سموگ عالمی مسئلہ ہے۔۔۔۔۔ ؛ بھارت کی طرف سے اقدامات کیے بغیرخطے کوسموگ فری بنانا مشکل ہے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 5 نومبر 2018

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

فضا میں موجود دھواں، زہریلی گیسوں، گرد وغبار اورنمی کے ملنے سے ایک موٹی تہہ بن جاتی ہے جسے ’’سموگ‘‘ کہتے ہیں۔

اسموگ زہریلی ہوتی ہے اورانسانی صحت کے لیے نقصاندہ بھی ہے۔ سموگ کے بننے میں موسمیاتی تبدیلیاں بھی ایک وجہ ہیں مگر اس سے بڑی وجہ زمین پر انسانوں کی ماحول دشمن سرگرمیاں ہیں جن میں فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسیں، کھیتوں میں لگائی جانے والی آگ، دھواں چھوڑتی گاڑیاں ، اینٹوں کے بھٹوں سے پھیلنے والی آلودگی، گلی محلوں میں کوڑا کرکٹ اور تعمیراتی کاموں میں ماحول کو مد نظر نہ رکھنا شامل ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے موسم سرمامیں ’’سموگ‘‘ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

جس کا خاتمہ یقینا ایک بڑا چیلنج ہے۔ سموگ کی روک تھام کے لیے دھواں پھیلانے والے کارخانوں اور بھٹوں کو حکومت کی جانب سے کسی بھی صورت کام کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی تاہم جن کارخانوں اور فیکٹریوں میں دھواں کنٹرول والے آلات نصب ہیں صرف انہیں  کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسی طرح جن بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جا چکا ہے ان کے لیے بھی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ سموگ کی ایک بڑی وجہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بے شمار اینٹوں کے بھٹے، آلودگی پھیلانے والے کارخانے اور فصلوں کی باقیات کو جلانے جیسے عوامل ہیں۔

گزشتہ برسوں میں بھی بھارت سے آنے والے دھوئیں کے باعث پاکستان میں سموگ میں اضافہ ہوا اور بے شمار شہری بیماریوں کا شکار ہوئے۔ ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’سموگ اور اس سے بچاؤ‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و سول سوسائٹی کے نمائندوں اور ماہرین طب کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 نسیم الرحمن شاہ
( فوکل پرسن برائے سموگ، محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب)

سموگ کی بنیادی وجوہات میں گاڑیوں، اینٹوںکے بھٹوں، فیکٹریوں اور دھان کی فصل کی باقیات کو جلانے کی وجہ سے اٹھنے والا دھواں، صفائی ستھرائی کے انتظامات کا فقدان، تعمیراتی کاموں میں گرد وغبار کنٹرول کرنے کے اقدامات کا نہ ہونا شامل ہیں۔ ان تمام عوامل سے پیدا ہونے والی آلودگی، دھواں، مٹی کے ذرات وغیرہ کو سائنسی زبان میں ’’ پارٹیکولیٹ میٹر‘‘ کہتے ہیں جس کی فضا میں معیاری مقدار 2.5 ہے۔ اگر یہ مقدار بڑھ جائے تو آلودہ ذرات  سموگ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔خصوصاََ اکتوبر سے جنوری تک سردیوں کے مہینوں میں درجہ حرارت کم ہوتا ہے اور دھند بننا شروع ہو جاتی ہے جس کے باعث آلودگی، دھواں اور گرد تحلیل ہونے کے بجائے دھند میں شامل ہوکر سموگ بن جاتے ہیں جو ہمارے لیے نقصان دہ ہیں۔

سموگ جیسے بڑے چیلنج سے نمٹنے کیلئے رواں برس حکومت نے بہت سارے پیشگی اقدامات کیے ہیں ۔حکومت کی جانب سے فیکٹری مالکان اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو ہدایات جاری کی گئیں کہ فیکٹریوں میں دھواں کنٹرول کرنے والے آلات فوری نصب کیے جائیں۔ اس ضمن میں ہمیں کچھ حد تک کامیابی ہوئی ہے۔

یہ خوش آئند ہے کہ بیشتر فیکٹری مالکان نے ڈرائی سکربر، بیگ فلٹر و دیگر آلات نصب کیے ہیں تاہم ابھی بھی بہت ساری فیکٹریوں میں کام باقی ہے جسے یقینی بنانے کیلئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو فیکٹریوں کی چیکنگ کررہی ہیں اور پھر قانون کے مطابق کارروائی بھی عمل میں لائی جارہی ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں سے آلودگی کا معاملہ کافی پیچیدہ تھا۔  ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ محکمے نے بھٹہ ایسوسی ایشن کے ساتھ بات چیت کرکے بھٹوں کیلئے ماحول دوست Zigzag ٹیکنالوجی متعارف کروائی ۔ اہم بات یہ ہے کہ پہلے سے موجود بھٹوں کو ہی اس ٹیکنالوجی پر منتقل کردیا گیا ہے۔

جس سے بھٹہ مالکان خوش ہیں اور انہیں اس ٹیکنالوجی سے فائدہ بھی حاصل ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے نہ صرف ایندھن میں 30 فیصد بچت ہوتی ہے بلکہ پکائی بہتر اور اچھے معیار کی اینٹ تیار ہوتی ہے جو بھٹہ مالکان کا فائدہ ہے جبکہ معاشرے کو فائدہ یہ ہے کہ بھٹوں سے ہونے والی آلودگی میں 70 فیصد کمی آتی ہے۔ لاہور میں اس وقت 35 سے 40 بھٹے اس ٹیکنالوجی پر منتقل ہوچکے ہیں جو اچھا اقدام ہے۔ ہم نے چند ماہ قبل ہی سب کو وارننگ جاری کردی تھی کہ جو بھٹے اس ٹیکنالوجی پر منتقل ہوںگے وہی 12 مہینے چلیں گے جبکہ پرانے بھٹوں اور زیادہ دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں کو سموگ کے مہینوں میں چلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اسی طرح محکمہ زراعت اور ضلعی انتظامیہ کو بھی ایسے کسانوں کے خلاف ایکشن لینے کی ہدایت کی گئی ہے جو فصلوں کی باقیات کو جلاتے ہیں۔ سموگ کی ایک وجہ ٹریفک بھی ہے۔ ٹریفک بلاک ہونے اور گاڑیوں کے زیادہ دھواں چھوڑنے کی وجہ سے سموگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹریفک پولیس کو سموگ کے مہینوں میں خصوصی پلان تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ ٹریفک کے بہاؤ کو یقینی بناکر اور آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کرکے ماحول کو صاف کیا جاسکے۔

سموگ کی وجہ سے لوگوں کو مختلف بیماریاں لاحق ہوتی ہیںاور ان مہینوں میں ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے لہٰذا اس حوالے سے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو ہسپتالوں میں ہیلتھ ڈیسک بنانے کا کہا گیا ہے جبکہ دیگر محکموں کو بھی سموگ پر قابو پانے کیلئے اپنا اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ سموگ صرف ہمارا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ یہ اس خطے کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم سموگ پر قابو پانے کے سارے انتظامات کر بھی لیں تو تب بھی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ سموگ ختم ہوجائے گی کیونکہ بھارت اس کی روک تھام کے لیے اقدامات نہیں کررہا۔

بھارت میں سموگ کا مسئلہ زیادہ ہے جس کی وجہ سے ہم بھی متاثر ہوتے ہیں لہٰذا پورے خطے سے سموگ کے خاتمے کیلئے بھارت کو بھی کام کرنا ہوگا بصورت دیگر ماحول آلودہ رہے گا، لوگ بیماریوں کا شکار ہوں گے اور سب کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔خطے کو سموگ فری بنانے کیلئے حکومت نے بھارت سے وزارت خارجہ کی سطح پر رابطہ کرکے اسے سموگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کا کہا ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ دیگر چیلنجز کی طرح سموگ جیسے بڑے ماحولیاتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمسایہ ملک کو اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔

پروفیسرڈاکٹر غیاث النبی طیب
(معروف فزیشن)

فضامیں موجود مٹی ، دھواں اور پانی کے ذرات کے ملنے سے سموگ بنتی ہے۔ جب درجہ حرات 7 ڈگری سے 17 ڈگری کے درمیان ہو اور ہوا کی رفتار4 کلومیٹر سے کم ہو تو یہ تمام کثافتیں اکٹھی ہوجاتی ہیں ۔ چونکہ نومبر میں اور دسمبر کے ابتدائی ایام میں رات کو موسم سرد ہوتا ہے اور دھند پڑتی ہے لہٰذا یہ آلودہ ذرات فضا میں معلق ہوجاتے ہیں لیکن جیسے ہی دن کے اوقات میں سردی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے تو آہستہ آہستہ سموگ بھی کم ہوجاتی ہے۔ سموگ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

اس کا اثر آنکھوں، ناک، منہ، پھیپھڑوں اور جلد پر ہوتا ہے۔ آنکھوں میں جلن اور پانی بہنا، ناک میں کھجلی اور خشکی، بار بار چھینک کا آنا، چھاتی میں الرجی، گلے میں خراش وغیرہ سموگ سے متاثرہونے کی علامات ہیں۔ سموگ سے نمونیا بھی ہوسکتا ہے لہٰذا ان امراض سے بچاؤکے لیے احتیاطی تدابیر انتہائی ضروری ہیں۔ اہم یہ ہے کہ شہری بلاوجہ سفر کرنے سے گریز کریں۔ اگر باہر جانا ضروری ہو تو منہ پر ماسک پہنیں اور دن میں بار بار چہرہ صاف پانی سے دھوئیں‘ ایسا کرنے سے سموگ کے اثرات کم ہوجائیں گے۔سموگ سے متاثرہ مریض جنرل فزیشن کے پاس جاتے ہیں لہٰذا فزیشنز کو چاہیے کہ وہ ایسے مریضوں کو ’’اینٹی بائیوٹک‘‘ ادویات دینے کے بجائے ان کی ہائیڈریشن بہتر کرنے پر توجہ دیں۔ سموگ کی روک تھام کیلئے پیشگی اقدامات اہم ہیں، اگر ایک بار سموگ آجائے تو پھر اس کا کوئی حل نہیں ہے۔

فیکٹریوں کا دھواں اور فصلوں کی باقیات جلانے سے آلودگی پیدا ہوتی ہے، ان پر قابو پانا ہوگا۔ اس حوالے سے حکومت نے کافی کام کیا ہے اور ابھی مزید کام کیا جارہا ہے ۔میرے نزدیک سموگ کے خاتمے کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔عوام کو شعور دینے کیلئے آگاہی مہم چلائی جائے اور انہیں ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں اپنا کردار اداکرنے کی ترغیب دی جائے۔ درخت لگانے سے ماحول میں بہتری آتی ہے لیکن سموگ میں خاص فرق نہیں پڑے گا۔سموگ کے خاتمے کیلئے دیرپا اور موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ سموگ سے صرف ہم ہی نہیں بلکہ بھارت بھی متاثر ہورہا ہے لہٰذا حکومت کو ہمسایہ ملک کے ساتھ اس مسئلے پر بات چیت کرکے حل کی جانب بڑھنا ہوگا تاکہ اس خطے کو سموگ سے بچا جاسکے۔

محمد ریاض
(چیف میٹرولوجسٹ، پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ)

سموگ کا مسئلہ پہلے بھی ہوتا تھا مگر گزشتہ تین برسوں سے اس میںا ضافہ ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں فیکٹریوں  کا دھواں، فصلوں کی باقیات کو جلانے سے ہونے والی آلودگی، بھٹوں اور گاڑیوں کا دھواں، مٹی کے ذرات و دیگر شامل ہیں۔ فضا میں آلودگی ہو، بارش نہ ہواور ہوا نہ چلے تو سموگ بن جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ سموگ صرف سردی کے مہینوں میں بنے بلکہ اگر گرمیوں میں بھی فضا میں آلودگی ہو ،کچھ عرصے تک بارش نہ ہو اور ہوا نہ چلے تو سموگ بن جاتی ہے لیکن چونکہ وہ زمینی سطح سے کافی بلند ہوتی ہے۔

اس لیے محسوس نہیں ہوتا۔ سردیوں میں دھند بنتی ہے جس کی وجہ سے آلودہ ذرات زمینی سطح کے قریب آجاتے ہیں لہٰذا جب یہی موسم جمود کا شکار ہوتا ہے تو پھر سموگ بن جاتی ہے۔اکتوبر کے آغاز میں، کبھی درمیان اور کبھی آخر میں سموگ بنتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے بارشیں نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہیں۔ اگر 20 دن یا مہینہ بارش نہ ہو اور درجہ حرارت کم ہوتا جائے تو آلودہ ذرات سطح زمین کے قریب آنے لگتے ہیں اور پھر سموگ بن جاتی ہے جو سب کو محسوس ہوتی ہے اور اس سے نقصان بھی ہوتا ہے۔

حالیہ موسمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اکتوبر میں موسم ایک جیسا نہیں رہا۔ کبھی بادل بن جاتے تھے اور کبھی ہلکی بارش ہوئی جبکہ شمالی حصوں میں بارشیں ہوتی رہیں جس کی وجہ سے آلودہ ذرات فضا میں کم ہوئے، ہوائیں بھی چلیں اور موسم تبدیل ہوتا رہا۔ اب نومبر کے آغاز میں بھی یہی صورتحال ہے۔ شمالی حصوں میں موسم تبدیل ہورہا ہے جو سموگ کو کم کردیتا ہے لہٰذا اگر آنے والے دنوں میں موسم اسی طرح ہی رہا تو پھر سموگ کے امکانات کم ہوجائیں گے لیکن اگر موسمی تبدیلی رک گئی تو سموگ بن سکتی ہے۔ دھند کی وجہ سے بھی سموگ میں اضافہ ہوتا ہے اور صورتحال زیادہ خراب ہوتی ہے لہٰذا اگر مغرب سے ہوا چلتی رہی تو سموگ نہیں بنے گی۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سموگ زیادہ ہوتی ہے۔ مٹی، گاڑیوں کا دھواں اور صفائی ستھرائی کا نہ ہونا بھی اس کی وجوہات ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد ماحول کو گندا کرتے ہیں، پبلک مقامات، سڑکوں وگلی محلوں میں گندگی اور کوڑا کرکٹ پھینک دیتے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث ہے۔ سڑکوںپر دھول اڑتی ہے جو ماحول کو آلودہ کرر ہی ہے۔

اس کی بے شمار وجوہات ہیں جس میں شہریوں کے ساتھ ساتھ بعض محکموں کی کوتاہیاں بھی شامل ہیں۔ محکمانہ سطح پر دیکھیں تو حکومت اچھی سڑکیں اور ٹف ٹائلوں والے فٹ پاتھ بناتی ہے مگر افسوس ہے کہ تعمیر کے بعد بجلی، ٹیلیفون، سیوریج و دیگر کاموں کے لیے محکمے سڑکیں گھود دیتے ہیں اور بعد میں ان کی ٹھیک سے مرمت بھی نہیںکرتے جس کے باعث ماحول آلودہ ہوجاتا ہے۔ میرے نزدیک اس حوالے سے سخت پالیسی بنانی چاہیے کہ تمام محکمے اپنا کام کرنے کی پیشگی اجازت لیں اور کام کے اوقات اور مدت بتائیں اور جو کوئی مقررہ مدت میں کام مکمل نہ کرے اسے لاکھوں روپے کا بھاری جرمانہ کیا جائے۔ ایسے سخت اقدامات اٹھانے سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ممکن ہے، بصورت دیگر ماحول مزید آلودہ ہوتا جائے گا۔ ترقیاتی منصوبوں میںماحول کو لازمی مدنظر رکھا جاتا ہے۔

اس حوالے سے قانون موجود ہے اور ترقیاتی کام سے پہلے محکمہ ماحولیات سے ’’NOC ‘‘ لیا جاتا ہے تاہم اس پر کس حد تک عمل ہوتا ہے اس حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ گندے نالوں کی صفائی کے بعد کوڑا نالے کے باہر ہی لگا دیا جاتا ہے جس کا جلد سدباب نہیں کیا جاتا، اس سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے لہٰذا اس طرف توجہ دی جائے۔ شہری خود بھی ماحول کو گندہ کررہے ہیں ۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حکومت اکیلے آلودگی اور سموگ پر قابو نہیں پاسکتی بلکہ تمام اداروں اور شہریوں کو حکومت کے شانہ بشانہ کام کرنا ہوگا اور اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔اس حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی تک کے تعلیمی نصاب میں خصوصی مضامین شامل کیے جائیں۔

سموگ صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ  ہمسایہ ملک بھارت میں یہ مسئلہ زیادہ ہے لہٰذا اس حوالے سے دونوں ممالک کو موثر حکمت عملی بنا کر کام کرنا چاہیے تاکہ خطے سے سموگ کا خاتمہ ہوسکے۔ گلوبل وارمنگ ایک بڑا مسئلہ ہے جو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہورہا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ آج سے 4 دہائیاں قبل جہاں کھیت اور درخت تھے آج وہاں سڑکیں ، فیکٹریاں اور آبادی ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب سردی کم اور گرمی زیادہ پڑتی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہواؤں اور بارشوں کا معاملہ بھی تبدیل ہوا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور موسمی مسائل سے نمٹنے کیلئے سب سے آسان حل درخت لگانا ہے۔ یہ سستا بھی ہے اور اس کا فائدہ بھی زیادہ ہے لہٰذا زیادہ سے زیادہ سایہ دار درخت لگائے جائیں ۔ شہری کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے گھر کو بلکہ پورے ملک کو صاف رکھے اور ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

عبداللہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی)

گزشتہ کئی برسوں سے نومبر اور دسمبر کے ایام میں سموگ ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آتا ہے جس کی وجوہات میں فضائی آلودگی، مختلف اقسام کا فیکٹریوں کا دھواں، شہر کے گردونواح میں موجود اینٹوں کے بھٹوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں کے اثرات، بغیر ٹیوننگ زدہ گاڑیوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیس و دیگر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے ایک صوبے میں لاتعداد بھٹوں، فیکٹریوں اور فصلوں کی باقیات کو جلانے کی وجہ سے بھی ماحول آلودہ ہورہا ہے جس کا نتیجہ سموگ کی شکل میں نکلتا ہے۔

بھارت سے کیمیکل زدہ گیسوں کے پاکستان آنے اور یہاں موجود آلودگی کی وجہ سے پاکستان کے مختلف شہروں کے باسیوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ نومبر اور دسمبر کے دوران موسم سرد ہوتا ہے، دھند بھی بنتی ہے لہٰذا فضا میں موجود کیمیکلز، دھواں، مٹی و دیگر آلودہ ذرات دھند میں شامل ہوکر سموگ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور سموگ کی یہ موٹی لہر آسمان پر چھا جاتی ہے جو بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ سموگ میں اضافے کی بڑی وجہ گاڑیوں کا بے جا استعمال ہے۔ شہر کی بڑی سڑکوں پر مخصوص اوقات میں ٹریفک جام ہوجاتی ہے، بعض شاہراہوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور ٹریفک سست روی کا شکار ہوجاتی ہے جس کے باعث گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں فضا میں موجود دھند میں مل کر سموگ بن جاتا ہے۔ سموگ گھروں کے اندر بھی آجاتی ہے جس سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

لوگوں کو آنکھوں میں جلن، گلے میں خراش، سانس کی نالیوں میں خشکی و دیگر امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔ بیماریوں کی ایک بڑی وجہ شہریوں میں سموگ کے حوالے سے آگاہی کا نہ ہونا ہے۔ شہریوں کو چاہیے کہ مخصوص اوقات خصوصاََ شام کو گاڑیوں کا استعمال کم کریں۔ بھٹہ مالکان کو چاہیے کہ حکومت کی ہدایات کے مطابق مقررہ مدت تک بھٹے بند رکھیں۔ اس کے علاوہ فیکٹری مالکان کو چاہیے کہ وہ حکومت کے متعین کردہ قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کریں اور ایسے مخصوص آلات کا استعمال یقینی بنائیں جو ماحولیاتی آلودگی کو کم کرتے ہیں۔

شہریوں کو چاہیے کہ گلی، محلوں کو صاف رکھیں اور کوڑا کرکٹ باہر نہ پھینکیں تاکہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ سموگ کے اوقات میں بچے، دل اور دمے کے مریض باہر نکلنے سے اجتناب کریںاور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ حکومت، سول سوسائٹی اور میڈیا کو چاہیے کہ عوام کو سموگ کے خاتمے اور ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے مختلف طریقوںسے آگاہی دے۔ اس ضمن میں ایسے پروگرام اور آگاہی پیغامات نشر کیے جائیں جن سے عوام کی تربیت کی جاسکے۔ سموگ ایک اہم مسئلہ ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سموگ کے تدارک کیلئے جامع پالیسی تشکیل دے۔

اس کے لے دنیا کے دیگر ممالک کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جائے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے جہاں صاف پانی، تعلیم، صحت و دیگر اہم شعبوں کے مسائل پر از خود نوٹس لیا وہاں انہوں نے سموگ جیسے اہم ملکی مسئلے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے چاروں صوبوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک 10 رکنی کمیشن تشکیل دیا تاکہ سموگ سے نمٹنے کیلئے قومی پالیسی بنائی جاسکے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے قائم کردہ اس کمیشن کی فائنڈنگزآخری مراحل میں ہیںجبکہ کمیشن کی رپورٹ میں ماہرین کی آراء شامل ہیں۔ یہ سفارشات حکومت کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔

لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان پر عمل کرکے ملک کو سموگ جیسے چیلنج سے چھٹکارہ دلوائے۔ گزشتہ برس لاہور ہائی کورٹ نے سابق حکومت کو سموگ سے نمٹنے کیلئے پالیسی دی مگر افسوس ہے کہ اس پر صحیح معنوں میں عمل نہیں کیا گیا جس کے باعث آج ہم ایک بار پھر سموگ جیسے مسئلے سے دوچار ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے رویے درست نہیں ہیں۔ جب کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو ہم اس کے حل کیلئے کام شروع کردیتے ہیں مگر پیشگی اقدامات نہیں کرتے، میرے نزدیک ہمیں اپنی رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔

سموگ سے ہزاروں شہری بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جو ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ہسپتالوں میں شہریوں کو سہولیات فراہم کرے اور سموگ سے متاثرہ افراد کیلئے خصوصی کاؤنٹرزقائم کیے جائیں تاکہ انہیں بروقت علاج میسر ہوسکے۔ صاف ماحول اب دنیا بھر کے ممالک کی ترجیح ہے اور سموگ سے متاثرہ ممالک اس کے حل کیلئے تجاویز پر غور کررہے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں صاف ستھرے ماحول اورسموگ سے بچاؤ کے لیے رکن ممالک کو ترجیحی بنیادوں پراقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ہم حکومت پاکستان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ تعلیم، صحت، صاف پانی و دیگر شعبوں کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے بھی اقدامات کرے گی اور اس کیلئے قوانین بھی بنائے جائیں گے ۔ محکمہ ماحولیات کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس کے لیے ضروری ہے کہ جنگلات میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہری اپنی مدد آپ کے تحت درخت لگائیں اور ماحول کو صاف کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔