فائلر نان فائلر

سید نور اظہر جعفری  جمعـء 21 دسمبر 2018

شادی دوسرے گاؤں میں طے پائی، رواج کے مطابق یہ طے تھا کہ لڑکی والے عین وقت پرکوئی ایسی بات کریں گے جس سے لڑکے والوں کا مان ٹوٹے اور انھیں ہار ماننے کا اعلان کرنا پڑے۔ پھر یہ قصہ سینہ بسینہ نسلوں تک سنایا جائے اور لوگ یاد کرکے ہنسیں اور ہنسی اڑائیں۔ یہ دلچسپ اور بے ضرر رسمیں تھیں اور ان کا مقصد لوگوں کو ہوشیارکرنا اور تعلیم دینا تھا اور ذہین لوگ یہ مقابلہ جیت بھی لیا کرتے تھے۔

اب گاؤں والوں کو فکر ہوئی تاریخ قریب آرہی تھی وہ لوگ کیا کہیں گے کیا مطالبہ ہوگا کوئی سن گن نہیں۔ جاسوس دوڑاتے وہ بھی ناکام۔ لڑکی والوں نے چپ سادھ رکھی تھی آخر پنچایت بیٹھی وہ آج کی مفاد پرست پنچایت نہیں تھی ہمدرد مخلص لوگ ہوتے تھے، پورے گاؤں کا درد محسوس کرنے والے بہت غوروخوض کے بعد فیصلہ کیا گیا اور دوسرے گاؤں والوں کو اپنے آنے کے طریقے کا بتادیا گیا اور تیاری شروع ہوگئی ۔

مقررہ دن پر لڑکے والے بارات لے کر پہنچے تو بارات میں دوسرے سازوں کے علاوہ ایک بڑا ڈھول بھی تھا جس کو پیر ڈھول کہا گیا اور اسے بہت احترام سے دلہا والے درمیان میں رکھ کر بیٹھ گئے۔ لڑکی والوں سے پوچھا گیا کیا مطالبہ یا شرط ہے۔ انھوں نے کہا بارات کو 50 بکروں کا گوشت کھانا ہے۔

لڑکے والوں نے خاص انداز سے ڈھول کی طرف رخ کیا کہ کسی کو احساس نہ ہو اور کچھ دیر کی خاموشی کے بعد انھوں نے لڑکی والوں سے کہا منظور ہے مگر ہماری بھی چند شرطیں ہیں۔ روٹی تازہ پکائی جائے گی اور پکاکر کھانے والوں کو دی جائے گی ایک روٹی کے بعد دوسری روٹی۔ رائتہ، سرکہ دسترخوان پر ہو ایک ایک بکرا پکایا جائے اور دیا جائے۔ لڑکے والے ماننے پر مجبور ہوتے یوں 50 بکرے بارات چٹ کرگئی، ایک روٹی کے دس نوالے ہوتے منٹوں میں ختم ہوجاتے، ایک بکرے کے بعد دوسرا بکرا آنے میں ٹائم لگتا اور یوں قصہ تمام ہوا ، بارات کامیاب لوٹی۔ اصل بات کیا تھی اس بارات میں سیانے سے مشورہ اور اس کی آمد ممنوع تھی ۔ لہٰذا لڑکے والے ایک سیانے کو مصنوعی ڈھول میں ساتھ لے گئے تھے اور ترکیب اس نے بتائی تھی پس سیانوں کی ضرورت پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ہے۔

60 سال ملازمت کرکے نا اہل اور کام چور کا بھی عہدہ ہوجاتا ہے مگر پاکستان میں 60 سال پورے کرنے والے کو بے کار سمجھ لیا جاتا ہے اور افسوس یہ ہے کہ اسے ہر سہولت سے محروم کردیا جاتا ہے اور پیشتر کو عزت کے بجائے ذلت ملتی ہے جب کہ دنیا بھر میں پیشتر کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ دنیا بے شعور نہیں ہے، دنیا ہے۔

ٹیکس دنیا بھر میں پینشنرز یا سینئر سٹیزن سے نہیں لیا جاتا یا برائے نام لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ڈاری معیشت اب بھی چل رہی ہے سینئر سٹیزن سے ان کے پنشن کے اکاؤنٹ سے ہر قسم کے ٹیکس کاٹے جا رہے ہیں۔ صداکاروں، رائٹرزکے حقیر معاوضوں میں سے اکیس فی صد ٹیکس کاٹا جا رہا ہے اور وہ بے چارے بھوکے مر رہے ہیں۔کام ملتا نہیں کہ سارے سیاست دان خود بڑے ایکٹر ہیں، شام سات سے رات بارہ بجے تک ان کے ڈیلی شو چل رہے ہیں۔ ڈرامے کون دیکھے یہی ہیرو، ولن، ہیروئن اور ویمپ ہیں سابقہ ظالم حکمرانوں کے دورکے ٹیکس قوانین چل رہے ہیں عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔

ٹیکس جب تک ملازمت کی، عوام نے دیا، ریٹائر ہوکر بھی ٹیکس سے جان نہ چھوٹی فائلر تھا نان فائلر ہوگیا۔کیا بکواس ہے اور ملازمت کرنے والے ریٹائرڈ لوگوں پو کیوں لازم ہے۔ زندگی بھر ٹیکس دیا جوکچھ ملا اب اس پر ٹیکس دو۔ یہ ٹیکس سسٹم ختم ہونا چاہیے اور یہ تجارت پیشہ لوگوں، ڈاکٹروں پر نافذ کیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر فیس کی رسید جاری کریں تاکہ ٹیکس نیٹ میں آئیں یہ جال آپ نے عمر رسیدہ اور کمزوروں کے لیے تیار کیا ہے۔ ٹیکس لیجیے یکساں شرح سے نہیں بلکہ حیثیت کے مطابق مل اونر سے بھی وہی ٹیکس مزدور سے بھی GST کی صورت وہی ٹیکس یہ کیا انصاف ہے سب بااختیار خاموش تماشائی ہیں۔

یہ سچ ہے بے شک مجھ پرکوئی بھی آرٹیکل لگادیں میں اپنے لفظوں کو OWN کرتاہوں اخبار سے اس کا تعلق نہیں۔ فنکاروں کو ہمارا معاشرہ بھانڈ سمجھتا ہے ان کو وہ عزت نہیں دی جاتی جس کے وہ مستحق ہیں اور جن کو مل گئی وہ بھی پر غرور ہیں انھیں بھی کل سے ڈرنا چاہیے۔ حکومت کو ادیبوں، شاعروں، استادوں، فنکاروں، پینشنرزکی عزت کرنی چاہیے اور ان سے ٹیکس یا تو نہ لیں یا کم سے کم شرح کریں زیادہ سے زیادہ دو تین فی صد اگر وہ اس کے علاوہ مالدار ہوں تو ضرور ٹیکس لیں، اگر وہ اپنے کھاتے میں کسی کو ناجائز فائدہ پہنچائیں تو ٹیکس بھی لیں سزا بھی دیں۔ لوگ ایسے بھی ہیں ہم جانتے ہیں۔

اشفاق احمد خان ماسکو میں پڑھاتے تھے۔ ٹریفک کی خلاف ورزی پر چالان ہوا، دوسرے دن عدالت گئے، چالان کی رقم جمع کرانے، وہاں پولیس سمجھوتے نہیں ہوتے یہ انڈیا پاکستان کے شاہکار ہیں تو ان سے پوچھا گیا آپ کیا کرتے ہیں ۔ انھوں نے کہا میں ٹیچر ہوں ، جج کرسی سے کھڑا ہوگیا ، ان کو ادب سے کرسی پیش کی اور معذرت کی کہ آپ کو یہاں آنا پڑا جرمانہ معاف کردیا یہ کہہ کر کوئی ٹیچر قانون نہیں توڑ سکتا، یہ اتفاق ہوسکتا ہے ہمارے ملک میں یقینا ایسے اچھے لوگ ہر جگہ ہوںگے مگر ناکام کیونکہ یہ ایک جعلی دھوکے باز لوگوں کا معاشرہ ہے جس کا انہدام ضروری ہے۔

میں نے ایک مسودہ سرکاری کتب شایع کرنے والے کو دیا، دو ہزار روپے معاوضے کا چیک بینک میں جمع کرایا کل رات میسج کے ذریعے خوش خبری ملی کہ سترہ سو روپے آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیے گئے ہیں۔ مسودہ لکھ کر غلطی کی کہ تین سو روپے جرمانہ بھرنا پڑا۔ آخرکار عمر بھرکی کمائی سے مکان خریدا، بینک سے حق حلال کی کمائی سیلری اکاؤنٹ سے نکلوائی 400 روپے فی لاکھ نکلوانے پر اپنی ذاتی رقم پر زندگی بھر کی کمائی پر 72 سال کی عمر میں ٹیکس دینا پڑا۔

ظلم کا بازار گرم ہے اسے بند ہونا چاہیے۔ آپ رشوت خوروں کا کچھ نہیں بگاڑسکے نہ بگاڑ سکیںگے پورا معاشرہ کرپٹ ہے مگر آپ کم از کم غریبوں کو ظلم سے نجات دلوایئے، قانون میں ترمیم کیجیے، شریفوں کو جینے دیجیے یہی تبدیلی بہت ہوگی اگر آپ بھی اس ظالمانہ قانون فائلر نان فائلر کو درست نہیں کریںگے تو آپ بھی اﷲ کے یہاں فائل ہوجائیںگے یاد رکھیے گا یہ ایک دیوانے کی بات ہے۔

موجودہ حکومت کو خود اپنے کاموں، قوانین کا فوری احتساب کرنا چاہیے۔ چوہدری ٹائپ کے لوگوں کو کارنر کردیں صحیح لوگوں کو سامنے لائیں اور انصاف کریں۔ ہر جگہ انصاف، عدلیہ کو بھی نوٹس لینا چاہیے۔ ظالمانہ قوانین ختم کرنے کا حکم دیں۔ ڈیم ضروری ہیں مگر انصاف اس سے زیادہ ضروری ہے، فوری اور سستا، ہر ایک بڑے وکیلوں کی فیس نہیں دے سکتا ان کے بغیر بھی عوام کی بات سنیں اور حق کے فیصلے کریں میں سچ اور صرف سچ بولتا اور لکھتا ہوں۔ تحریر کا معاوضہ نہیں لیتا۔ وہ دینا نہیں چاہتے میں ضد نہیں کرتا۔ اﷲ کو بھی رازق سمجھتاہوں اور آپ کو منصف تو فیصلہ کریں تین ماہ کی پنشن بھی ریڈیو نے میری نہیں دی اب آپ کو درخواست دوںگا، میں عوام ہوں عوام میں رہتاہوں Reaction بھی عوامی ہے۔ ملک کے مالک عوام ہیں حکمران نہیں۔ یہ خیال ہے اور اس پر سختی سے قائم ہوں۔ حکومت اور عدلیہ دونوں فیصلہ کریں عوام کی مشکل حل کریں تاکہ عوام چین کا سانس لیں۔ (انشا اﷲ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔