طوطی کو نقار خانے میں بولنے کی ضرورت کیا ہے ؟

سعد اللہ جان برق  بدھ 17 اکتوبر 2018
barq@email.com

[email protected]

عام طور پر کہا جاتا ہے اور سنا بھی جاتا ہے، آپ نے بھی سنا ہوگا، ہم نے تو بہت سنا ہے بلکہ اخباروں میں دیکھ اور پڑھ بھی رہے ہیں کہ نقار خانے میں ’’طوطی‘‘ کی آواز کون سنتا ہے۔

چلیے طوطی کی جگہ ’’طوطا‘‘ کر دیجیے لیکن پھر تذکیر و تانیث  تو درست ہو جائے گا مگر آواز پر تو پھر بھی کچھ امکان سننے کا ہو سکتا ہے کیونکہ ’’مرد‘‘ بڑا دیالو ہے، خواتین کی آواز ہر گز ان سنی نہیں کرتا، بشرطیکہ وہ اپنی بیوی کی آواز نہ ہو۔ بہر حال طوطا ہو یا طوطی آواز کے معاملے میں تو زیادہ سے زیادہ انیس بیس کا فرق ہوگا جو’’نقار خانے‘‘ میں یقینًا سنائی نہیں دے سکتی۔

بظاہر تو یہاں ’’نقار خانے‘‘ کی برائی مقصود ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آخر طوطا طوطی کو کس ڈاکٹر نے مشورہ دیا ہے کہ تم جا کر نقارخانے میں بولو، جہاں بڑے بڑے نقارے دھما دھم بج رہے ہیں،کٹر کٹر کا کڑ ڈھول بج رہے ہیں اور اتنا شور ہے کہ نقار خانے میں تو خود نقارہ بجانے والا بھی اپنی آواز نہیں سن رہا ہے تو طوطی کو مٹھی بھر ہو کر اور اتنی سی چونچ لے کر بیچ میں قیں قیں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

اس کی ماں کی شادی ہے یا باپ کی منگنی ہے یا دادا کا ولیمہ ہے جو نقار خانے میں گھس کر اورنقار خانوں میں دکھائی تک نہ دینے کے باوجود اپنی آواز نکالے۔ آیا یہ طوطا طوطی وہ مجاہد ہے جو ’’جابر‘‘ نقاروں کے آگے آواز حق بلند کرتا ہے۔

اور آج ہم اس مسٔلے پر غور کر رہے ہیں کہ آخر طوطا طوطی کو ایسی کیا مجبوری لاحق ہو گئی ہے کہ اتنی بڑی ساری دنیا، اتنے بڑے درختوں اور جنگلوں میدانوں کو چھوڑ کر نقار خانے میں جا گھسے اور خوا مخوا اپنی انرجی برباد کر ے بلکہ اکثر طوطے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ خود اس کی اپنی ’’طوطی‘‘ بھی اس کی کبھی نہیں سنتی اور دوسرے طوطوں کے ساتھ نین مٹکا کرتی ہے، تو نقار خانے میں اس کی کون سنے گا۔

یہ بات آپ کو شاید معمولی لگے لیکن ہمیں بڑی اہم لگتی ہے بلکہ اگر ہماری چلے۔ لیکن نہی چلے گی کیونکہ ہم خود بھی تو طوطے ہیں اور سارا ملک نقار خانہ بنا ہوا ہے لیکن بہر حال اگر ہمارا بس چلے تو ہم اس طوطے کا احتساب کرنے کی سفارش کریں گے کہ تمہیں آخر نقار خانے میں بولنے کا اتنا شوق کیوں ہے بلکہ اگر ہمارا بس چلے تو اس کی آواز پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دیں یا کم از کم نقار خانے میں بولنے پر تو سخت پابندی لگائیں۔

وہ ایک بلی تھی جس نے دو چڑیوں کو باہم لڑتے ہوئے دیکھا تو جاکر دونوں کو ایک ایک کرکے کھا گئی اور پھر مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے بولی کہ وہ تو اچھا ہے کہ میں موجود تھی ورنہ یہ دونوں تو لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو لہو لہان کر دیتیں۔ یہ بات ایک مینڈک نے سنی تو بلی کی امن پسندی سے متاثر ہو کر اس نے بھی تہیہ کر لیا کہ میں بھی آیندہ کسی کو لڑنے نہیں دوں گا۔

اتفاق سے کچھ آگے چل کر اس نے دیکھا کہ دو سانڈ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ یہ فوراً کود کر دونوں کے درمیان ہو کر امن کا جھنڈا بن گیا لیکن سانڈ دونوں زور میں ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے تھے، اتنا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ دونوں سانڈوں کے سروں اور سینگوں کے درمیان آگیا لیکن بعد میں کسی نے کچھ بھی نہیں دیکھا بلکہ خود مینڈک کو اپنی خبر نہیں آئی کیونکہ وہ آدھا ایک سانڈ کی کھوپڑی سے چپکا ہوا تھا او آدھا دوسرے کے سینگ سے۔

طوطا یا طوطی اس لیے تھوڑے سے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ نقاروں کی صرف آواز ہوتی ہے سینگ نہیں ہوتے ورنہ اسے دوسرے طوطوں کو نقاروں سے دور رہنے کی نصیحت کا موقع بھی نہ ملتا۔ ویسے ہمیں اس پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم بھی طوطے تو ہیں لیکن نقار خانوں میں جاکر بولنے کا شوق بالکل نہیں رکھتے ورنہ ہمارے پاس بھی کہنے کے لیے بہت کچھ ہے بلکہ پورے کے پورے پلان ہیں جو اس قوم کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے بہت ہی بہتر ہیں،مثلاً ہمارے پاس کرپشن کو ختم کرنے کا ایک مکمل اور تیر بہدف علاج موجود ہے جس کے ذریعے راتوں رات کرپشن کا نام و نشان مٹایا جا سکتا ہے اور یہ بڑا ہی آسان نسخہ ہے۔

اس کے لیے آئی ایم ایف کے ’’عطار ‘‘کے پاس جانا پڑے گا اور نہ ہی ممبران پارلیمنٹ اور وزیروں کو ڈسٹرب کرنا پڑے گا، بس اتنا سا اعلان کرنا ہے کہ کرپشن کو آیندہ کے لیے ’’مراعات‘‘ کہا جائے گا بس۔ دوسرے دن آپ دیکھیں کہ کرپشن رہی نہ کرپشن کی ذات ہر طرف مراعات ہی مراعات۔ پیٹ صاف ہر روز صاف۔

وحشتؔ و شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید

مر گیا غالبؔ آشفتہ نو ا کہتے ہیں

ویسے یہ طوطے یا طوطی جو نقار خانے میں بولنے کی کوشش کرتے ہیں ہمیں کچھ زیادہ اچھی نسل کے طوطے بالکل بھی نہیں لگتے کیونکہ اچھی نسل کے طوطے تو بولے بغیر بہت کچھ کر جاتے ہیں، صرف اپنی طوطا چشمی ہی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہے۔

کہتے ہیں ،کسی شخص نے ایک طوطا پکڑ کر پال لیا اور بہت عرصے تک پنجرے میں رکھا۔ ایک دن و ہ شخص پھر اس جنگل کے راستے کسی جگہ جانے لگا جہاں سے اس نے وہ طوطا پکڑا تھا۔ جاتے جاتے اس نے طوطے سے کہا کہ میں اس علاقے سے گزروں گا اگر کوئی پیغام تم اپنے عزیزوں کو دینا چاہتے ہو تو مجھے کہو،  پہنچا دوں گا۔ طوطے نے کہا، میرے عزیزوں سے کہنا کہ تمہارا وہ عزیز بھائی تمہیں بہت یا د کرتا ہے۔

اس شخص نے طوطوں کے علاقے میں پہنچ کر جب بہت سارے طوے دیکھے تو بولا کہ تمہارا ایک عزیز میں نے پنجرے میں پالا ہوا ہے، اس نے تم لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ تمہارا عزیز تم آزاد طوطوں کو بہت یاد کرتا ہے۔ یہ سن کر وہ سارے طوطے پھڑ پھڑ کر درختوں سے گرنے لگے اور ایک ہی لمحے میں سارے مر گئے، بے حس وحرکت ہو گئے۔

وہ آدمی بہت ہی حیران و پریشان تھا کہ آخر اس پیغام میں ایسا کیا تھا کہ وہاں بھی سارے طوطے مر گئے اور یہاں یہ بھی مر گیا ۔کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو اس نے پنجرے سے طوطے کی لاش نکالی اور ایک طرف پھینک دی۔ طوطا فوراً زندہ ہو کرایک اونچے درخت پر بیٹھ گیا اور مالک سے کہا، خدا حافظ۔ مالک نے کہا مگر مجھے یہ راز تو بتا دو کہ اس پیغام میں کیا تھا۔ طوطے نے کہا،  میرے پیغام میں تو اپنی اسیری کا رونا تھا اور میرے عزیز یہ سن کر مجھے خلاصی کا طریقہ سمجھا گئے جو میں سمجھ گیا اور آزاد ہو گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔