عقیدت کا سفر…

شیریں حیدر  اتوار 23 ستمبر 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

622 سن ہجری وہ سال ہے جب آنحضورﷺ مکہ سے ہجرت کر کے عازم مدینہ ہوئے تھے، مدینہ پہنچنے پر لوگ گلیوں میں امڈے پڑتے تھے، ان سب کے پیارے اور محبوب خدا نے اس شہر میں قدم رنجہ فرما کر ان کے شہر کو فضیلت بخشی تھی۔

یہ امر ربی تھا، لوگوں کا جوش دیدنی تھا، دف کی آوازوں پر استقبالیہ اشعار گاتی ہوئی بچیاں اور مسرور جوان اور بوڑھے، دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھے اور اسلام کے جیالے اپنے پیارے نبیﷺ کی آواز پر لبیک کہنے کو پروانہ وار لپک رہے تھے۔ ہر کوئی اس آس میں تھا کہ ان کے گھرمیں قیام فرما کر آنحضور ﷺ عزت بخشیں گے۔

لوگوں کی عقیدت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جہاں میری اونٹنی جا کر رکے گی،وہیں میرا قیام ہو گا۔ اونٹنی حضر ت ابوایوب ؓ کے گھر کے پاس جا کر رکی۔ ان کا تعلق قبیلہ بنی نجار سے تھا، ان کا قبیلہ مدینہ کا سب سے بہترین قبیلہ تھا۔ اپنی خوش قسمتی گردانتے ہوئے انھوں نے فورا طعام کا بندوبست کروایا ۔

مکے سے آنے والے قافلے میں سے نبیء پاک ﷺ کے قریبی ساتھیوں کے لیے انھوں نے کھانا تیار کروایا تھا مگر جب کھانے کا وقت آیا تو آنحضور ﷺ نے تمام ساتھیوں کو اس میں شامل ہونے کو کہا۔ چند لوگوں کے لیے تیار کروایا گیا کھانا تمام 180 لوگوں نے خوب سیر ہو کر کھایا، یہ ہمارے نبی پاک کی دعا کی برکت سے تھا۔ مکہ سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین اور ان کی مدد کرنے والے مدینہ کے مکین انصار کہلائے ، ابو ایوب بھی ابو ایوب انصاری ؓ بن گئے… ہر انصاری خدمت اور مدد کو پیش پیش تھا، دل میں ان قافلے والوں کے لیے محبت اور یگانگت کا جذبہ پیش پیش تھا۔

حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بھی انھی لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اپنی باقی تمام زندگی آنحضورﷺ کی خدمت کے لیے وقف کردی اور آخر دم تک ان ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ آنحضور ﷺ نے جب اللہ کے حکم سے مسجد نبوی کی تعمیر کے کام کا ارادہ فرمایا اور اس کے لیے جس زمین کا انتخاب ہوا وہ مدینہ کے دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی تھی، ان دونوں بچوں نے وہ زمین آنحضور ﷺ کو مسجد کی تعمیر کے لیے ہدیتاً پیش کی ۔ آنحضور ﷺ نے ان کی اس پیش کش کو قبول نہیں فرمایا کیونکہ وہ دونوں یتیم بچے تھے۔

اس موقع پر حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے قیمت ادا کر کے وہ زمین ان بچوں سے خریدی اور مسجد کی تعمیر کے لیے وقف کردی۔ ان کے اس اقدام کے باعث انھیں ’’ واقف مسجد نبوی ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ چند احادیث کے راوی بھی ہیں ، ان میں سے مشہور یہ ہیں ۔

’’ نبیء پاک ﷺ نے فرمایا کہ یہ جائز نہیں کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ دیر تک ناراض رہے یا قطع تعلقی کرے۔ ان میں سے افضل وہ ہے جو اس بات میں پہل کرے کہ جب وہ اپنے اس بھائی کے سامنے آئے تو سلام میں پہل کرے۔‘‘

’’ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی شب جب وہ حضوت ابراہیم ؑکے قریب سے گزرے تو انھوں نے جبرائیل ؑسے سوال کیا کہ ان کے ساتھ کون تھا۔ جبرائیل ؑنے کہا، محمد ﷺ ۔ حضرت ابراہیم ؑنے فرمایا ، اے محمدؐ اپنی امت سے کہوکہ اپنے لیے جنت کی وسیع اور زرخیز زمین میں درخت لگائیں ۔ آنحضور ﷺ نے دریافت کیا کہ ایساکیسے ممکن ہے تو جبرائیل ؑ نے فرمایا کہ ان سے کہو’ لا حول ولا قوۃ‘ کا ورد کثرت سے کیا کریں ۔ ‘‘

آنحضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ قسطنطنیہ پر پہلی بار حملہ کرنے والی مسلمانوں کی فوج کے سپاہی جنت میں جائیں گے۔ آنحضور ﷺ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب تک آنحضورﷺ زندہ رہے، حضرت ابو ایوب انصاری ؓنے کسی حالت میںان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ استنبول ( قسطنطنیہ) پر مسلمانوں نے پہلی بار حملہ 672 عیسوی میں کیا تھا اور اس میں سات سال محاصرے کے باوجود مسلمان ناکام ہوئے تھے۔

اس محاصرہ کرنے والی فوج میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بھی شامل تھے جن کا بعد ازاں بیماری کے باعث یہیں انتقال ہوا اور یہیں مدفون ہوئے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں ان کے مقبرے کی تعمیر کی گئی۔ ان کے مقبرے کے علاقے میں ان کے علاوہ اور بھی کئی ایسی نامی ہستیاں مدفون ہیں جنھوں نے ان کے قرب میں دفن ہونے کی خواہش کی تھی۔

انتالیہ سے واپسی کی پرواز کے بعد ائیر پورٹ سے ہی ہمارے گائیڈ ، ابراہیم نے ہمیں وصول کیا اور صوفیہ گرکن ائیر پورٹ سے جانب مدفن ابو ایوب انصاری ؓ روانہ ہوئے۔ ان کے مزارکی مناسبت سے اس علاقے کا نام ہی ان کے نام پر ہے۔ لگ بھگ پچاس منٹ کے بعد اس علاقے کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے اور نظروں کے سامنے مقبرے کی عمارت ایک پہاڑی چوٹی پر نظر آ رہی تھی، شہر کے بیچوں بیچ کا علاقہ، ڈھلوانی سڑکوں پر چڑھتی ہوئی تیز رفتار گاڑی میں بیٹھے ہوئے دل کی دھڑکنیں عقیدت کی تال پر دھڑک رہی تھیں، زیر لب ورد کرتے ہوئے میںاپنی نظریں مسلسل اس گنبد پر گاڑے ہوئے تھی جو لحظہ بہ لحظہ قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔

مزار کے احاطے میں پارکنگ ایریا میں گاڑی پارک ہوئی اور ہمارے ساتھ گاڑی سے اتر کر پیدل چلتا ہوا گائیڈ ہمیں بتاتا جا رہا تھا کہ داہنے ہاتھ پر کن لوگوں کی قبریں تھیں اور بائیں ہاتھ پر کن اہم شخصیات کی۔ قبروں کے ہر ’’ محلے ‘‘ میں ایک انداز کی قبریں تھیں اور ہر ایک دور کی قبروں کو جنگلے لگا کر ایک علاقہ سا بنا دیا گیا تھا۔ کہیں سفید سنگ مر مر کی قبریں تھیں تو کہیں پتھروں کی،کہیں اینٹوں کی اور کہیں سیمنٹ کی۔ تمام قبریں پختہ تھیں اور ان کے کتبے کافی بلند تھے جو کہ ترکی کا عام انداز نظر آیا۔

بیرونی احاطے کے ایک بڑے سے فوارے تک پہنچتے ہوئے گائیڈ نے ساری تاریخ گھول کر پلا دی اور ہمیں ایک گھنٹے کا وقت دے کر ’’ آزاد ‘‘ کردیا۔ ہم نے اپنے جوتے اتار کر وہاں موجود لفافوں میں ڈال کر اپنے اپنے ہاتھوں میں تھام لیے ، یہ لفانے وہاں کثرت سے شیلفوں میں رکھے ہوئے تھے اور اسی مقصد کے لیے تھے، اس کے سامنے اس راہداری پر چلے جہاں چند قدم پر مزار ابو ایوب انصاری ؓ تھا۔ باہر سے سرمئی نظر آنے والا ایک بڑا سا گول گنبد، اندر سے بہترین نقاشی اور آرٹ کا نمونہ تھا۔ اندر زائرین کی ایک کثیر تعداد تھی مگر کوئی دھکم پیل نہ تھی، ہلکی رفتار سے بڑھتی ہوئی قطار کا سرا پکڑ کر ہم بھی ہولے ہولے بڑھنے لگے۔

دائیں طرف دیوار میں نصب ایک شو کیس میںان کے استعمال کی چند اشیاء رکھی تھیں۔ ترکی کے مخصوص نیلے پینٹ اور چھوٹے بڑے پھولوں کے نمونوں سے مزین مزار کا اندرونی حصہ ، اندرونی چھت بالکل سادہ تھی البتہ چھتوںپر خوبصورت نقاشی تھی۔ مزار کا دروازہ اس گول کمرے کے عین وسط میں تھا، غالبا چاندی کا دروازہ ہو گا یا اس رنگ کا، اس کے عقب میں جالیوں کی دو تین دیواریں اور ان جالیوں کی اوٹ میں سے نظریں رسول اللہﷺ کے اس مقرب کے مقبرے کو دیکھ رہی تھیں۔

مرقد پر منڈھا ہوا سبز رنگ کا کپڑا اور سر کی طرف رواج کے مطابق دستار رکھی تھی۔ فاتحہ پڑھی اور اسی رفتار سے چلتے ہوئے باہر نکلے جہاں اسی احاطے میں درمیان میں قدیم درخت ہیں ، جن کے گرد جالیوں کی گرلیں ہیں، چاروں کونوں میں پینے کے پانی کے لیے ٹونٹیاں ہیں، ان ٹونٹیوںکے ساتھ اسٹیل کے گلاس زنجیر سے بندھے ہوئے تھے، ہمارے ہاں کی طرح اور اس کے بالکل سامنے چھوٹی سی مسجد ۔ دو رکعت نماز تحیتہ المسجد پڑھی اور باہر نکل کر اس عمارت کی خوبصورتی، قدامت، کشش اور ہیبت سے دیر تک مسحور ہوتے رہے، اتنی دیر تک جب تک گائیڈ کو دیے ہوئے وقت کا الارم نہ بج گیا۔

مزار کی جس سمت سے ہم آئے تھے اس کی مخالف سمت میں باہر نکلے تو باہر اسی نوعیت کی دکانیں تھیں جیسی پاکستان میں کسی مزار یا دربار کے باہر ہو سکتی ہیں۔ مقبرے کے چھوٹے چھوٹے ماڈل، تسبیحات، نیاز بانٹنے کا سامان، مسجد میں وقف کرنے کے لیے چٹائیاں اور بے شمار اشیاء خور ونوش کی دکانیں اور ریستوران بھی تھے لیکن فرق یہ تھا کہ وہ سب کچھ ہمارے ہاں کے برعکس، بہت منظم اور صاف ستھرا تھا۔

لوگ انھی دکانوں سے خرید کر مسجد کے صحن میں نیاز بھی بانٹ رہے تھے اور وہاں سے کھانا بھی خرید کر کھا رہے تھے، مگر کوئی بد ترتیبی اور بد نظمی نہ تھی۔ مقبرے کی چھوٹی سی عمارت اور اس سے ملحقہ ویسی ہی چھوٹی سی مسجد مگر عقیدت مندوں کا جم غفیر تھا، لوگ مسلسل آ اور جا رہے تھے، کوئی کسی کی جیب نہیں کاٹ رہا تھا، کوئی جوتے چوری نہیں کر رہا تھا، کوئی کسی کے ساتھ بد تمیزی نہیں کر رہا تھا نہ ہی ’’شکاری مرد حضرات ‘‘ تھے جو عورتوں کے ساتھ بالخصوص چھیڑ خوانی کے لیے ایسی جگہوں کو تلاشتے ہیں ۔

ہم میں سے بہت سے لوگ باہر جاتے ہیں اور متاثر ہو کر لوٹتے ہیں، وہاں کا نظام، صفائی، تنظیم اور ترتیب سب کچھ بھاتا ہے ۔

ہمارا طبقہء اشرافیہ اور حکومتی عہدے دار بھی ایسی جگہوں پر تفریح کی غرض سے جاتے ہیں یا سرکاری دوروں پر … ان کی اچھی چیزوں کو دل سے سراہتے بھی ہیں مگر کیا رکاوٹ ہے جو ہم ان اچھائیوں کو اپنے ملک میں نہیں لا سکتے، ایسا نظم اور ترتیب ہمارے ہاں کیوںنہیں آسکتا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔