پاک امریکا تعلقات: ایک جائزہ (آخری حصہ)

مقتدا منصور  جمعرات 13 ستمبر 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

تیسری دنیا کے طالع آزماؤں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اقتدار میں آنے اور اس پر قابض رہنے کی خواہش میں بڑی طاقتوں کا سہارا تلاش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ ان ممالک کے منصوبہ سازوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں۔ ایوب خان ہوں یا ضیاالحق یا پھر پرویز مشرف۔ان کے علاوہ بیشتر سویلین رہنما بھی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اسی نوعیت کا کھیل کھیلتے رہے ہیں اور عالمی قوتوں کے چنگل میں پھنستے رہے ہیں۔

ایوب خان نے ہوس اقتدار میں امریکا اور برطانیہ کو اعتماد میں لے کر سیاسی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔امریکا کو اس وقت ایک ایسے حکمران کی ضرورت تھی، جو اس کے اشاروں پر چلتے ہوئے سوویت یونین کے گرد گھیرا تنگ کر سکے۔ ایوب خان نے ہر وہ کام کیا جو اپنے ملک کے بجائے امریکی مفاد میں تھا یا عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات کی تکمیل میں تھا۔ بڈبیر کا اڈا ہو یا ملک میں ترقی پسند سیاست کا قلع قمع کرنے کے علاوہ سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرکے تربیلا ڈیم کے لیے قرضہ تو حاصل کرلیا، لیکن پاکستان کے لیے آنے والے دنوں میں پانی کا شدید بحران پیدا کرگئے۔

1965کی جنگ میں امریکا کا رویہ سرد مہری کی انتہا تھا۔اس میں شک نہیں کہ اس جنگ کے شروع ہونے کے اسباب میں پاکستان کی جانب سے بھی بعض کوتاہیاںسرزد ہوئی تھیں، مگر حلیف ہونے کے ناتے یہ امریکا کی ذمے داری تھی کہ وہ اس کڑے وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا، مگر اس نے اس موقعے پر تنہا چھوڑ کر ایک بار پھر ثابت کیا کہ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات حلیف والے نہیں بلکہPatron & Client  والے ہیں ۔ جب ایوب خان کواس حقیقت کا اندازہ ہوا کہ امریکا دوست (Friend)نہیں آقا(Master)بنا ہواہے، تو انھوں نے Friends not Masters لکھ کر دل کی بات کرنا چاہی، مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔

جنرل یحییٰ کی بھی کوئی سیاسی بنیاد نہیں تھی، بلکہ وہ بھی ایوب خان کی طرح آئے تھے،اس لیے انھوں نے بھی واشنگٹن کی بانہوں میں امان چاہی ۔ انھوں نے اس وقت کے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ بیجنگ میں بھرپور معاونت کی۔ ان کے اس اقدام سے کسی قدر برف ضرور پگھلی، مگر تعلقات آئزن ہاور والے دور کی گرم جوشی تک نہ پہنچ سکے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ وہی کہ ہمارے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کا وقتی مفادات کی گرداب میں پھنس کر فیصلے کرنا اور ان فیصلوں کے نتائج اور مستقبل پر اثرات کو نظر اندازکرنا۔

ذوالفقارعلی بھٹو کا پورا دور سردمہری میں گذرا ۔ بلکہ 1975 میں ایک مرحلہ پر جب پاکستان جوہری توانائی کے لیے جدوجہد کر رہا تھا ۔ لاہور کے گورنر ہاؤس میں  ہنری کسنجر کو دیے گئے استقبالیے میں بھٹو نے پاکستان کی توانائی کی ضروریات کا ذکر کرتے ہوئے، جوہری توانائی کے حصول کے لیے مختلف عرب ممالک سے امداد لینے کی بات کی، تو ہنری کسنجر نے دھمکی آمیر انداز میں کہا تھا کہ Mr. Bhutto, then you will get an exemplary punishment۔ ہوا بھی یہی کہ چند مذہبی جماعتوں سے PL480کے پیسے سے بھٹو کے خلاف تحریک چلوائی گئی اورپھر ایک نئے طالع آزماکے ذریعے بھٹو کا تختہ الٹ کر انھیں تختہ دار تک پہنچا دیا۔

جنرل ضیا کے دور میں افغان جنگ میں پاکستان کا ملوث ہونا،گو کہ پاک امریکا تعلقات میں گرم جوشی کا دوسرا دور تھا ، جو 1988میں جنیوا معاہدے تک جاری رہا، مگر اس گرم جوشی کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔1980کے عشرے کے اوائل میں  انھوں نے افغان جنگ میں پاکستان کو پھنسا کر مذہبی جنونیت اور متشدد فرقہ واریت کی جس راہ پر لگایا اس کے نتیجے میںایک ایسے دورکا آغاز ہوا ، جس نے ملک کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اقتدار اورFabric کو سمندر برد کردیا، جب کہ معیشت کو تباہی کے آخری دہانے تک پہنچا دیا، مگر یہاں پھر امریکا کا کردار حلیف کا نہیں بلکہ Patron & Client والا ہی رہا۔

جب امریکا کو افغانستان میں کامیابیوں کے آثار نظر آنے لگے، تو 28مارچ 1984کو دو ڈیموکریٹ سینیٹروںAlan Cranston اور John Glenn نے Foreign Assistance Program of 1961کی شق 620(E)eمیں ترمیم کا بل پیش کیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی فوجی اور سول امداد کو امریکی صدر کے اس NoCسے مشروط کردیا جائے، جس میں امریکی صدر یہ یقین دہانی کرائیں کہ پاکستان کے پاس نہ تو جوہری ہتھیار ہیں اور نہ بنانے والا ہے۔John Glenn کے بل سے سول امداد کی شق کو نکال کر صرف فوجی امداد پر شرائط عائد کرنے کا بل تین ری پبلکن سینیٹروںCharles Percy،McC. Mathias Jr.اورLarry Pressler نے اگست1985میں سینیٹ میں پیش کیا، جسے اکثریت کے ساتھ منظور کرلیا گیا۔یہ بل پریسلر ترمیم کے نام سے مشہور ہوا ۔

افغان جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی تھی ۔اس سلسلے میں افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے کثیر الفریقی کانفرنس جنیوا میں منعقد ہوئی۔ جس میں افغان نمایندوں کے علاوہ پاکستان، امریکا اور سوویت یونین کے نمایندے بھی شریک ہوئے۔اس معاہدے پر 14اپریل 1988 کو دستخط ہوئے۔ یہ طے ہوا کہ 15 مئی سے روسی فوجوں کا افغانستان سے انخلا شروع ہوگا جو 15 فروری 1989میں مکمل ہوگا۔ اس وقت تک پریسلر ترمیم کے تحت امریکی صدور پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہونے کا NoC جاری کرتے رہے، لیکن فروری 1989میں جیسی ہی آخری روسی فوجی افغانستان سے نکلا، امریکی صدور نے NoCجاری کرنا چھوڑ دیا ۔ جس کا مطلب فوجی امداد کی معطلی تھا۔ سرد مہری کا یہ دور 9/11کے ظہور پذیر ہونے تک جاری رہا ۔

گرم جوشی کا اگلا دور9/11کے بعد جارج بش جونیئر کے دور میں شروع ہوا اور بارک اوباما کی آمد کے ساتھ ختم ہوگیا ۔اب تک یہ تصور رہا تھاکہ پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا دور ڈیموکریٹس کی حکومتوں میں ہوتا ہے ، جب کہ ری پبلکن دور میں گرمجوشی آجاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ تاریخ کا بد ترین سرد مہری کا دور ری پبلکن  صدر ٹرمپ کے دور میں شروع ہوا ہے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ امریکا کے اہداف ہنری کسنجر کے تجزیے کے مطابق Indo-Pacific ریجن میں اپنی برتری کو پھیلانا ہے، تاکہ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت کو روکا جاسکے ۔ دوسرے وسط ایشیائی ممالک میں موجود 6.3 ٹریلین ٹن آئل اور گیس کے ذخائر کو افغانستان اور پاکستان کے راستے بھارت تک پہنچایا جاسکے۔ پاکستان پر حالیہ دباؤ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

ہماری اپنے منصوبہ سازوں سے صرف اتنی التجا ہے کہ وہ دوسروں پر تنقید کے بجائے اپنی خامیوں اور غلطیوں کا جائزہ لیں اور ایسی متحرک، فعال اور قابل عمل پالیسیاں بنائیں جو ملک کو پیچھے کی طرف دھکیلنے کے بجائے آگے کی طرف لے جانے کا باعث بنیں ۔ پھر عرض ہے کہ ہمیں سردجنگ کے زمانے کے تصورات اور بیانیوں کے چنگل سے خود کو آزاد کرانے کی ضرورت ہے۔ امریکا کے عزائم کچھ ہی کیوں نہ ہوں، دہشت گردی کے خاتمہ کا اس کا مطالبہ بالکل درست ہے۔ یہ ہمارے اپنے حق میں ہے ۔ اس لیے ان تمام شدت پسند جماعتوں کی سرپرستی سے دست کش ہونا ہی ہمارے لیے بہتر ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔