انوکھی عید

روبینہ ناز  جمعـء 17 اگست 2012
دوستوں نے یہ عید انوکھے انداز میں منائی۔ فوٹو : ایکسپریس

دوستوں نے یہ عید انوکھے انداز میں منائی۔ فوٹو : ایکسپریس

کراچی:  اکبر، اسلم، فہد اور سلیم، چاروں دوست بے حد نرم دل اور ہم درد تھے۔ وہ جب بھی کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو فوراً اس کی مدد کرتے۔ ان کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر کچی آبادی تھی جہاں کے رہنے والوں کا گزربسر بڑی مشکل سے ہوتا تھا۔ ان کے بچے بھی تعلیم سے محروم تھے۔ اسی بستی میں ایک لڑکا فرید رہتا تھا۔ اُسے پڑھنے کا بے حد شوق تھا لیکن غربت کی وجہ سے نہ پڑھ سکا۔ اب وہ محنت مزوری کرکے اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹاتا تھا۔

اکبر نے ایک دن فرید سے کہا کہ اگر تم چاہو تو ہم چاروں دوست تعلیم حاصل کرنے میں اس طرح تمہاری مدد کرسکتے ہیںکہ جو کچھ ہم اسکول میں پڑھیں گے، وہ آکر تمہیں پڑھا دیا کریں گے۔ اور کتابوں کی فکر نہ کرو، وہ ہم دلا دیںگے۔ اس طرح فرید کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یوں فرید بھی پڑھنے کے ساتھ ان کے گروپ میں شامل ہوگیا۔ وہ ان کے ساتھ مل کر دوسروں کی مدد کرتا۔

ایک دن فرید نے اکبر اور سلیم سے کہا کہ میں اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہمارے گھر سے غربت کا ڈیرا ختم ہوسکے۔ انہوں نے کہا، ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر یہ سوچ لوکہ تمہیں کرنا کیا ہے۔
رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوگیا۔ مصروفیت بڑھنے کی وجہ سے ان دوستوں کی ملاقات نماز یا تراویح ہی میں ہوتی۔ آج تیسرا دن تھا کہ ان کی ملاقات فرید سے نہیں ہوئی۔ تراویح کے بعد فہد نے سلیم سے کہا، نہ جانے کیا بات ہے فرید نماز اور تراویح کے لیے مسجد نہیں آرہا۔ میرا خیال ہے کہ آج ہم اس کے گھر جاکر معلوم کریں۔

فہد اور سلیم کے خیال سے اکبر اور اسلم نے بھی اتفاق کیا۔ دوسرے دن چاروں فرید کے گھرگئے۔ فرید گھر میں نہ تھا، وہ اس کا انتظار کرنے لگے۔ جب زیادہ دیر ہوگئی تو انہوں نے اجازت چاہی۔
دوسرے دن فرید ملا تو اس نے بتایا کہ چھوٹے بہن بھائی عید کے لیے نئے کپڑوں کی ضد کر رہے ہیں۔ مَیں نے ایک دُکان پر تین ہزار روپے کی نوکری کرلی ہے اس لیے تم لوگوں سے ملاقات نہ ہوسکی۔

رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوچکا تھا۔ عید کی تیاریاں بھی زوروں پر تھیں۔ آج کی ملاقات میں سب نے ایک دوسرے کو اپنے عید کے کپڑوں اور دیگر چیزوں کے بارے میں بتایا۔ اس دوران فرید خاموش بیٹھا رہا۔ سلیم نے اس سے پوچھا، تمہارے کپڑے بن گئے؟ وہ کچھ نہ بولا، جب سب نے اصرار کیا تو اس نے کہا، میری جیب سے کسی نے پیسے نکال لیے۔ یہ سن کر سب سناٹے میں آگئے۔ جب فرید چلا گیا تو فہد نے کہا، ہماری عید کا کیا فائدہ جب دوست کی ایسی حالت ہو۔ اکبر بولا، ہمیں فرید اور اس کے گھر والوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔

چاروں نے باہمی مشورے سے ایک فیصلہ کیا اور اپنے اپنے گھر جاکر والدین سے فرید کے بارے میں بات کی اور کہا کہ آپ ہمارے دوست کی مدد کریں تاکہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں ہمارے ساتھ شامل ہوسکے۔ ان کی مدد سے چاروں نے فرید اور اس کے گھر والوں کے لیے کپڑے، جوتے اور نقد رقم کا بندوبست کیا۔ پھر جیسے ہی عید کے چاند کا اعلان ہوا، وہ سب جمع ہوکر فرید کے گھر گئے۔

فرید انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بتایا کہ میرے ماموں نے ہم سب کو عید پر نئے کپڑے بناکردیے ہیں۔ جب ان دوستوں نے کپڑے اور جوتے اسے دینے چاہے تو اس نے کہا، کیا ہی بہتر ہوکہ یہ کپڑے اور پیسے ان غریبوں کو دے دیے جائیں جن کے والدین ان کے لیے کپڑے نہیں بناسکے۔ اس بستی میں ایسے کئی گھر ہیں جنہیں ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ فرید نے ان کے ساتھ جاکر وہ کپڑے اور پیسے کچھ اور غریبوں کو دے دیے جسے پاکر ان کے چہرے خوشی سے دَمکنے لگے۔

اس طرح ان دوستوں نے یہ عید انوکھے انداز میں منائی۔ انہیں جو روحانی خوشی حاصل ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔