خدا رحم کرے

سید نور اظہر جعفری  بدھ 7 نومبر 2018

مسافروں کے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں ۔ یہ زندگی ایک طویل مسافت ہے، رنگ بدلتی دنیا اور روپ بدلتے انسانوں کے درمیان ایک ایسا سفر جس کا نہ آغاز بس میں ہے، نہ آپ آخری صفحہ لکھ سکتے ہیں ۔ دلوں میں پیار انسانیت، ہمدردی یا اس کے برعکس جذبات لیے انسان جیتا ہے مرتا ہے نہ جانے کون سا حصہ زندگی ہے اورکون سا موت کچھ خبر نہیں ۔

بعض زندہ مردہ ہیں اور بعض مردہ زندہ، یہ پسند آپ کی ہے منظوری خدا کی کہ وہ زیادہ تر تو وہی منظورکرتا ہے جو آپ پسند کرتے ہیں بس نقصان سے بچاتا ہے جیسے ایک مصور اپنی تصویریں بارش سے بچاتا ہے، دکھ، غم، مفلسی، قرض یہ رہ بارشیں میں جو انسان کا کردار دھودیتی ہیں ،خدا ان سے بچاتا ہے اگر بچنے کا حق ہے۔ سرمایہ دار ظالم کا خدا نہیں ،کوئی اور مددگار اور اس سے مدد لینے والے کا انجام بھی اس کے ساتھ ہے۔

کچھ دن پہلے ایک خبر پڑھی کہ ایک صبح قبرستان میں ایک قبرکھلی پائی گئی، معلوم ہوا تازہ ہی مردہ ہے اورکفن کھلا ہے اور مرنے والے کے انگوٹھے پر روشنائی ہے یعنی کسی دستاویز پر انگوٹھا لگوایا گیا ہے۔ مرنے والے کو تو دوبارہ قبر میں جانا پڑا کوئی فرق نہیں، مگر میں نے غورکیا تو ایک محاورہ یاد آگیا زندہ ہاتھی لاکھ کا تو مردہ سوا لاکھ کا ۔ یعنی ہاتھی کے دانت بہت قیمتی ہوتی ہیں اور انھیں حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر میں شکاری یہ جرم کرتے ہیں۔

یہاں ایک انسان تھا جب زندہ ہوگا تو لوگ شاید ڈرتے ہوں شاید قدرکرتے ہوں ، شاید عزت کرتے ہوں جو بھی ہو مگر اس کی قدروقیمت کا اندازہ جب ہوا جب اس کا دانت نکالا گیا یعنی جائیداد یا دولت حاصل کرنے کے لیے اسے دوبارہ زمین کے اوپر لایاگیا، ہاتھی کا دانت سوا لاکھ ،اس کا انگوٹھا نہ جانے کتنے لاکھ کا ہوگا اور وہ انسان کیسا ہوگا جس نے قبر سے دولت کمائی، حیرت تو ہوتی ہے، ظاہر ہے اس سے آگے کا قصہ آپ یہ سمجھ سکتے ہیں مگرکیا یہ عام طور پر نہیں ہو رہا ۔

حیدرآباد میں اپنے ایک کام کے سلسلے میں نئے رانی باغ کے قریب واقع سرکاری آفس کے باہرگاڑی میں بیٹھا تھا، عمارت شکستہ حال تباہ مگر اس عمارت سے زندہ لوگ ہزاروں روپے رشوت روز لے کرگھر جاتے ہیں۔ آفیسر کراچی کے تھے جن کو یہاں کا چارج بھی دیا گیا تھا وہ مقررہ دنوں پر آتے اور ہزاروں ، لاکھوں لے کر جاتے، جو دن مقرر تھا اتفاق سے اس دن ان کی کہیں اور پوسٹنگ ہورہی تھی تو فوراً چلے آئے بغیر شیڈول کے، رشوت کا آخری موقع بھی کیوں گنوائیں اب آپ بتایے اس مردے کے انگوٹھا لگوانے اور ان صاحب اور اسٹاف کا بھلا کیا فرق ہے یہ تو روز مردے کا انگوٹھا لگواتے ہیں۔

دفترکے باہرکچی زمین تھی وہاں پانی کے دو برتن پرندوں کے لیے رکھے ہوئے تھے، ان میں پہلے چونچ والی فاختائوں کا راج رہا وہ فاختہ کہلاتی ہیں مگر فاختہ نہیں ہیں جیسے ہم انسان کہلاتے ہیں انسان ہیں نہیں۔ یہ ایک جملہ معترضہ تھا، معذرت۔ تو ان فاختائوں نے خوب پانی پیا اور بولتی رہیں پھر چڑیوں کے جھنڈ آئے اور پانی پیتے رہے مسکراتے گاتے رہے، ان کا مٹی کا غسل دیکھنے والا ہوتا ہے۔ عصرکی اذان ہورہی تھی اندر انسان انسان کو لوٹ رہا تھا اور باہر چڑیاں گرم مٹی میں نہاکر نجاست دور کررہی تھیں اور صحت حاصل کر رہی تھیں۔

ایک طرف کچھ بھینسیں سرکاری لان کی گھاس چر رہی تھیں نگراں بس بے دلی سے ان کو روک رہا تھاتاکہ وہ کما بھی لیں اور ان کا فرض بھی پورا ہوجائے یہ گوالہ مجھے اسٹیبلشمنٹ کابندہ لگا بظاہر روک ٹوک قانون کے حوالے اور اندرون خانہ کھائو پیو موج کرو۔

عصر کی اذان کے دوران انسان رشوت دے لے رہے تھے اور چڑیاں مٹی سے خود کو صاف کر رہی تھیں، گوالا سرکاری گھاس کا استحصال کروا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ جہاں رشوت کا کاروبار ہو وہاں نحوست صاف نظرآتی ہے جو قوم کو معاشی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں ان کی نحوست بھی چہروں پر نظر آتی ہے ، چاہے کتنا ہی میک اپ کرلیں ۔

فواد چوہدری کو ریڈیو کے پنشنرز کھل رہے ہیں حالانکہ وہ حکومت کے ملازم ہیں جو ریڈیو کو چلاتے ہیں اور خدمات دے کر ریٹائر ہوتے ہیں اگر برا مانے بغیر چوہدری صاحب سوچیں کہ ان میں ان کے والد بھی ہوتے تو ان کا رویہ کیا ہوتا ، ایم کیو ایم والے ٹھیک کہہ رہے ہیں وزارت بدل دیں۔

اوہو! میں پھر بہک گیا میں تو بات کر رہاتھا عصرکی اذان اور رشوت کے کاروبار کی، چڑیوں کے مٹی میں نہانے اور پاک ہونے کی تو پھر یوں ہوا کہ کوئوں کا ایک غول آگیا، کائیں ،کائیں کا شور پانی کا برتن چھینا جھپٹی لگا،ایک بڑے کوے نے باقی سب کو چونچیں مار کر دورکیا اور وہ یوں ہی کھڑے تھے، مسئلہ ایک بوٹی کا تھا جو ہڈی کے ساتھ پانی میں تھی اور خمیدہ چونچ والا کوا ’’کک بیک ‘‘ کی طرح اسے اڑارہا تھا جو قریب آتا وہ اسے عزت نہ دیتا خود کھاتا رہتا۔

اس میں کچھ کوے کے بچے بھی تھے اور بیگم اس کوے کی انھیں ریشے کھلا رہی تھی۔ عجیب فیملی تھی جوپانی اور وسائل معاف کیجیے گا ہڈی بوٹی پر قابض تھے سب کو ’’آگے لگ‘‘ کہہ رہے تھے کافی دیر تک یہ کوا ان وسائل پر قابض رہا دوسروں کا بھی حق تھا ایک چونچ خمیدہ اور باریک تھی جس سے وہ ہڈی میں سے بھی گوشت نکال کر کھا رہا تھا اس ’’کک بیک‘‘ سے خوب لطف اندوز ہوکر وہ اڑ گیا اور دوسرے بچا کچا لوٹنے کو آگئے۔

مغرب کا وقت ہوگیا تھا اذان ہو رہی تھی۔ دونوں اذانوں کے دوران کوئی باہر نہیں آیا نوٹ گنتے رہے۔ باہر پرندے اب اپنا کام ختم کرکے جا رہے تھے۔ میں نے کسی سے پوچھا ،ان کا آفس ٹائم کیا ہے اس نے کہا آخری گاہک کے جانے تک شاید رات کے دس بجے تک کام ختم ہوجائے بہت محنتی لوگ ہیں یہ اور وقفے کے بعد کہا رشوت لینے میں۔

میرے وکیل صاحب اور اسٹیٹ ایجنٹ واپس آرہے تھے کاغذوں کے ساتھ وہ بھی ایک گاہک تھے ان لوگوں کے، یہ زہر آب نہیں پئیں گے تو آپ کا کوئی کام نہیں ہوگا۔ میں بے شک نیک ہوں مگر یزیدیوں میں رہتا ہوں اور پورے ملک کے ہر محکمے میں ان کا راج ہے کوئی ماڈل انھیں ٹھیک نہیں کرسکتا یہ ملک کی جڑوں میں بیٹھے ہیں ،خدا رحم کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔