نئے موضوع کی تلاش

ایس نئیر  منگل 25 جون 2013
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

گفتگو کے ہُنر سے آشنا ، دُنیا کے ہر موضوع پر اپ ٹو ڈیٹ معلومات ، جنرل نالج کا یہ عالم کہ اُنہیں چلتا پھرتا اِنسائیکلوپیڈیا کہا جاسکتا ہے ۔ نہایت دلچسپ، پر مغز، مُد لّل اور برجستہ گفتگو کرتے ہیں ۔ غرض بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں ۔ میرے اِس عزیز دوست کا نام شبیر منہاس ہے ۔’’ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ، شبیر تو دیکھے گا ۔ ‘‘ یہ وہ شبیر تو نہیں ہیں ، ’’ لیکن کوئی جانے یا نہ جانے ، شبیر ضرور جانتا ہوگا ‘‘ ۔ اِنہیں بے شک کہا جاسکتا ہے ۔ ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہیں ۔ میں ایک دِن اِن کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا ایک ماتحت اِن کے پاس آیا اور شکایتی لہجے میں کچھ دیر تک کچھ بولتا رہا ۔

غالباً بولتے وقت وہ حلق پر ضرورت سے زیادہ ہی زور دے کر بولنے کا عادی تھا ۔لہذا الفاظ میری سمجھ میں نہیں آئے ۔ لیکن شبیر صاحب نے توجہ سے اِس کی بات سُنی ، پھر سر ہلا کر بولے ‘‘ تم جاؤ ، میں اُسے بُلا کر سمجھا دوں گا ‘‘ ۔ وہ ماتحت چلا گیا تو میں نے پوچھا ’’ یہ کیا کہہ رہا تھا ؟ میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آیا ‘‘ ۔ فرمایا ’’ میری سمجھ میں بھی نہیں آیا ‘‘ میں نے حیرت سے کہا ’’ آپ نے دوبارہ کیوں نہیں پوچھا ‘‘ ؟ اِس لیے نہیں پوچھا کہ پھر ایسے ہی بولے گا ‘‘ ۔ میں نے کہا ’’ پھر آپ کسے بُلا کر کیا سمجھائیں گے ‘‘ ؟ فرمایا ’’ آفس میں سب اِسے تفریحاً چھیڑتے ہیں ۔

میں کام سے فارغ ہو کر اِسے پھر بُلاؤںگا اور کہوں گا ، جاؤ اُسے بُلا کر لے آؤ ۔ وہ خود اُس شخص کو بُلا کرلے آئے گا ، جس کی اُس نے شکایت کی تھی ۔ میں اُسی سے پوچھ لوں گا کہ کیا قصّہ ہے ؟ اِس طرح مجھے دونوں باتوں کا علم ہوجائے گا کہ کس کے خلاف شکایت کی گئی تھی اور شکایت کیا تھی ؟ یعنی کسے سمجھانا ہے اور کیا سمجھانا ہے ‘‘ ؟ میں بے اختیار ہنس پڑا ۔ غضب کی کامن سینس رکھتے ہیں ۔

ایک دِن میں نے گزارش کی ’’ حالاتِ حاضرہ پر کچھ فرمائیے ‘‘ بولے ’’ حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے ہیں ‘‘ ۔ دلاور فگار مرحوم فرما تو گئے ہیں ، آجکل بھی وہی چل رہے ہیں ‘‘ ۔ میں نے پوچھا ’’ پھر بھی آپ کو مستقبل میں کیا صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے ‘‘ ؟ یہ گیلانی صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے آخری دِنوں کا قصّہ ہے ۔ فرمایا ’’ بقول حفیظ جالندھری ’’ اب یہی صورت حالات نظر آتی ہے ‘‘ ۔ ’’ کہ کوئی صورت حالات نظر نہیں آتی ‘‘ ۔ لیکن تم لوگوں کے لیے کم سے کم موضوعات کے اعتبار سے تو یہ بڑی زرخیز حکومت ہے ۔

عوام بھلے لوڈشیڈنگ ، مہنگائی ، بیروزگاری اور بد امنی کی چکّی میں پستے رہیں ، لیکن اِس حکومت میں اگرکوئی کاروبار تیزی سے فروغ پا رہا ہے تو تم کالم نویسوں کا ہی تو ہے ‘‘ ۔ میں نے کہا ’’ کیا مطلب ‘‘ ؟ فرمایا ’’ دیکھو تمہارے پاس لکھنے کے لیے اتنے موضوعات ہیں کہ ایک کو رکھو اور ایک کو اُٹھاؤ ۔ موضوعات کا ایک دریا ہے ، جو بڑی روانی سے بہہ رہا ہے ، مثلاً ججز بحالی تحریک ، پھر میاں نواز شریف کا لانگ مارچ ، اُس سے قبل پنجاب میں گورنر راج ، این آئی سی ایل اسکینڈل ، پھر حج کرپشن کیس ۔ نیپ کے چیئرمین کی تعیناتی ، رحمان ملک صاحب کے لطیفے اور اب سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ ۔

تمہیں اور کیا چاہیے ؟ بس لکھتے چلے جاؤ میں تو یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ اگر موجودہ حکومت نے اپنی آئینی مدّت پوری کرلی اور نئی حکومت نے چارج سنبھال لیا تو تم کالم نویس کروگے کیا ؟ کن موضوعات پر لکھو گے ؟ اگر نئی حکومت کے وزرأ کرپشن میں ملوث نہ ہوئے ۔ اگر حکومت نے عدالتی فیصلوں پر فوری عمل درآمد شروع کردیا تو پھر تم لوگوں کا کیا بنے گا ‘‘ ؟ اور آج مجھے شبّیر منہاس صاحب کی بے تحاشا یاد اِسی لیے آرہی ہے کہ کم سے کم میں تو موضوعات کے اِس قحط کا واقعی شکار ہوچکا ہوں ۔

پی ٹی وی سے برسوں پہلے بچوں کے لیے ایک ڈرامہ سیریل نشر ہوتی تھی ، جس کا نام ’’ عینک والا جن ‘‘ تھا ۔ اُس ڈرامے کے ایک کردار کا یہ ڈائیلاگ بڑا مقبول تھا ’’ میں کیا کروں ، میں کس کو کھاؤں ‘‘ ؟ میرا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے ’’ میں کیا کروں ، میں کس پر لکھوں ‘‘ ؟ میاں صاحب ! اگر ایسے حکومت کروگے تو ہمارا کیا بنے گا ؟ کیسا وزیرِ داخلہ ہے جو ایک بڑک نہیں مارتا اور نہ ہی وارننگ دیتا ہے ۔ کیسا وزیرِ ریلوے ہے ، جو یہ نہیں کہتا کہ ’’ ریلوے چل ہی نہیں سکتی ‘‘ ۔ ریلوے تو واقعی نہیں چلی ، لیکن اِنکی وزارت پورے پانچ برس تک بُلٹ ٹرین کی طرح دوڑتی رہی ۔

وزیرِ خزانہ کو دیکھ کر نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ پانچ برس تک یہی وزیرِ خزانہ رہے گا تبدیل نہیں ہوگا بھلے جی ایس ٹی میں اضافہ کردیا ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے ، لیکن معاشی استحکام کے لیے اتنی تکلیف تو اُٹھانا ہی ہوگی ۔ لہذا وزیر خزانہ بھی پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہے ہیں ۔ حکمرانو ! ’’ ایسا کروگے تو کون آئے گا ‘‘ ؟ لہذا میں نے سوچا آج اِسی شخص کو کالم کا موضوع بنا ڈالوں جس نے اِس ’’ بُری صورتحال ‘‘ کی پیش گوئی کی تھی، جو فی الحال تو پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ اِنہی شبّیر صاحب کا ایک اور واقعہ یاد آیا ۔

اِن کے ادارے کے ورکشاپ کے ایک فٹر نے آکر اِن سے شکایت کی کہ اُس کی ایک دِن کی تنخواہ اکاونٹ ڈپارٹمنٹ نے ناجائز طور پر کاٹ لی ہے ، شبیر صاحب خیر سے ایل ایل بی بھی ہیں ، اُنہوں نے کیس کا جائزہ لیا اور اِس نتیجے پر پہنچے کہ غریب ملازم کو غیر قانونی طور پر ودھ آؤٹ پے کیا گیا ہے ۔ بہترین انگریزی لکھتے ہیں لہذا فوراً ملازم کی طرف سے اِس بے تنخواہ چھٹّی کو چیلنج کردیا ۔ درخواست ٹائپ کروائی ، ملازم کے دستخط لیے اور درخواست اکاؤنٹ اور ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ دونوں جگہ پہنچا دی کیونکہ ایڈمنسٹریشن آفس نے ہی اُسکی چھٹّی نامنظور کی تھی ، جو سراسر غیر قانونی عمل تھا ۔

وہاں سے چند دِنوں بعد جواب آیا کہ چھٹّی غیر قانونی تھی اور تنخواہ کی کٹوتی بالکل دُرست ہے ۔ یہاںسے پھر جواب دیا گیا اور ادارے کے قوانین اور ضوابط کی شقوں کے حوالے بھی دیے گئے ۔ ہیڈآفس کا اصرار تھا کہ اُنکا موقف دُرست ہے ۔ شبّیر صاحب اُس ملازم کی طرف سے اِسے ہیڈ آفس کی غلطی قرار دے رہے تھے ۔ حالانکہ یہ شبّیر صاحب کا کام ہی نہیں تھا۔ اب اِن کے ساتھ اِنکا ایک اور ساتھی بھی شامل ہوگیا ۔ بار بار ملازم کو فون کر کے دستخط کرنے کے لیے بُلایا جاتا اور جواب بالجواب کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ شبّیر صاحب نے اپنے لیے بلاوجہ کا ایک دلچسپ کا م ڈھونڈ لیا تھا ۔

بالآخر اصل متاثرہ فریق یعنی وہ فٹر ، ورکشاپ سے برانچ آفس آکر دستخط کر کر کے پریشان ہوگیا ۔ سال بھر ہوچکا تھا ، یہ قانونی اور کاغذی جنگ اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی کہ فٹر نے ہاتھ جوڑ دیے اور اعلان کردیا کہ وہ ایک دِن کی تنخواہ سے دستبردار ہوتا ہے اور اب مزید کسی کاغذ پر دستخط کرنے نہیں آئے گا ۔ ہیڈ آفس والے بھی سمجھ چکے تھے کہ فٹر کے پردے میں کوئی اور بولتا ہے ۔ عین اُس وقت جب فتح نزدیک تھی ، فٹر کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا اعلان سُن کر شبّیر صاحب اور اُنکے ساتھی کوثر دونوں بوکھلا گئے اور فٹر کو ڈپٹ کر بولے ’’ تم ایسا ہرگز نہیں کرسکتے ‘‘ ۔ فٹر نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’ کیوں نہیں کرسکتا ؟ بس مجھے ایک دِن کی تنخواہ نہیں چاہیے ‘‘ ۔ اب یہ دونوں منت سماجت پر اُتر آئے ، مُدعی سُست اور گواہ چُست والا معاملہ تھا ۔

شبّیر صاحب فٹر کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگا کر مُلتجانہ لہجے میں بولے ’’ بھائی اگرتم اِس کیس سے دستبردار ہوگئے تو ذرا سوچو ، تم تو ورکشاپ چلے جاؤ گے ، لیکن پھر ہم کیا کریں گے ‘‘ ؟ بالآخر دس پندرہ سادے کاغذات پرفٹر کے دستخط لے لیے گئے اور اُس کی طرف سے یہ قانونی جنگ اُس کا دو وکلا پر مشتمل یہ پینل بلا معاوضہ لڑتا رہا اور چھ ماہ بعد یہ جنگ جیت بھی گیا ۔ ہیڈ آفس نے اپنی غلطی تسلیم کر کے پچھلا آفس آرڈر واپس لے لیا ۔

فٹر کو بُلا کر یہ خوشخبری سُنائی گئی کہ اُسکی ایک دِن کی کاٹی گئی تنخواہ عنقریب اُسے مل جائے گی ۔ فٹر نے کھڑے گھاٹ ایک دِن کی تنخواہ سے زیادہ رقم کی مٹھائی منگوائی اور اِس خوشی میں پورے آفس کو کھلائی کہ بالآخر کیس کنارے لگ گیا ۔ شبّیر صاحب نے اُس فٹر سے پوچھا ’’ تمہارے ورکشاپ میں کیا کوئی اور بندہ ایسا نہیں ہے ، جس کے ساتھ ہیڈ آفس والوں نے ظلم کیا ہو ‘‘ ؟ فٹر نے ایک مرتبہ پھر ہاتھ جوڑے اور بولا ’’ سر ! کوئی ہوا بھی تو آپکو ہرگز نہیں بتاؤگا چاہے میری گردن اُڑا دی جائے ۔‘‘ شبّیر صاحب بڑ بڑائے ۔ ’’ اب ہم کیا کریں گے ؟ کوثر تم جلد سے جلد کوئی نیا کام ڈھونڈو پلیز ‘‘ ۔ اور میں بھی آجکل کوئی نیا موضوع ہی ڈھونڈ رہا ہوں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔