولیکشنز کوسپرماڈلز نے ریمپ پرمتعارف کروایا، وہیں بہت سے معروف ستاروں کی شرکت نے ایونٹ کوچارچاندلگائے۔

دیکھا جائے تومختلف رنگوں کا ملاپ اوران کی تراش خراش سے کپڑے کوایک نئی شکل دینے کاانداز نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔ صدیوں سے انسان پرکشش دکھائی دینے کیلئے کوشش کرتا آرہا ہے۔ سولہ سنگھار، بال سنوارنا ، آنکھوں میںکاجل، ہاتھوںمیں چوڑیاں، مہندی، پاؤں میں پازیب اور ملبوسات کے منفرد انداز شخصیت کو پرکشش بنانے کیلئے ہر دورمیں اہم رہے ہیں۔ اس لئے فیشن کی دنیا میں بدلتے رجحانات اوران کی مقبولیت کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن جس مہارت سے ہمارے باصلاحیت فیشن ڈیزائنرز نے اپنی صلاحیتوں کے ہنر دکھائے، اس پرجتنی بھی داد دی جائے وہ کم ہے۔ اسی لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فیشن کے شعبے میں پاکستان فیشن انڈسٹری سے وابستہ باکمال لوگوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوںکا لوہا منوایا ہے۔

دوسری جانب اب توہمارے ڈیزائنروں کی شہرت کے چرچے پاکستان کی سرحدیں پار کرتے ہوئے دنیا کے بیشترممالک تک جا پہنچے ہیں، جو کسی اعزازسے کم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں فیشن انڈسٹری کی مقبولیت میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے لیکن بدقسمتی کہہ لیں یا سازش کہ یہاں منعقد کئے جانیوالے فیشن شوز میں ایک خاص کمیونٹی کے علاوہ عام شہریوں کو شرکت کی اجازت نہیں ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ فیشن سے وابستہ بعض حلقے تویہ بھی کہتے ہیں کہ ’’فیشن کے رنگ توامراء کے سنگ ‘‘ ہی اچھے لگتے ہیں۔ اس لئے انہیں عام لوگوں تک پہچانا ضروری نہیں ہے۔ حالانکہ پی ایف ڈی سی کے منتظمین کے اس رویہ کے باعث بہت سے ڈیزائنرز مخالفت بھی کرتے ہیں لیکن ان کوبھی چپ رہتے کا پیغام ملتا ہے۔لاہورمیں ہونے والے تین روزہ برائیڈل ویک کے دوران معروف ڈیزائنرز، ماڈلز اورفنکاروں نے ’’ایکسپریس‘‘سے گفتگوکی، جوقارئین کی نذرہے۔

معروف اداکاروگلوکارعلی ظفر نے کہا کہ دنیا کے مختلف معاشروں میں انٹرٹین ہونے کیلئے فنون لطیفہ کے شعبوں سے بہترکوئی دوسرا شعبہ نہیں مانا جاتا۔ ہفتے بھرکی مصروف ترین زندگی بسرکرنے والے مغربی ممالک کے باسی تواپنی تھکن دورکرنے اور لطف اندوز ہونے کیلئے میوزک کنسرٹس اورفیشن شومیں شرکت کرتے ہیں۔ جہاں پر وہ اپنے پسندیدہ گلوکاروں سے گیت سنتے ہوئے جھومتے ہیں جبکہ فیشن شومیں ریمپ پرکیٹ واک کرتی سپرماڈلزکودیکھ کرآہیں بھی بھرتے ہیں۔ ان پروگراموں میں گزرے لمحات ان کی ساری تھکن چندگھنٹوں میں دورکردیتے ہیں۔ یہی ٹرینڈ گزشتہ دس، بارہ برس سے پاکستان میں بھی بہت عام ہو چکا ہے لیکن دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری اورلوڈ شیڈنگ جیسے مسائل کی وجہ سے اب پاکستانی عوام کے لئے تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔

ایونٹ مینجمنٹ کمپنیاں، شو آرگنائزراورکارپوریٹ سیکٹر ہفتہ وار میوزک کنسرٹس اورفیشن شومنعقد کروایا کرتے تھے مگراب ان لوگوں کومہینوں تک میوزک پروگرام اورفیشن شوزکے انعقاد کیلئے انتظارکرنا پڑتا ہے۔ جس کی بڑی وجہ کسی حد تک ملکی حالات ہی ہیں۔ اسی لئے لوگ اپنے گھروں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں اوراس وجہ سے لوگوں میں غصہ بھی زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں لوگوں کی تفریح کا بہترین ذریعہ بننے والا لاہورمیں منعقدہ فیشن ویک تھا ، جس نے واقعی ہی لوگوںکو انٹرٹین کیا اوراس طرح کے ایونٹس کے انعقاد سے جہاں لوگوںکو تفریح ملتی ہے ، وہیں ہمارے ملک کے ڈیزائنرز کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، جوکہ بہت ضروری ہے۔

فلمسٹارریشم نے کہا کہ خوبصورت پیراہن میں ملبوس ٹاپ ماڈلزجونہی ریمپ پرجلوہ گرہوتیں توشومیںموجود حاضرین ان کے ملبوسات اورانداز دیکھ کربھرپورداد دیتے۔ اس طرح سے ایک ہی فیشن شو میں خوبصورت پیراہن دیکھ کر خواتین کی بڑی تعداد بہت لطف اندوز ہورہی تھی۔ جہاں تک بات میری ریمپ پرواک کرنے کی تھی تومیں ہرسال اس طرح کے ایونٹس کا حصہ بنتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اپنے چاہنے والوں سے ملاقات کا یہ بھی ایک انداز ہے، جومجھے بہت پسند ہے۔ اس کے علاوہ بطوراداکارہ میں بھی فیشن کے نت نئے انداز اپنانے کی کوشش میں رہتی ہوں، جومیری شخصیت کوپرکشش رکھنے میں بھرپورسپورٹ کرتے ہیں۔

معروف ڈیزائنرحسن شہریاریاسین ( ایچ ایس وائی ) نے کہا کہ فیشن ویک میں پاکستان کے معروف ڈیزائنرز سے اپنے ملبوسات نمائش کیلئے پیش کئے جن کو معروف ماڈلز نے ریمپ پرکیٹ واک کرتے ہوئے متعارف کروایا۔ شادی بیاہ کی مختلف رسومات کے حوالے سے تیارکردہ ملبوسات میں رنگوں کا خوبصورت امتزاج تھا ، وہیں جیولری، ہیئرسٹائل، جوتے اوردیگر چیزوںکا میل آنکھوں کو بھلا لگا رہا تھا۔ دیکھا جائے تویہ پاکستان فیشن انڈسٹری کی کامیابی ہی ہے کہ اس میں شرکت کرنے والے ڈیزائنرز کی تعداد میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری جانب نوجوان لڑکے اورلڑکیاں بھی اب فیشن کے شعبے کوبطورپروفیشن اپنا رہے ہیں۔ جس کودیکھتے ہوئے میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان فیشن انڈسٹری کا مستقبل بہت روشن ہے۔

ڈیزائنرعلی زیشان نے کہا کہ لاہورفن وثقافت کا گھرمانا جاتا ہے۔ یہاں پرجب بھی کسی پروگرام کا انعقاد ہوتا ہے تولاہوریوںکی بڑی تعداد اس میں شریک ہوتی ہے اوراس کو کامیاب بنانے کے ساتھ ساتھ خوب لطف اندوز بھی ہوتی ہے۔ حالیہ فیشن ویک میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مقامی ہوٹل کے اندراورباہرلوگوںکا رش لگا تھا۔ جواس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان کی عوام اب فیشن انڈسٹری سے وابستہ ڈیزائنرز، ماڈلز اوردیگرکوکتنا پسند کرتی ہے۔ یہ سماں دیدنی تھا۔ میں سمجھتاہوںکہ یہی وہ ایوارڈ اوراعزاز ہے جوکسی بھی فنکاراورتکنیکار کومزید بہترکام کرنے کی ہمت دیتا ہے ۔

سپرماڈل مہرین سید نے کہا کہ بڑی کامیابی سے جاری فیشن ویک میں جہاں ڈیزائنرزکی تخلیقی صلاحیتیں نمایاں تھیں وہیںمعروف فنکاروں اورگلوکاروںکی ریمپ پرآمد سے تقریب کوچارچاند لگ رہے تھے۔ اگردیکھا جائے توہرلحاظ سے فیشن ویک کامیاب رہا اورشرکاء نے جس طرح سے کیٹ واک کرتی ماڈلز کی حوصلہ افزائی کی، وہ قابل ستائش ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہرگزرتے برس کے ساتھ پاکستانی فیشن انڈسٹری کی پسندیدگی اورمقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ نوجوان ڈیزائنرز اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل پرنہ صرف پاکستان بلکہ انٹرنیشنل مارکیٹ تک بھی اپنا کام لے کرجارہے ہیں۔ اگریہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اورفیشن ویک منعقد ہوتے رہے توآنے والے چند برسوں میں فیشن انڈسٹری ایک بہت بڑی منافع بخش ادارے کے طورپرسامنے آئے گی۔

سپرماڈل آمنہ الیاس نے کہا کہ میرا تعلق پاکستان فیشن انڈسٹری سے ہے اورآج ایکٹنگ کے شعبہ میں ، میں جوکام کررہی ہوں، وہ اس کی بدولت ہے۔ مجھے اس کا حصہ ہونے پرفخر تھا اورہمیشہ رہے گا۔ کیونکہ فنون لطیفہ کے مقبول ترین شعبوں میں آج میرے نزدیک سب سے مقبول شعبہ فیشن انڈسٹری بن چکا ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس پروفیشن کواپنانا چاہتی ہے، جوکہ ایک طرح سے پاکستانی فیشن انڈسٹری کی جیت ہی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگریہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اوراس سے وابستہ لوگ محنت اورلگن سے کام کرتے رہے تووہ وقت دورنہیں جب پاکستانی فیشن دنیا بھرمیں راج کرتا دکھائی دے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔