سروں کی فصلیں

نسیم انجم  ہفتہ 8 جون 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

یہ سچ ہے کہ جو انسان سوچتا ہے وہ نہیں ہوتا اور جو نہیں سوچتا وہ ہوجاتا ہے۔ بے شک تخیلات کی دنیا انوکھی سی ہے جہاں بہت سے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ خوابوں کی تعبیر بھی مل جاتی ہے، امیدیں جنم لیتی ہیں، خوشیوں کے پھول کھلتے ہیں اور یاس کے کانٹے دل ناتواں کو چھلنی کردیتے ہیں۔ اداسی کی فصل بو جاتے ہیں اور اگر حالات اسی قدر مایوس کن رہے تو غم کی رین اور دکھوں کی فصل کاٹنا پڑتی ہے یہ تو انسان کے ذاتی حالات اور قسمت کے فیصلوں پر منحصر ہے۔ لیکن ہم بات کر رہے ہیں موجودہ دور کی جہاں سروں کی فصلیں بوئی جاتی اور کاٹی جاتی ہیں اور یہ روز کا معمول بن گیا ہے مٹی اس قدر نم ہوچکی ہے کہ کسی قسم کا اسلحہ اور ہتھیار بو دیں تو ہر شاخ پر اوزاروں اور ہتھیاروں کے بے شمار پھول کھل جائیں گے۔

ہمارے معاشرے میں ہر بات اور ہر کام خلاف توقع ہورہا ہے کوئی یہ بات سوچ نہیں سکتا کہ اچھا بھلا شریف النفس شخص بالکل اچانک موت کے آہنی شکنجے میں اس طرح جکڑا جائے گا کہ اس کے خون سے زمین سرخ ہوجائے گی۔

تقریباً ڈیڑھ دو سال پرانی بات ہے کہ جب ہم نے اپنے کالج کی طرف سے عملی و ادبی محفل میں شرکت کی اور انعامی مقابلے میں شرکت کے لیے اپنے کالج سے فرسٹ ایئر، سیکنڈ ایئر کی طالبات کے ساتھ اسپارکو پہنچے، بچیاں کامیاب تو نہیں ہوسکیں لیکن مقابلہ دل ناتواں نے خوب کیا۔ تقریب کا اختتام ہوا اور ہم گھر پہنچے اچانک ایک پروفیسر صاحب کا فون (نام مجھے یاد نہیں رہا) آگیا۔ بولے کل آپ آئیں تھیں اور ہم نے آپ کو اسٹیج پر نہیں بلایا ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہے۔کوئی بات نہیں، آپ نے یہ کہہ کر ہماری عزت افزائی کی اس کے لیے بے حد شکریہ۔ وہ دوبارہ گویا ہوئے، کل ہماری بزم علم و ادب کی محفل میں آپ مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کریں گی اور آپ کا آنا لازمی ہے۔ ہم نے کہا کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے دن ہم عالموں و دانشوروں کی محفل میں جانے سے قاصر رہے اس کی وجہ کہ ہمیں اچھا نہ لگا کہ ’’مہمان خصوصی‘‘ بننے کے لالچ میں دوڑ لگادیں۔

چند ماہ یا چند ہفتوں بعد ہی پروفیسر صاحب انتقال فرما گئے انھیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ہمیں بے حد افسوس ہوا ہم کسے پرسہ دیتے لہٰذا ہم نے پروفیسر اظفر رضوی کو فون کیا کہ علمی بحث و مباحثے کی محفلیں ان دونوں کے ہی دم سے تھیں۔ فون پر ان سے گفتگو ہوئی، انھوں  نے مرحوم کی بے حد تعریف کی اور دیر تک گفتگو کرتے رہے ہم نے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی مثبت سوچ، اعلیٰ فکر اور قوم کی خدمت کے حوالے سے بے حد تعریف کی، کہ کوئی تو اس قوم سے اٹھا، جس نے اسکول و کالج کے بچوں کے ہاتھوں میں قلم تھمادیا ان کے ذہنوں کو جلابخشی، انھیں سوچنے، غوروفکر کرنے اور علم کی نئی جوت جلانے کے مواقع فراہم کیے ان سے ہماری باقاعدہ یہ پہلی تفصیلی بات تھی پھر انھیں انجمن ترقی اردو کا نائب معتمد بنا دیا گیا اور وہ اردو کی خدمت دل و جان سے کرنے لگے قلمکاروں کو لکھنے کے مواقعے فراہم کیے ان کی کتابیں شایع کیں۔ ان کی آمد نے ہر شخص کو خوشی بہم پہنچائی تھی ان کے آنے کے بعد ادبی تقریبات کے مواقعوں پر حاضرین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا نیز یہ کہ یونیورسٹی کے طلبا بھی شرکت کیا کرتے تھے۔

یہ بھی محض ایک اتفاق ہی ہے کہ جس سیٹ پر ڈاکٹر اسلم فرخی براجمان رہے اور پھر ان کے بعد جناب امراؤ طارق آگئے طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا ان کے چلے جانے کے بعد حسن ظہیر آئے ان کا بھی ہارٹ فیل ہوا اور بالکل اچانک ہی وہ سب کو حیران کرگئے ان کی سیٹ خالی ہوگئی اور یہ سیٹ سید اظفر رضوی کے حصے میں آئی۔وہ ہر سال پابندی کے ساتھ اپنے گھر پر دعوت حلیم کے سلسلے میں سب کو مدعو کیا کرتے تھے، ہم نے کئی بار سوچا کہ اس دفعہ ضرور جائیں گے، لیکن ہم ایک بار بھی ان کی دعوت میں شریک نہ ہوسکے جس کا ہمیں قطعی افسوس نہیں۔ افسوس ہے تو ان سانحات و حادثات کا جو اچانک رونما ہوجاتے ہیں۔

آرٹس کونسل میں وہ خزانچی کے عہدے پر بھی فائز رہے انتخابات کے نشیب و فراز سے بھی گزرے۔ ڈھاکا کوچنگ سینٹر کے بانی و منتظم تھے۔ ہزاروں طلبا اس ادارے سے مستفید ہوئے۔ سب سے بڑا کارنامہ انھوں نے یہ انجام دیا کہ کئی سال سے باقاعدگی کے ساتھ بحث و مباحثہ، تقاریر وتحریروں کے حوالے سے بڑے منظم اور کامیاب پروگراموں کا انعقاد کیا۔ اس طرح کی سوچ و فکر رکھنے والے بہت کم لوگ رہ گئے ہیں۔اظفر رضوی کا تعلق ایسے خاندان سے تھا جو علم و ادب کے شیدائی تھے اور ادب کی خدمت کرنے میں پیش پیش رہتے ان کے نانا علامہ تمنا عمادی کا شمار بھی اہل قلم میں ہوتا ہے، اظفر رضوی کی حال ہی میں کتاب ’’میرے عالی جی‘‘ کے عنوان سے شایع ہوچکی ہے ابھی اس کی تقریب رونمائی ہونا باقی تھی کہ صاحب کتاب کو اجل نے مہلت ہی نہ دی۔ ’’دائرہ ادب و ثقافت ‘‘ کے روح رواں تھے، اس ادبی تنظیم کے تحت شعراء وادباء کی کتابوں کی تقریب رونمائی ہوا کرتی تھی۔ مختلف اخبار ورسائل میں ان کے مضامین چھپا کرتے تھے۔

اظفر رضوی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے، فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے، انجمن کے لیے بہت کام کیا اس کی بہتری کے لیے وقت اور پیسہ دونوں ہی اہم چیزوں کا استعمال بھی بے دریغ کیا۔

اظفر رضوی 31 مئی بروز جمعہ کو اس دنیائے آب و گل سے رخصت ہوئے۔ ان کی کار پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں خود بھی جاں بحق ہوئے اور ان کے ڈرائیور عبدالغفار نے بھی سوئے عدم سفر اختیار کیا وہ بھی زخموں کی تاب نہ لاسکے۔ اظفر رضوی کا نواسا جو غالباً 8 سال کا تھا وہ معجزانہ طور پر زندہ سلامت رہا اللہ اسے درازی عمر عطا فرمائے۔ جب مقتل کا در کھلا ہوگا اس ننھے معصوم بچے کے دل پر کیا گزری ہوگی ہوسکتا ہے وہ خونی منظر کو دیکھ کر بے ہوش ہی ہوگیا ہو، ویسے بھی نواسے نواسیاں نانا، نانی سے بے حد قریب ہوتے ہیں اس نے اپنے نانا پر گولیوں کی بوچھاڑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اب وہ یہ منظر زندگی بھر نہیں بھول سکے گا۔

اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں اچھے کام کرنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے لیکن مخلوق خدا کی خدمت کرنے والوں کی کمی نہیں۔ وہ موت سے نہیں ڈرتے ہیں موت ان سے ڈرتی ہے۔ اور فلاحی کام کرنے والے اپنا کام بے دھڑک کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ زندگی تو ہے ہی جانے والی چیز وہ کبھی وفا نہیں کرے گی تو بھلا ایسے کام کیوں نہ کیے جائیں جن کے کرنے سے ربّ راضی رہے اور دکھی انسانیت کی خدمت ہوتی رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔