پاکستان ریلوے کا بحران کیوں 

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 19 دسمبر 2018
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ممتاز سیاستدان شیخ رشید کو دوسری دفعہ ریلوے کی وزارت ملی ہے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ریلوے کے وزیر رہے۔ شیخ رشید نے اپنا موجودہ عہدہ سنبھالتے ہی بلند و بانگ دعوے کیے مگر انھوں نے ریلوے کے کرایوں میں 19 فیصد تک کے اضافے کا اعلان کیا جو ریلوے کی تاریخ کا کرایوں کی مد میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔ اس کا سارا اثر  یقیناً ریلوے پر سفر کرنے والے مسافروں پر پڑے گا۔

منظور رضی نے زندگی کے 34 سال ریلوے کے محکمے کی نذر کیے۔ وہ برصغیر میں ٹریڈ یونین تحریک کے بانی مرزا ابراہیم کی قیادت میں ریلوے کے مزدوروں کو منظم کرنے کی تحریک کا حصہ بنے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریلوے کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ مال گاڑیاں ہیں۔ یہ مال گاڑیاں تاریخی طور پر ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک محفوظ طریقے سے سامان پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

مگر پرویز مشرف کے دور میں مال گاڑیوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور مال گاڑیاں کھینچنے والے انجن ان ریل گاڑیوں میں لگادیے جو نام بدل کر شروع کی گئی تھیں، یوں ریلوے کا خسارہ بڑھنا شروع ہوا۔ یوسف رضا گیلانی کے دور میں ریلوے شدید بحران کا شکار ہوا۔ منظور رضی کہتے ہیں کہ کراچی سٹی سے دھابے جی تک صبح ریل گاڑی چلانے کا زوردار اعلان ہوا مگر اس کا کرایہ 70 روپے رکھا گیا۔

یہ ریل گاڑی پہلے ریلوے کے ملازمین کو پپری یارڈ لے جاتی ہے، یوں زیادہ کرایہ اور غلط اوقات کار کی بناء پر یہ گاڑی مسافروں کی توجہ حاصل نہ کرسکی۔ منظور رضی کہتے ہیں کہ کسی دانا افسر کے مشورے پر اس گاڑی کو شاہ لطیف ایکسپریس میں تبدیل کر کے اس کا آخری اسٹاپ میرپورخاص کردیا گیا، یوں کراچی سے میرپور خاص جانے اور میرپور خاص سے کراچی آنے والے مسافروں کی بھاری تعداد اس ریل گاڑی سے مستفید ہورہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ موجودہ انتظامیہ نے صرف پنجاب میں 10 گاڑیاں چلائیں مگر ان میں خراب ڈبے لگائے گئے اور یہی وجہ تھی کہ لاہور سے میانوالی کے لیے چلائی جانے والے گاڑی حادثے کا شکار ہوئی۔ منظور رضی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے سندھ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ اس وقت کراچی سے دادو اور بدین جانے کے لیے کوئی ریل گاڑی دستیاب نہیں ہے۔ پاکستان میں اس وقت براڈ گیج سسٹم نافذ ہے۔ انگریز دور حکومت میں ہندوستان میں بھی اسی سسٹم کے تحت ریل گاڑیاں چلنا شروع ہوئی تھیں، یوں بھارت میں یہ سسٹم اب تک قائم ہے۔ اسی طرح ایران میں بھی ریل گاڑیاں براڈ گیج سسٹم پر چلتی ہیں۔

موجودہ وزیر ریلوے کہتے ہیں کہ اب نیا اسٹیندرڈ گیج سسٹم نافذ کیا جائے گا۔ یہ سسٹم پورے ایشیا میں نہیں ہے بلکہ کچھ یورپی ممالک میں یہ سسٹم نافذ ہے۔ منظور رضی اس خوف کا شکار ہیں کہ پاکستانی ریلوے کی گاڑیاں اس سسٹم کے تحت بھارت اور ایران تک جاتی ہیں۔ نئے سسٹم کی تعمیر میں برسوں لگیں گے اور پھر پاکستان ریلوے کی گاڑیوں کے بھارت اور ایران جانے میں مشکلات پیدا ہونگی۔

ہندوستان میں 18ویں صدی کے وسط سے ریل گاڑیاں چلنا شروع ہوئیں۔ پہلے کلکتہ سے دہلی تک ریل چلنے لگی، پھر کلکتہ، بمبئی اور لاہور تک ریل چلی۔ پھر یہ ایک طرف کوئٹہ، دوسری طرف پشاور اور تیسری طرف کراچی تک پھیل گئی۔ پھر ہندوستان کے بیشتر صوبے ریل گاڑی کی پٹری سے منسلک ہوگئے۔ لاہور میں قیام پاکستان سے قبل مغل پورہ ریلوے ورکشاپ قائم ہوئی۔ اس میں ریلوے ڈبے اور ریل کے انجن تک بننے لگے۔

ہندوستان کے بٹوارے کے بعد بھارت میں ریلوے کی اہمیت کو محسوس کیا گیا، یوں ریلوے لائن اٹاری سے کالی کٹ تک پھیل گئی۔ نئی ریل گاڑیاں چلیں، مسافروں کی سہولتوں میں اضافہ ہوا۔ یوں ریل بھارت کی معیشت کا ایک اہم جز بن گئی مگر قیام پاکستان کے بعد ریل کی ترقی پر توجہ نہیں دی گئی۔ ریلوے کو کرپٹ بیوروکریسی کے سپرد کیا گیا، یوں ریلوے کی کارکردگی متاثر ہونے لگی۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی سے پشاور متبادل ٹریک کی تعمیر عرصہ دراز تک خواب ہی رہی۔

جنرل ضیاء الحق کا دور ریلوے کے لیے بھی سیاہ ترین دور تھا۔ ریلوے میں کرپشن اور اچھی طرز حکومت ناکام ہونے سے سارا نظام فیل ہونے لگا۔ برسر اقتدار حکومتوں نے ریلوے کے حالات کو بہتر بنانے کے بجائے اپنے حامیوں کے روزگار کا ذریعہ بنایا، یوں بغیر منصوبہ بندی کے بھرتیوں سے ریلوے کے خسارے میں اضافہ ہوا۔ پھر سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں چین سے 69 انجن درآمد کیے گئے۔ یہ انجن ناقص انجنیئرنگ کا شاہکار تھے۔ ان میں سے 40 انجن بغیر چلے ہی ناکارہ ہوگئے۔ ریلوے کے اربوں روپے ان انجنوں کی خریداری پر خرچ ہوئے تھے۔ اس زمانے میں ان انجنوں کی خریداری پر کمیشن کے الزامات لگے۔

احتساب کے ادارے نے کچھ تحقیقات بھی کی مگر کسی طاقتور کا احتساب نہ ہوا۔ اس زمانے میں ریل گاڑیوں کے انجن راستے میں خراب ہوئے، ڈبوں کی قلت، ڈبوں میں بجلی اور پانی کی سہولتوں کے فقدان اور ریلوے کی ڈائننگ کاروں میں ناقص کھانے کی  فراہمی کی شکایات عام ہوئیں۔ پھر پیپلز پارٹی کا تیسرا دور حکومت ریلوے کی تباہی کا دور رہا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی غلام نبی بلور ریلوے کے وزیر بنے۔ ان کے دور میں مال گاڑیوں سمیت کئی گاڑیاں چلنا بند ہوگئیں۔ کراچی سے لاہور جانے اور واپس آنے والی گاڑیوں کا دورانیہ چار چار دنوں تک پھیل گیا۔

مگر نواز شریف کے دور میں خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کی بحالی کے لیے نئے اور مؤثر اقدامات کیے، یوں رکی ہوئی ریل گاڑیاں چلنے لگیں۔ ریلوے انجن کے راستے میں فیل ہونے کی شرح کم ہوگئی۔ اب ریل گاڑیاں وقت پر اپنی منزل پر پہنچنے لگیں مگر متبادل ٹریک کی تیاری، ملک میں ریلوے انجن اور جدید ڈبوں کی تیاری کے معاملے پر کچھ نہ ہوا۔ موجودہ حکومت میں شیخ رشید نئے دعوؤں کے ساتھ میدان میں آئے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے 100 دن مکمل ہونے پر وفاقی کابینہ کا طویل ترین اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں شیخ رشید کو پورے سو نمبر دیے گئے۔ مگر جس وقت وفاقی کابینہ میں شیخ رشید کی ستائش ہورہی تھی اسی وقت بہت سے لوگ ریل گاڑیوں میں چوہوں کی بھرمار کی خبریں پڑھ کر ریلوے میں سفر نہ کرنے کا فیصلہ کررہے تھے۔ ریلوے کے ڈبے اب بھی روشنی کے بلب اور صفائی سے محروم ہیں۔ گاڑیاں اب بھی وقت پر اپنی منزل پر نہیں پہنچ پاتیں۔ انجن راستے میں فیل ہوجاتے ہیں۔ صفائی، روشنی اور پنکھوں کی فراہمی اور ریلوے کے حالات بہتر بنانے کے بارے میں کچھ نہیں سوچا جارہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔