نیب کی کارکردگی اور مشکلات

مزمل سہروردی  پير 12 نومبر 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

نیب اس وقت پورے ملک کے نشانے پر ہے۔ نیب کے اختیارات اور تفتیش کے طریقہ کار کے حوالے  سے ایک بحث جاری ہے۔ نیب کی جانب سے ملزمان کے ریمانڈ پرریمانڈ کے کھیل پر بھی بہت اعتراضات ہیں۔ ایک عمومی رائے یہ ہے کہ ان لا محدود اختیارات کے ساتھ نیب برقرار نہیں رہ سکتا۔ اگر ملک چلانا ہے تو نیب کے پر کاٹنے ہوں گے۔

ادھر یہ رائے بھی مضبوط ہے کہ ملک میں کرپشن اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایک موثر نیب پاکستان کے بقا کی ضمانت ہے۔ ملک کرپشن کی دلدل میں اس حد تک دھنس چکا ہے کہ بے لاگ احتساب کے لیے نیب کے اختیارات میں کمی نہیں اضافے کی ضرورت ہے۔ نیب کے صرف اختیارات ہی نہیں بلکہ نیب کے وسائل اور استطاعت میں بھی اضافے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی رائے ہے کہ چونکہ نیب ملک کے طاقتور طبقے کو ہاتھ ڈال رہا ہے۔ نیب کے ہاتھ میں ملک کے طاقتور لوگوں کی گردن آگئی ہے اس لیے نیب کے خلاف شور زیادہ ہے۔طاقتور لوگوں نے نیب کے خلاف اتحاد بنا لیا ہے۔ اس اتحاد نے نیب کو تنہا کر دیا ہے۔

اسی تناظر میں آج کل نیب کے ڈی جی میجر (ر) سلیم شہزاد بھی تنازعات کی زد میں ہیں۔ ایک طرف ان کی جعلی ڈگری پر شور مچایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ان کی جانب سے مختلف ٹی وی پروگرامز میں د یے گئے انٹرویوز پر شور مچایا جا رہا ہے۔ ایسا بھی لگ رہا ہے کہ بیچارے سلیم شہزاد نے میڈیا پر آکر ایک غلطی کر دی ہے۔ آج یہ سوال بھی ہو رہا ہے کہ  انھوں نے کس حیثیت سے میڈیا پر آکر زیر تفتیش مقدمات پر اظہار خیال کیا۔ صحافت کے تیس سال میں میرے لیے بھی یہ بات کسی خبر سے کم نہیں کہ کسی بھی تفتیشی ادارے کی جانب سے زیر تفتیش مقدمہ پراظہار خیال ایک جرم ہے۔

میں تو روز پولیس افسران کو زیر تفتیش مقدمات پر پریس کانفرنس کرتا دیکھتا ہوں۔ میں تو روزانہ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن حکام کو زیر تفتیش مقدمات پر اظہار خیال کرتا دیکھتا ہوں۔ آج جو لوگ بیچارے سلیم شہزاد کے ٹی وی پروگرامز پر احتجاج اور اعتراض کر رہے ہیں انھیں باقی تفتیشی افسران کے انٹرویوز کیوں نظر نہیں آتے۔ شاید ایسا ہے کہ پولیس ایف آئی اے اور دیگر ادارے غریب اور مظلوم طبقہ کے مقدمات کے بارے میں میڈیا میں اظہار خیال کرتے ہیں، اس لیے وہ جرم نہیں ہے۔ جب کہ سلیم شہزاد نے طاقتور اور سابق حکمرانوں کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے اس لیے جرم بھی بڑا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جرائم تو نظر انداز کیے جا سکتے ہیں لیکن بڑے جرائم کو کسی بھی طرح نظرا نداز نہیں کیا جا سکتا۔

ایک دوست نے میجر (ر) سلیم شہزاد کے بارے میں عجیب تبصرہ کیا ہے۔ دوست کا کہنا ہے کہ سلیم شہزاد کے ساتھ بھی وہی ہوا ہے جو نواز شریف کے ساتھ ہو اہے۔ میں نے کہا تم نے یہ کیا بات کر دی ہے۔ اس نے کہا دیکھو سلیم شہزاد تو شہباز شریف اور دیگر ہائی پروفائل کے کیسز کے بارے میںمیڈیا کو بتا نے گئے تھے اور ڈگری میں پھنس گئے جیسے نواز شریف پانامہ میں گئے تھے اور اقامہ میں پھنس گئے تھے۔

میجر (ر) سلیم شہز اد پاک فوج سے نیب میں آئے اور پھر نیب کے ہو کر رہ گئے۔ مجھے ا مید ہے کہ ان ڈگریوں پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ پتہ نہیں نیب میں آنے کے بعد انھیں ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کرنے کا شوق کیوں چرایا؟ اس ڈگری سے انھوں نے کوئی نوکری حاصل کرنی تھی اور نہ ہی اس سے انھیں کوئی ترقی حاصل ہونی تھی۔ ویسے  ایک وکیل کے بارے میں شکایت کی گئی کہ ان کی پی ایچ ڈی کی ڈگری جعلی ہے اس لیے ان کی وکالت کا لائسنس منسوخ کی جائے۔ محترم وکیل صاحب نے موقف اختیار کیا کہ ان کا وکالت کا لائسنس ایل ایل بی کی ڈگری کی بنیاد پر جاری کیا گیا ہے۔ اس کا پی ایچ ڈی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے اس کا وکالت کا لائسنس منسوخ نہیں ہوسکتا۔

سلیم شہزاد کے حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ ان کی کارکردگی کسی کو ہضم نہیں ہو رہی۔ حال ہی میں انھوں نے لاہور میں ایک گھر سے 33کروڑ روپے برآمد کیے ہیں۔ جس گھر سے یہ رقم برآمد ہوئی ہے۔ وہاں نیب نے ایل ڈی ای کی ایک اسکیم کی تحقیقات کے حوالہ سے چھاپہ مارا تھا۔ یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے۔ ایک معمولی سرکاری ملازم کے گھر سے اتنی بڑی رقم کی برآمدگی  ملک میں کرپشن کے ننگے ناچ کے بارے میں بتا رہی ہے۔ ابھی تک اس رقم کے حوالے  سے نیب نے کوئی گرفتاری نہیں کی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ا تنی بڑی رقم کی برآمدگی کے بعد کوئی بھی اس رقم کے حوالے سے شور نہیں مچا رہا ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اس دولت کا کوئی وارث ہی نہیں ہے۔

جن صاحب کے گھرسے یہ رقم برآمد ہوئی ہے انھوں نے بھی ابھی تک اس رقم کے حوالے  سے کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک گھر نہیں ہے۔ ملک میں ایسے ہزاروں لاکھوں گھر موجود ہیں جہاں اس قسم کی غیر قانونی دولت موجود ہے۔ اس سے پہلے بلوچستان میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے گھر سے بڑی رقم بر آمد ہوئی تھی لیکن نیب نے اس مقدمہ میں معمولی رقم پر پلی بارگین کر لیا۔ مجھے امید ہے کہ یہ پرپلی بارگین بھی نیب کے لیے نیک نامی کا باعث نہیں ہے۔ اس بار پری بار گین کی بجاے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔

عام آدمی بار گین کو بھی مک مکا ہی سمجھتا ہے۔ اسی طرح آمدن سے زائد اثاثوں کا کھیل صرف نشانے پر موجود سیاستدانوں سے ہی نہیں کھیلا جانا چاہیے۔ نیب کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ بن رہی ہے کہ یہ صرف ن لیگ کو نشانے پر رکھ رہی ہے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ن لیگ کے علاوہ باقی سب نیب کے نشانے پر کیوں نہیں ہیں۔ صرف ن لیگ کے ساتھ کام کرنے والے بیوروکریٹس ہی نشانے پر ہیں۔ کیا باقی سب حاجی نمازی ہیں۔ یہ سب نیب کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ میں شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن جب اکیلی ن لیگ کو پکڑا جائے گا توا سے احتساب نہیں انتقام ہی کہا جائے گا۔ نیب کو اس پر ایک مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ انصاف بے لاگ کے ساتھ یکساں ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ جب تک نیب یکساں نہیں ہوگا اس کو انتقام ہی کہا جائے گا۔

نیب لاہور میں جب سے سلیم شہزاد آئے ہیں انھوں نے نیب لاہور کو بہت متحرک کر دیا ہے۔ نیب کے اعداد و شمار کے مطابق سلیم شہزاد کے لاہور آنے کے بعد نیب لاہور کی ریکوری میں 368فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح نیب لاہور کی ہر شعبہ میں کارکردگی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ شاید یہ کارکردگی ہی اب سلیم شہزاد کا جرم بن رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔