چشم بینائے قوم ، ذرائع ابلاغ

قمر عباس نقوی  ہفتہ 12 جنوری 2019

صد افسوس ! گزشتہ دنوں صحافتی دنیا کا انمول درخشندہ ستارہ جو چند ہی ایام قبل ’’ مقتدا منصور‘‘ کے نام سے آسمان پر چمک رہا تھا اچانک گل ہوگیا۔ یقینا مقتدا منصورکی اچانک رحلت دنیائے صحافت کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ان کا مجموعی عرصہ حیات 68 سال رہا ، لیکن پھر بھی وہ اپنی صلاحیتوں کا سکہ اس قلیل عرصے میں منوا گئے۔ ان کی صحافتی کار زار میں گرانقدر خدمات کو کسی بھی لمحہ فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

وہ نہ صرف ایک سینیر صحافی، ادیب، نقاد ، محقق، منجھے ہوئے تجزیہ نگار،کالم نگار ہی نہیں تھے بلکہ لوگوں سے وسیع القلبی کے ساتھ ملنے جلنے کا ڈھنگ خوب جانتے تھے۔ اپنی پیشہ ورانہ صحافتی سرگرمیوں کے اعتبار سے ان کا حلقہ احباب خواہ وہ سیاسی ہو، معاشرتی ہو، سماجی ہو یا ادبی ، بہت وسیع تھا۔ لوگوں کی غم وخوشی دونوں میں اپنی موجودگی کو یقینی بناتے تھے۔ اپنی گونا ںگوں صحافتی مصروفیت کے باوجود انھوں نے خود کو اپنے گھرکی چار دیواری میں محدود نہیں کیا تھا۔

تاریخ برصغیر پاک و ہند پرگہری نظر رکھنے کے حوالے سے تاریخ کے نشیب وفراز سے بھی خوب واقف تھے، بلکہ وہ تاریخ پر عبور رکھنے کی نسبت سے مستند تاریخ کی جامع لغت کہلائے جانے کے مستحق تھے۔ روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹوریل میں ’’صدائے جرس ‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہونے والے کالمز عوام میں خاصے مقبول رہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے درجات میں بلندی عطا فرمائے۔(آمین)

بقول جیمزایلس ’’ اخبار دنیا کی شکل کو منعکس کرنے والے آئینے ہوتے ہیں‘‘ آ ج کل اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر جو عتاب آیا ہو ا ہے،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب صحافت مقدس شعبے کی بجائے کاروبارکی شکل اختیارکرچکا ہے، جا بجا چھوٹے چھوٹے اخبارات کا اجرا وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے کاروبارکو دوام بخشنے کے لیے صحافت کا دامن پکڑ لیتے ہیں جب کہ ان کا دور دور تک صحافت کا تعلق ہرگز نہیں ہوتا۔

حال ہی میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے ڈاؤن سائزنگ کے نتیجے میں سیکڑوں کی تعداد میں عملے کو بے روزگارکیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ا خباری شعبہ ایک مخصوص قسم کا ورک اسائینمیٹ ہے، اس کام کی زندگی کے کسی بھی دوسرے شعبوں میں کھپت یا نعم البدل نہیں ہوسکتی، لہذا وقت کا تقاضہ ہے کہ انسانی ہمدردی کے تحت ان کے حال پر رحم کیا جائے، درحقیقت یہ معاشرے کا بڑا مظلوم طبقہ ہے۔

قارئین کی یاد داشت کے لیے عرض ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ریاستی سر پرستی میں چلنے والے ٹی وی نے زندگی کے تمام اہم شعبوں کو اپنے پہلو میں سمیٹ کر رکھا ہوا تھا۔ صحافت، شعروادب، تعلیمی، علمی، سماجی، انڈور یا آوٹ ڈورکھیل کے میدان کا معاملہ ہو یا تفریح وطبع کے لیے اصلاحی ڈرامے جو صحافت کا نعم البدل بھی ہوا کرتے تھے اور معاشرے میں رو نما ہونے والے حالات و واقعات اور ان کی اصلاح کی تلاش جیسے امور سر انجام پاتے تھے۔

غرض تیار کیے گئے پروگرام بڑے جامع ، معیاری اور دلچسپی کے اعتبار سے عوام میں بے پناہ مقبولیت کے حامل ہوا کرتے تھے، جس کی بنیادی وجہ تھی کہ یہ تمام پروگرامز قابل اور تجربہ کارعملے کی بدولت بڑی محنت سے تیار ہوتے تھے۔ پروگرامزکی ریکارڈنگ کے لیے ٹی وی کے اپنے جدید کیمرے اور حساس آلات کے ساتھ ساتھ ڈیزائن یافتہ دلکش کشادہ اسٹوڈیوز تھے۔ قابل غور ہے یہ امرکہ اس زمانے میں ان پروگرامز پر آنے والے مجموعی اخراجات حکومت پاکستان برداشت کیا کرتی تھی۔

یکایک حالات نے کروٹ لی اور پیداواری معروف کمپنیوں نے شہرت کے حصول کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا سہارا لیا اور اپنی کمپنی کی تیار کردہ اشیا کی تشہیر کے لیے بے دریغ سرمایہ اس مقصڈ کی نذر کیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ان کمپنیوں نے شہدکی مکھی کے چھتے کی طرح الیکٹرانک میڈیا کو اپنا مسکن نجات بنا لیا۔  چلتے پروگرام کے دوران پندرہ سے بیس منٹ کا اشتہاری وقفے کا باقاعدہ آغاز ہوگیا جو نہ صرف پروگرام کی افادیت واہمیت کو پارہ پارہ کر بیٹھا بلکہ الیکٹرانک  میڈیا پر کمپنیوں کے اشتہارات کے پروموز کی تیاری کے لیے مختلف مارکیٹنگ کمپنیوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔  نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی وی نے ایک منافع بخش صنعت کی  شکل  اختیار کر لی۔

شریفوں کا اقتدار آیا تو سب سے پہلے وہ ادارے جو ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں قومی تحویل میں لیے گئے تھے ، نجی کمیشن کے ذریعے ان اداروں کی فروخت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بعد میں آنے والوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور انھوں نے میڈیا کو ایک منافع بخش کاروبار سمجھتے ہوئے اس کو وسعت دینی چاہی اور نجی سطح پر نیوز چینلزکے کھولنے کی اجازت دے دی ۔ اب ہم اپنی قومی زبان اردو بھول چکے ہیں اور انگریزی کا سبق ہم نے بہت اچھی طرح سے یاد کر لیا ہے۔ اب تو ریموٹ کا دور ہے۔ منٹ سیکنڈوں میں چینل بدلتے رہ جائیں گے مگر آپ اپنی دلچسپی کے پروگرام کی تلاش میں بری طرح ناکام ہوجائیں گے۔

اب ہم پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات کی اہمیت و افادیت کی طرف نظر ڈالتے ہیں۔ بقول جیمز ایلس ’’اخبار دنیا کی شکل کو منعکس کرنے والے آئینے ہوتے ہیں ‘‘ جدید ترقیاتی تبدیلیوں نے کاغذی اہمیت کوکسی حد تک متاثر توضرورکیا ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ کاغذکی اہمیت ماضی کی ضرورت رہی ہے اور مستقبل میں بھی انشااللہ رہے گی ،کیونکہ ہم حقیقت کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ دنیا گول ہے۔

اخبار تو خبروں کے مجموعے کا نام ہی تو ہے اور خبر کے لیے عام فہم زبان میں پریس کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں صحافت یا پریس کی تعلیم کی شناخت لفظ ابلاغ عامہ ہوا کرتی تھی لیکن الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے اس کی ہیت ابلاغ عامہ سے تبدیل ہوکر ماس کمیونیکیشن نے لے لی اور یوں پریس کا نام بھی بدل کر پرنٹ میڈیا مشہور ہوگیا۔

خبریں چھاپنا اور تازہ ترین صورتحال سے عوام کو باخبر رکھنا اور رونما ہونے والے حالات و واقعات پر اخبارات تنقید وتبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہارکرنا پریس کی بنیادی ذمے داریو ں کا احاطہ کرتی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کسی زمانے میں اہم خبرکی اشاعت ایک صفحے پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور ہاکرز بلند آواز میں گلی محلوں میں اس خبر کی سرخی کی صدائیں لگایا کرتا تھا جسے عرف عام میں ’’ضمیمہ ‘‘ یا supplement  کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں الیکٹرونک میڈیا اتنا فعال نہیں ہوا تھا جتنا کہ آج ہے۔

کسی بھی ملک میں ہر عام آدمی کو رائے کے اظہار کی آزادی کا بنیادی حق ہی دراصل درست پیرائے میں جمہوری عمل ہے کیونکہ آزادی تحریر و تقریر کے بغیر قومیں گلاب کے اس پودے کی طرح مر جھا جاتی ہیں جو ایسی جگہ رکھا ہو جہاں اسے دھوپ اور ہوا میسر نہ آئے۔اسی لیے شاعر مشرق اور تصور پاکستان کے خالق علامہ محمد اقبال اپنے آخری اور ابدی سانسوں تک اس کا برملا اظہار کچھ ان مختصر الفاظ میں ادا کرگئے ’’ذرایع ابلاغ چشم بینائے قوم ہیں ۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔