ہے اِسی میں پیار کی آبرو

یونس ہمدم  ہفتہ 10 نومبر 2018
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

1962ء میں ممبئی میں ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا نام تھا ’’ان پڑھ‘‘ ہدایت کار تھے موہن کمار اور فلم کے موسیقار تھے مدن موہن اس فلم میں ایک ایسا انمول گیت تھا کہ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ اس گیت نے اس دور میں ایسی دھوم مچائی تھی کہ فلم کی دنیا کے علاوہ ادب کی دنیا میں بھی اس کا برسوں چرچا رہا تھا اوراگر آج بھی اس گیت کو سنیے تو ایک سحر سا طاری ہوجاتا ہے۔

اس گیت نے لاکھوں لوگوں کے دل موہ لیے تھے اور اس گیت نے پیار کی آبرو کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچادیا تھا۔ یہ گیت اس دور کے نامور شاعروں سے ہٹ کر ایک ایسے شاعر نے لکھا تھا جس کا غیرشاعرانہ نام تھا بلکہ اس کے نام سے ایک شاہانہ سفر آج جھلکتا تھا اور وہ نام تھا راجہ مہدی علی خان۔ انھوں نے فلمی دنیا کا موسم ہی بدل دیا تھا اور موسیقار مدن موہن نے فلم بینوں کے دلوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ وہ گیت بھی قارئین کی نذر کروں۔

ہے اسی میں پیار کی آبرو

وہ جفا کریں میں وفا کروں

جو وفا بھی کام نہ آسکے

تو وہی کہیں کہ میں کیا کروں

فلم ’’ان پڑھ‘‘ کے اس گیت کے بارے میں ایک تاریخی بات اور بتاتا چلوں کہ اس گیت کے موسیقار مدن موہن کو موسیقار اعظم نوشاد نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مدن موہن تم میری تمام دھنیں لے لو اور مجھے اپنی یہ ایک دھن بخش دو ۔ اس دلنواز دھن نے میرے دل پر جادو سا کردیا ہے یہ ہوتی ہے بڑے فنکاروں کی بڑی بات۔

اب میں راجہ مہدی علی خان کی ابتدائی زندگی اور شاعرانہ شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ راجہ مہدی علی خان وزیر آباد کے علاقے حافظ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا ایک ادبی گھرانے سے تعلق تھا اور یہ اپنے دور کے ایک مشہور اخبار ’’زمیندار‘‘ کے مالک و مدیر نامور صحافی، ادیب اور شاعر مولانا ظفر علی خان کے بھانجے تھے۔ راجہ مہدی علی خاں نے ابتداء نثر لکھنے سے کی تھی پھر وہ نظم اور غزل کی طرف بھی آتے چلے گئے۔

ادبی تربیت گھر ہی سے حاصل ہوئی۔ مختلف رسالوں میں لکھتے رہے اس دور کے مشہور ادبی پرچوں نیرنگ خیال، بیسویں صدی، تہذیب نسواں، پھول اور عالمگیر جیسے رسالوں میں ان کا کلام شایع ہوتا رہا اور سراہا جاتا رہا۔ صحافت سے بھی وابستگی رہی پھر ان کی نثر نگاری پر شاعری حاوی ہوتی چلی گئی اور انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے لیے لکھنا شروع کردیا پھر یہ بحیثیت شاعر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران ان کی ملاقات افسانہ نگار اور ادیب سعادت حسن منٹو سے ہوئی پھر یہ ملاقات گہری دوستی میں تبدیل ہوگئی، منٹو دہلی سے جب ممبئی گئے تو راجہ مہدی علی خاں بھی دہلی چھوڑ کر ممبئی چلے گئے۔

اسی دوران سعادت حسن منٹو کو ایک فلم لکھنے کی آفر ہوئی، فلم کا نام تجویز ہوا ’’آٹھ دن‘‘ ایک دلچسپ موضوع پر یہ فلم تھی، اس فلم میں منٹو کی معاونت اور دوستی کی وجہ سے راجہ مہدی علی خاں کو پہلی بار کسی فلم میں گیت لکھنے کا موقع ملا ۔اس فلم میں ایک گیت موسیقار ایس ڈی برمن نے خود بھی گایا تھا۔

موسیقار ایس ڈی برمن اس فلم میں محمد جلال آبادی اور راجہ مہدی علی خاں کے گیسٹ تھے مگر فلم اپنی کمزورکاسٹ کی وجہ سے ناکام ہو گئی تھی مگر راجہ مہدی علی خان کی بحیثیت نظم نگار فلمی دنیا میں انٹری کامیاب ہوگئی تھی کیونکہ اسی دوران انھیں فلم ’’دو بھائی‘‘ کے لیے گیت لکھنے کا ایک اچھا موقع مل گیا تھا۔ اس فلم کے موسیقار بھی ایس ڈی برمن تھے فلم کی کہانی بھی اچھی تھی اور ایک گیت جو راجہ مہدی علی خاں کا لکھا ہوا تھا جسکے بول تھے:

میرا سندر سپنا بیت گیا

میں پریم میں سب کچھ ہارگئی

بے درد زمانہ جیت گیا

اس گیت کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور یہ ہندوستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن پر دن میں کئی بار نشر ہوتا تھا۔ یہی گیت فلم کی ہائی لائٹ بنا اور فلم ہٹ ہوگئی تھی۔ اس فلم کے بعد مدن موہن کو ہدایت کار راج کھوسلہ کی ’’وہ کون تھی‘‘ میں موسیقی دینے کا موقع ملا تو انھوں نے پھر راجہ مہدی علی خاں کو اپنے ساتھ ملالیا اور دونوں کی کاوشوں اور سنگم سے زبردست سنگیت نے جنم لیا۔لتا منگیشکر کی آوازکا فن کھل کر منظر عام پر آیا تھا۔ گیت کے بول تھے:

نیناں برسیں رِم جھم رم جھم

پیا تورے آون کی آس

راجہ مہدی علی خاں شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی اور مجروح سلطان پوری کی صف میں شامل ہوگئے تھے اب تو ہر دوسرا فلمساز راجہ مہدی علی خاں کی شاعری کا شیدائی ہوگیا۔ ایک دور یہ بھی آیا کہ راجہ مہدی علی خاں پر فلموں کی برسات ہونے لگی تھی۔ مدن موہن اور مہدی علی خاں کے اشتراک سے فلم ’’وہ کون تھی‘‘ کے ایک اور گیت نے بڑی شہرت حاصل تھی۔ جس کے بول تھے:

لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو

شاید کہ اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو

مذکورہ فلم کے ایک اور گیت نے محبت کرنے والوں کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ بڑی کشش تھی راجہ مہدی علی خان کے اس گیت میں بھی ، جس کے بول تھے:

جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے

تباہی تو ہمارے دل پہ آئی آپ کیوں روئے

اسی دور کی ایک اور فلم تھی جس کا نام تھا ’’آپ کی پرچھائیاں‘‘ کے گیت بھی اس دور میں ہر زبان پر تھے۔ اور خاص طور پر یہ دلکش گیت کبھی بھلائے نہیں جاسکے۔

اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو

ان آنکھوں کا ہر اک آنسو تمہیں میری قسم دے دو

……

میں نگاہیں ترے چہرے سے ہٹاؤں کیسے

لٹ گئے ہوش تو پھر ہوش میں آؤں کیسے

ابھی فلم ’’آپ کی پرچھائیاں‘‘ کے گیتوں کا نشہ کم نہیں ہوا تھا کہ ایک اور فلم ’’میرا سایہ‘‘ ریلیز ہوگئی جس کے گیت بھی بڑے با کمال ثابت ہوئے تھے اور مدن موہن کی دلفریب موسیقی کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا تھا۔ وہ گیت آج بھی دلوں پر دستک دیتے ہیں۔

تو جہاں جہاں چلے گا میرا سایا ساتھ ہوگا

……

آپ کے پہلو میں آکر رو دیے

داستانِ غم سناکر رو دیے

اس فلم کے گیتوں میں لتا منگیشکر اور محمد رفیع کی آوازوں نے ایک دلکش سماں باندھ دیا تھا۔ راجہ مہدی علی خاں کے کس کس گیت کا تذکرہ کیا جائے۔ ہر گیت انمول ہر گیت دلنواز اور ہر گیت نے دلوں کو مہکایا تھا۔ پھر بھی چند دلکش گیتوں کا تذکرہ کرتاہوں۔

٭نینوں میں بدرا چھائے بجلی سی چمکے ہائے (فلم میرا سایا)

٭۔پریت لگا کے میں نے یہ پھل پایا (فلم آنکھیں)

٭۔میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا (فلم مدہوش)

٭۔جیا لے گیؤ ری مورا سانوریا (فلم ان پڑھ)

٭۔آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے (فلم ان پڑھ)

٭۔وہ دیکھو جلا گھر کس کا (فلم ان پڑھ)

اب میں راجہ مہدی علی خاں کے ایسے گیت کا تذکرہ کروںگا جو محمد رفیق نے گایا تھا۔ فلم تھی نیلا آکاش۔ یہ 1965ء کی فلم تھی، اس فلم میں محمد رفیع نے ایک بہت ہی درد بھرا گیت گایا تھا۔ اس گیت کے بول تھے:

آخری گیت محبت کا سنالوں تو چلوں

میں چلا جاؤں گا دو اشک بہالوں تو چلوں

یہ گیت محمد رفیع کے دل کی بھی اندر سے ایک آواز تھی۔ محمد رفیع درویش قسم کا انسان تھا۔ یہ گیت اس کے کیریئر کے گیتوں میں آخری گیت ثابت ہوا اور پھر محمد رفیع اس دنیا سے لاکھوں دلوں کو اداس کرکے دوسری دنیا میں چلا گیا تھا جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آتا ہے۔راجہ مہدی علی خاں نے فلمی دنیا میں آنے سے پہلے مزاحیہ شاعری بھی کی تھی۔ ان کی دلچسپ نظموں میں ایک نظم ’’بہو کی فریاد‘‘ کے نام سے بڑی مشہور ہوئی تھی :

تکیے پہ شب کو پانی چھڑک کر میں سوگیا

وہ سمجھی اس کے ہجر میں رویا تھا ساری رات

راجہ مہدی علی کے دو شعری مجموعے بھی منظر عام پر آئے اور بہت مقبول ہوئے تھے جن میں ایک ’مضراب‘ اور دوسرا ’ انداز بیاں‘ کے نام سے شایع ہوا تھا جنکے کئی کئی ایڈیشن چھپے تھے،ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کی زندگی میں شاعری کے بعد شراب کو بڑا دخل تھا، ان کی زندگی انھی دو چیزوں سے شروع ہوکر انھی پر ختم ہوگئی۔ مے نوشی آخر میں ان کی شاعری پر غالب آگئی تھی، شاید شراب ان کو پی گئی جسکے سبب ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑدیا تھا اور پھر راجہ مہدی علی خاں 29 جولائی 1996ء میں اس دنیا کو ہی چھوڑ بیٹھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔