رموزِ حکمت

مولانا سیّد شہنشاہ حسین نقوی  جمعـء 28 ستمبر 2018
جناب علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا :’’جو کم زور پر رحم کرے، وہ شریف آدمی ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

جناب علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا :’’جو کم زور پر رحم کرے، وہ شریف آدمی ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

اللہ رب العزت کے ہم پر جہاں اَن گنت احسانات ہیں، وہاں ایک کرم یہ ہے کہ اُس نے خَلق کو خالق سے جوڑنے کا جو راستہ عطا کیا ہے، وہ قرآنِ مجید ہے۔ یہ بہترین باتوں کی پیروی کی ترغیب دینے والی بے مثل کتاب ہے۔

جب مخلوق اپنے خالق سے بات کرنا چاہے، تو اُسے قرآن کھول لینا چاہیے۔ بہترین انداز سے اللہ کے پیغامات کو سمجھنا، شعورِ بشر کی ترقی کا سامان، انسانی معلومات اور خاص طور پر انسانیت میں اضافے کا بہترین سبب قرآنِ مجید کی تلاوت اور اُس پہ غور و خوض ہے۔

اللہ کا کمال مانع ہے کہ وہ ہمارے درمیان اِس حیثیت میں ہو کہ جیسے ہم ایک دوسرے کے درمیان ہیں۔ اور ہمارا نقص مانع ہے کہ ہم اُس مقام تک پہنچیں، جہاں پہنچنے کے لیے مَلکِ مقرّب کے بھی پَر جل جاتے ہَوں۔ لہٰذا ہمیں اللہ کی جانب سے اِک واسطۂ فیض چاہیے تھا اور اُسی واسطۂ فیض کو قرآنِ کریم کہا جاتا ہے۔

شفیع المذنبین، رحمۃ للعالمین، مراد المشتاقین ہمارے پیارے نبی کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں :

’’جو اِس عالم میں صبح کرے کہ مسلمانوں کے اُمور کی فکر اور اس کا اہتمام نہ کرے، وہ مسلمان نہیں ہے۔ اسی طرح جو مسلمانوں کو مدد کے لیے پکار رہا ہو تو جو بھی اُس کی آواز پر لبّیک نہ کہے، وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔‘‘ ( بحارالانوار۔ علّامہ مجلسیؒ )

یہ حدیثِ مُبارکہ آج ہم سب کو تمام مظلومینِ عالم کی حمایت اور مدد کی دعوت دے رہی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اِس پر عمل کرنے کی توفیق کرامت فرمائے اور ہم اُس توفیق پر لبّیک کہنے والوں میں بھی شامل ہَوں۔ (آمین)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ ’’نہج البلاغہ‘‘ میں محمد ابنِ ابوبکرؓ کے نام مکتوب میں فرماتے ہیں : ’’یاد رکھو کہ تمہارا ہر عمل نماز کے تابع ہے۔‘‘

اُنّیس رمضان کا فجر کا وقت تھا، امام المتقین علی ؓ مسجد ِ کوفہ میں قدم رکھتے ہیں، اور ابنِ ملجم کو اُٹھا کر کہتے ہیں: ’’ اُٹھ نماز کا وقت ہے۔‘‘

میں اِس جملے کو تاریخ میں پڑھنے کے بعد سوچتا ہوں، جو علیؓ اپنے قاتل کو بے نمازی نہ پسند کرتے ہوں، وہ اپنے چاہنے والوں، نام لیوائوں کو بے نمازی کیسے پسند کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔ ؟ ہم سب کو اس پر غور کرنا ہوگا، نماز کی حد درجہ اہمیت اور افادیت قرآن و حدیث کی رُو سے واضح ہے۔

بات مختصر ہونی چاہیے مگر جامع ترین ہونی چاہیے۔ ایاز محمود کا نوکر تھا، غلام تھا، خادم تھا، مگر ذہین بہت تھا۔ ذہانت اُس کی اِس درجے پر تھی کہ غلام ہونے کے باوجود اکثر اوقات محمود اُس سے مشورہ کِیا کرتا تھا، جو دربار میں بیٹھے ہوئے صاحبانِ منصب پہ گراں بھی گزرتا تھا، کہ آخر یہ نوکر ہے، غلام ہے، خادم ہے اور ہماری رائے کے بعد اِس سے رائے لی گئی اور اِس کی رائے کو مان لیا گیا۔ دل چھوٹا کرتے تھے وہ لوگ۔ ایک دن شکایت کی کہ آپ اِس کی بات کو مانتے ہیں اور ہماری بات کو نظر انداز بھی کردیتے ہیں۔ تو محمود نے کہا کہ آج میں سب سے ایک سوال کروں گا، تم خود دیکھنا کہ کس کا جواب سب سے اچھا ہے۔ اور اپنے سارے ذمّے دار جو دربار میں بیٹھے تھے، اُن سے پوچھا کہ مجھے کوئی ایک ایسا جملہ بتائو، جو میں غم میں بولوں، تب بھی مجھے سکون ملے اور خوشی میں بولوں، تب بھی مجھے سکون ملے۔ کوئی ایسا فقرہ جو غم میں بھی میرے کام آئے اور خوشی میں بھی میرے کام آئے۔ مختلف باتیں کی گئیں، مگر وہ جامع باتیں نہیں تھیں۔ جب ایاز سے پوچھا: ’’ ایاز! تم بتائو کہ کیا کریں، کیا بولیں جو دونوں مرحلوں میں کام آئے ۔۔۔ ؟‘‘ ایاز نے بے ساختہ جواب دیا: ’’حضور! یہ جملہ کافی رہے گا کہ ’’ یہ وقت بھی گزر جائے گا، یہ خوشی میں بھی کام آئے گا اور یہ غم میں بھی کام آئے گا۔‘‘ تو محمود نے اِس مختصر ترین مگر جامع جملے کو خوش خطی سے اپنے تخت کے پیچھے دیوار پر لکھوایا تھا۔ ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا۔‘‘

ہم اللہ کے پیاروں کی محفل میں جب بھی ہوتے ہیں، ہمیں یقینا انسانیت کی قدروں کو دل سے اپنانے کا درس ملتا ہے۔ قربان جائیے مکتبِ آلِ رسول ؐپر، اِس گھرانے پر جس کے سربراہ نبی کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قرآنِ کریم کی ایک آیت کے عامل اور فقیہ نہیں ہیں، اُن کے قلبِ مبارک میں پورا قرآن موجود ہے اور مکمل قرآن کے عامل بھی ہیں۔

’’شریف آدمی‘‘ کے حوالے سے آلِ رسولؐ نے ہماری یوں راہ نمائی فرمائی۔

کسی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا : ’’یا ابوالحسن ؓ! شریف آدمی کی کیا تعریف ہے؟‘‘

جناب علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : ’’جو کم زور پر رحم کرے، وہ شریف آدمی ہے۔‘‘ (ماخوذ از نہج البلاغہ)

نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روِش یہ ہے کہ آپؐ ایک جگہ سے گزر رہے ہیں۔ ایک یہودی خاتون اپنا سامان اُٹھا کر لے جا رہی ہے۔ اُس سے سامان اُٹھ نہیں رہا۔ نبی ِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ اصحابؓ کو اشارہ فرما رہے ہیں، اصحابؓ کو روک رہے ہیں کہ یہ کام مجھے کرنے دو اور جب اُسے گھر پہنچا دیا، تو وہ کہنے لگی : ’’تم بہت اچھے جوان ہو۔ تو اب ایک نصیحت بھی سُن لو۔ بنی ہاشم کے خاندان میں ایک جوان ظاہر ہوا ہے، جو بہت بُرا ہے۔ خبردار! اُس کے قریب مت چلے جانا۔ وہ تمہیں بہکائے گا۔ وہ تمہیں گم راہ کر دے گا۔‘‘

نبی ِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’ اُس کا نام کیا ہے؟‘‘

کہنے لگی: ’’ وہ عبداللہ ؓ کا بیٹا ہے، محمدؐ نام ہے۔‘‘نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’ میں ہی وہ محمدؐ ہوں۔‘‘ ایک مرتبہ قدموں میں گرِ گئی۔ کہنے لگی: ’’میں نے تو کچھ اور سُنا تھا۔ تم اتنے بڑے انسان ہوکر میرا سامان اُٹھا رہے ہو!‘‘

یہ اَخلاق ہے خُلقِ مجسّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔