50 لاکھ مکان، ایک کروڑ روزگار؟

ظہیر اختر بیدری  پير 22 اکتوبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی دو بڑے عوامی مسائل حل کرنے کا اعلان کیا ہے، ان میں سے ایک مسئلہ عوام کو رہائشی سہولتوں سے متعلق ہے اور دوسرا عوام کو روزگار کی فراہمی سے متعلق ہے۔ بلاشبہ دونوں مسئلوں کا شمار عوام کے بنیادی مسئلوں میں ہوتا ہے اور عمران خان ان دو اہم مسائل کو حل کرنے کے خواہش مند ہیں تو ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنا چاہیے، لیکن یہ دو بڑے مسئلے جذباتی خواہشوں سے حل ہونے والے نہیں، ان دو مسائل کے حل میں سب سے بڑا مسئلہ مطلوبہ بجٹ کا ہے، بد قسمتی سے ماضی کی حکومت نے اتنا قرض چھوڑا ہے کہ عمران کے پانچ سال اس قرض کی ادائیگی ہی میں گزر سکتے ہیں۔

اگر کسی حوالے سے 50 لاکھ مکانوں کی تعمیر کے لیے کوئی ابتدائی بجٹ فراہم ہوجاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس قدر بڑے پروجیکٹ کی موثر منصوبہ بندی کی گئی ہے، متعلقہ شعبے کے ماہرین سے اس حوالے سے تفصیلی مشاورت کی گئی ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب حاصل کیے بغیر اس منصوبے پر عمل در آمد ایک بچگانہ کوشش ہی ہوگی۔ ہمارا خیال ہے کہ پسماندہ ملکوں کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس کے حکمران نے بغیر تیاری کے اتنی بڑے پروجیکٹ کا اعلان کیا ہو۔

ہمارے ملک میں لاکھوں بیروزگار ہیں جو روزگار کے حصول کے لیے برسوں سے جوتیاں چٹخار رہے ہیں، عوام کو روزگار فراہم کرنا حکمرانوں کی ذمے داری ہے لیکن 71 سال سے جو اشرافیہ برسر اقتدار رہی ہے اس کے ایجنڈے میں اول تو یہ دونوں مسائل شامل ہی نہیں رہے ہوں گے۔ اگر رہے ہوںگے تو محض خانہ پری کے لیے رہے ہوںگے۔ کراچی کی ایک بستی کورنگی میں ہزاروں کوارٹر بنائے گئے لیکن وہ بھی ایک فوجی آمر کے دور میں بنائے گئے کسی جمہوری حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس نے  ایسے بنیادی عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوئی اقدام کیا ہو۔71 سال سے اشرافیہ کا ایک ہی کام رہا ہے کہ تم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کی جائے، خواہ وہ کسی طریقے سے جمع کی جائے۔

عمران خان نے عوام کے رہائشی اور روزگار کے مسئلوں کے حوالے سے جو اعلانات کیے ہیں ان میں ان کی نیت پر تو کوئی شک نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کے عملی پہلوؤں پر غور کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک نیک نیت عوام دوست حکمران کی جذباتی خواہش ہے جس پر عمل درآمد ممکنات میں سے نہیں۔ عمران خان کے سیاسی دشمنوں کو عمران خان پر تنقید کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم ہوا ہے۔ کینسر کے شوکت خانم اسپتال کی تعمیر بھی ایک بڑا کام اور فرد واحد کی کوششوں سے ماورا تھا لیکن عمران خان نے اپنے پختہ عزم اور پکی دُھن کے ساتھ یہ بڑا کام اکیلے انجام دیا آج ہزاروں لوگ اس اسپتال سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔

رہائش اور بیروزگاری یقیناً یہ دونوں اہم قومی مسائل ہیں اور ان پر عمل درآمد میں ایک طویل عرصہ درکار ہوگا۔ حکومت کے سامنے مسائل کا انبار ہے، حکومت ان ہی دو مسئلوں پر اپنی ساری توجہ مبذول کر سکتی ہے نہ پانچ سال تک ان دو مسئلوں کے گرد ہی گھوم سکتی ہے، لہٰذا ہونا یہ چاہیے کہ ایک جامع منصوبہ بندی اور دستیاب وسائل کے ساتھ متعلقہ وزارتوں کے حوالے کردیا جائے اور نگرانی کا عمل جاری رہے۔ اس طرح یہ دونوں پروگرام دستیاب وسائل کے ساتھ جاری رہیںگے۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت کے سامنے قومی مسائل کا ایک ہجوم ہے جن میں سے حکومت کو ترجیحات کا تعین کرنا ہے یہ ایک انتہائی اہم کام ہے، اس کے لیے متعلقہ شعبوں کے ماہرین کے ساتھ ساتھ معاشی ماہرین اور دانشوروں سے مشاورت کی ضرورت ہوگی۔ اس ابتدایئے کے بغیر کام شروع کردیاگیا تو مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

یہ مشورہ ہمیں اس لیے دینا پڑ رہا ہے کہ عمران خان عوامی مسائل کے حوالے سے تیز ترین رفتار کے خواہش مند ہیں جس کا مشاہدہ 50 لاکھ مکانات اور ایک کروڑ بیروزگاروں کو روزگار کی فراہمی میں جلد بازی سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ اس جلد بازی میں عمران خان کی نیک نیتی کے ساتھ عوام کے مسائل جلد سے جلد حل کنے کی خواہش کار فرما ہے لیکن بڑے کاموں میں بڑی مشاورت یعنی ماہرانہ مشاورت کے ساتھ ساتھ وسائل کے دستیابی بھی ایک بڑی شرط ہوتی ہے ورنہ متعلقہ مشکلات کے ساتھ ساتھ مشتعل اور مایوس اپوزیشن کی غیر معمولی تنقید کا سامنا کرنا ہوگا۔

اس لیے ان دو مسائل کو متعلقہ وزارتوں پر چھوڑ کر ملک و قوم کے ایسے مسائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو اپنی نوعیت کے حوالے سے ملک کے اہم ترین مسائل میں شامل ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کر ہی نہیں سکتی۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپن ملک کے تعلیمی حالات زار پر غور کریں تو ایک بھیانک تصویر سامنے آتی ہے، ہماری آبادی کا ساٹھ فی صد سے زیادہ حصہ دیہات اور گوٹھوں میں رہتا ہے جہاں وڈیرہ شاہی کا راج ہے اور وہ کسی قیمت پر دیہی عوام کو تعلیم یافتہ نہیں دیکھنا چاہتی کیونکہ تعلیم یافتہ دیہی آبادی وڈیرہ شاہی کی موت ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھ کر شہری آبادیوں کے سرکاری اسکول بچوں کو تعلیم نہیں دے رہے بکہ بری عادتوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ایک ایسا جامع پروگرام بنانے کی ضرورت ہے جو عمران خان کی خواہش کے مطابق یکساں تعلیم پر مشتمل ہو۔

اس حوالے سے دوسرا تکلیف دہ مسئلہ مہنگائی ہے، ایک مہنگائی، سرمایہ دارانہ نظام کی دی ہوئی ہے جس کا خاتمہ آسان نہیں ایک مہنگائی ہماری تاجر برادری کی ہے جس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ سخت قوانین پر بلدیاتی اداروں کے ذریعے مصنوعی مہنگائی کے خلاف منظم کارروائی کی جائے تو اس مصنوعی مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ کہ اس پروگرام پر عمل در آمد کرنے والے کرپشن میں مبتلا نہ ہوں اور اس حوالے سے کرپشن کے مرتکبین کو سخت سے سخت سزائیں تجویز کی جائیں اور ان پر عمل در آمد کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔