انٹرنیٹ یا علم و تحقیق کی چوری

رئیس فاطمہ  ہفتہ 27 جولائی 2013

ایک صاحب جو بڑی کثرت سے انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے تھے، ان سے کسی نے ایک دن پوچھا ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘۔۔۔۔۔ انھوں نے ترنت جواب دیا ’’ابھی انٹرنیٹ پہ دیکھ کے بتاتا ہوں‘‘ ۔۔۔۔۔ کہنے کو تو یہ ایک لطیفہ ہے لیکن موجودہ حالات میں ہمارے پورے قومی مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارا قومی مزاج کیا ہے؟ محنت، مشقت، عرق ریزی، لگن اور جستجو سے فرار، مطالعہ نہ کرنا، تجزیے سے دور بھاگنا، تحقیق نہ کرنا بلکہ دوسروں کے کام کو ’’چوری‘‘ کر کے اپنے نام سے فخریہ شائع کرانا اور شرمندہ بھی نہ ہونا۔ اسی کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔ جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسنا۔ خواہ پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہو، کوئی تنقیدی مضمون ہو، علمی ادبی یا فلمی معلومات ہوں، انٹرنیٹ آپ کو ہر طرح کا پکا پکایا حلوہ فراہم کر دے گا۔۔۔۔۔ اور تو اور اب تو ’’نامی گرامی‘‘ تجزیہ نگار، کالم نویس اور صحافی سب اسی کے اسیر۔ بقول میر تقی میرؔ:

ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

سب  اسی  زلف کے اسیر ہوئے

ایسی تحریریں خواہ وہ کالم ہوں یا دیگر اصناف صاف طور پر پہچان لی جاتی ہیں کہ اس ’’پردہ زنگاری‘‘ میں اصل چہرہ کس کا ہے؟ خاص طور پر جن تحریروں میں بہت سارے سن اور تاریخیں نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ محنت تو کسی اور کی تھی۔ صرف ترجمہ کسی اور کا ہے۔ اگر میں کہوں کہ یہ اخلاقی چوری ہے تو غلط نہ ہو گا۔ انٹرنیٹ پہ دی گئی معلومات نے بے شک بہت سی آسانیاں پیدا کر دی ہیں لیکن یہ ایک عالمگیر چوری میں ممد و معاون بھی ہو رہا ہے۔ کمپیوٹر کے آنے سے پہلے طالب علم اور اساتذہ مختلف کتابوں سے مواد اخذ کر کے نوٹس بناتے تھے۔ ادیب اگر کوئی تحقیقی کام کرتا تھا اور کسی کے ادبی کام سے استفادہ کرتا تھا تو حوالہ دیا کرتا تھا۔ لیکن اب یہ چلن ختم ہو گیا ہے۔ کمپیوٹر آن کرو اور جو چاہو معلومات انٹرنیٹ سے حاصل کر لو۔ مجھے تو لگتا ہے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا حد سے زیادہ استعمال بہت جلد طالب علموں کے ہاتھوں سے قلم اور کاغذ چھین لے گا۔

جو لوگ نہایت دیدہ دلیری سے انٹرنیٹ سے مواد چوری کر کے اپنے نام سے معمولی رد و بدل کر کے چھپوا دیتے ہیں، انھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی چوری پکڑی بھی جاتی ہے اور وہ خوار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے سر پہ کسی سیاسی جماعت، یا کسی بھی ’’گاڈ فادر‘‘  کا ہاتھ ہوتا ہے۔ انھیں ’’چمک دمک‘‘ کے کاروبار سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے کہ ان کی چوری پکڑ لی گئی ہے۔ ان کا مطمع نظر ہے ’’کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔

’’صحافت صنعت نہیں بلکہ مشن ہے‘‘ اب تو یہ جملہ بھی کہیں لکھا نظر نہیں آتا۔ انٹرنیٹ نے تمام تخلیقی صلاحیتوں کو سلب کر لیا ہے۔ قارئین بھی بہت ہوشیار ہیں۔ خواہ اخبارات کے صفحات ہوں یا کوئی ادبی پرچہ، انٹرنیٹ سے چوری شدہ مواد کو وہ فوراً پہچان لیتے ہیں۔ بعض قلم کار تو اس واردات کے خاصے ماہر مانے جاتے ہیں۔ کہیں کا سفر نامہ ہو یا کوئی بھی معلوماتی مضمون۔ انٹرنیٹ ہر جگہ ان کی مدد کے لیے موجود ہے۔ ایسے ایسے کاریگر لوگ بھی موجود ہیں جو اصل مسودے میں مقامی رنگ بھر کر سمجھتے ہیں کہ وہ اس تحریر کے خالق ہو گئے۔ بس ہر طرف ’کاتا اور لے دوڑی‘ کا معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بڑے لوگ پیدا نہیں ہو رہے۔ وہ اپنی آنکھیں چلاتے تھے، مطالعہ کرتے تھے، تحقیق کرتے تھے، بلکہ ریاضت بھی کرتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی کے زمانے میں تو کمپیوٹر تھا نہ انٹرنیٹ!! ان کا تمام تحقیقی کام ان کی اپنی جستجو اور تحقیق کا نتیجہ تھا۔ محمد حسین آزاد، مہدی افادی، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی یہ سب آسمان ادب کے درخشندہ ستارے ہیں۔ لیکن کیا آج ان کا کوئی نعم البدل ہے؟

چلیں اور قریب آ جاتے ہیں۔ مولوی عبدالحق، مشفق خواجہ، ڈاکٹر سلیم اختر، انور سدید، فیض احمد فیض، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر سید عبداﷲ کا کوئی ثانی ہے؟ یہ وہ نام ہیں جو تحقیق، تنقید اور جستجو کے میدان کے شہسوار ہیں۔ لیکن ہماری نئی نسل کیا کر رہی ہے؟ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ آئندہ آنے والے برسوں میں کاغذ اور قلم ماضی کی بات ہو جائے گا، بالکل ایسے ہی جیسے آج تختی، سرکنڈے کا قلم اور دوات قصہ پارینہ بن گئے۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں اور بڑوں کو وہ نسل جنھوں نے تختی لکھی ہے، ان کی تحریر دیکھیے تو جیسے موتی جڑے ہوں، الفاظ صاف ستھرے نگینے کی طرح جڑے ہوئے، اور اس کے بعد G نب اور Z نب۔ G  نب انگریزی کے لیے اور Z نب اردو لکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پانچویں جماعت تک روزانہ دو صفحے انگریزی کے اور دو صفحے اردو کے خوش خطی کے لکھنے لازمی تھے تا کہ تحریر پختہ ہو اور ہاتھ جما کر لکھنا آئے۔۔۔۔۔ اسکولوں، کالجوں میں صرف پنسل اور فاؤنٹین پین کی اجازت تھی، جسے اب بال پوائنٹ کھا گیا۔

نئی نسل کی تحریر دیکھیے تو جیسے کیڑے مکوڑے بے ترتیب بکھرے پڑے ہوں۔ رہی سہی کسر کمپیوٹر نے پوری کر دی، اب پین اور پنسل کے بجائے انگلیاں ’’ماؤس‘‘ چلانے کی عادی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب استاد بھی ایک فالتو شے بن جائے گا۔ ریکارڈڈ لیکچر، لیپ ٹاپ کلاس میں طالب علموں کا منورنجن کریں گے۔ کاغذ قلم استعمال کرنے والوں کو قبل مسیح کا کردار سمجھا جائے گا۔ کیا یہ افسوس ناک صورت حال نہیں کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اب کوئی بڑا آدمی پیدا نہیں ہو رہا۔ کیونکہ تخلیق کے سوتے خشک پڑے ہیں۔ اب کوئی ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی جیسا سائنسدان نظر نہیں آتا۔ انٹرنیٹ کی چوری کی برکت سے لاتعداد ’’عالم‘‘ بن رہے ہیں، جنھیں ان کے نام نہاد گائیڈ ریوڑیوں کی طرح ڈگریاں بانٹ رہے ہیں کہ وہ خود اپنی کم علمی اور زر پرستی کی بدولت سرقہ نویسوں  کے سردار بنے بیٹھے ہیں۔ وہ خود اپنے طالب علموں کو سرقے کی ترغیب دیتے ہیں۔

انٹرنیٹ کی اہمیت سے انکار کسی بھی طرح ممکن نہیں۔ تمام اہم انسانی ایجادات کا سہرا ہمیشہ کی طرح انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی ’’اغیار‘‘ کے سر ہے۔ مختلف سرچ انجن اور ویب سائٹس کے ذریعے تمام اہم معلومات کو ایک جادوئی ڈبے میں بند کر دیا گیا کہ ’لو فائدہ اٹھاؤ‘ کہ علم ہی آدم کی میراث ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بعض کاری گروں نے اسے ’’چوری‘‘ تک محدود کر دیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پرنٹ میڈیا کے لیے انٹرنیٹ اتنا ہی ضروری ہے جتنا سانس لینا۔ لیکن وہاں معاملہ دوسرا ہے۔ اخباری دنیا کے لوگوں کو اپنے قارئین کو تازہ ترین اور مختلف معلومات فراہم کرنے کے لیے انٹرنیٹ سے مدد لینا پڑتی ہے۔ لیکن وہ کہیں بھی اس اخذ کردہ مواد کو اپنے نام سے شائع نہیں کرتے۔ وہ انگریزی زبان سے معلومات کو صرف اردو میں ترجمہ کرتے ہیں، اسے اپنی تخلیق نہیں بتاتے۔ دیگر زبانوں کے اخبارات بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ آج کی دنیا میں اخبارات کے صفحات کے لیے انٹرنیٹ لازمی اور ضروری ہے۔

اسی بات کا افسوس ہے کہ ابتو سوچنے کے لیے بھی انٹرنیٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے کہ یہ سہل اور آسان ہے پھر بھی وہ لوگ ابھی موجود ہیں جن کے ذہن بنجر نہیں ہوئے، تخلیق کا ہنر ماند نہیں پڑا، خواہ ڈبوں میں بند برانڈڈ کھانوں کی تعداد کتنی ہی بڑھ جائے، لیکن گھر کے تازہ کھانے کی بات ہی اور ہے۔ لیکن معاشرے میں جس طرح دو نمبر کے آدمی نے قد و قامت نکالی ہے اور ایوارڈ پائے ہیں اس سے ڈر لگتا ہے کہ اصلی آدمی کہیں ہر شعبے سے غائب ہی نہ ہو جائے۔ اور وہ دن قریب آتا دکھائی دے رہا ہے جب غالب کا سن وفات، اقبال کا سن پیدائش، اقبال بانو کے فن، مہدی حسن کی مشہور غزل جو ان کی گائیکی کی وجہ سے فیض کے بجائے ان سے منسوب ہوئی، محمد علی جناح کی شخصیت، لیاقت علی خاں کا یوم شہادت جاننے کے لیے کوئی بچہ ہاتھ نہیں کھڑا کرے گا کیونکہ اس کے پاس کمپیوٹر ہو گا اور ان سب کے جواب انٹرنیٹ دے گا۔۔۔۔۔ کیا پتہ والدین اپنے بچوں کے نام جاننے کے لیے بھی انٹرنیٹ سے مدد لیں۔۔۔۔۔؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔