پلوامہ حملہ، تیسری قوت کی کارستانی؟

حامد الرحمان  پير 25 فروری 2019
ظلم سہتے سہتے کشمیریوں میں موت کا خوف ختم ہوگیا لیکن بھارت ایک ہی کاری حملے پر بلبلا اٹھا فوٹو:فائل

ظلم سہتے سہتے کشمیریوں میں موت کا خوف ختم ہوگیا لیکن بھارت ایک ہی کاری حملے پر بلبلا اٹھا فوٹو:فائل

مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں بھارتی فوج پر سب سے بڑے حملے نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کے بعد خطے میں دو پڑوسی ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

اس حملے میں کون سی طاقت ملوث ہے؟ اس کے بارے میں تین ممکنات ہیں۔ اول یہ حملہ پاکستان نے بھارت کو غیر مستحکم کرنے کےلیے کرایا۔ دوم بھارت میں الیکشن کی آمد آمد ہے تو مودی حکومت نے خود یہ حملہ کرایا تاکہ جنگی ماحول پیدا کرکے انتخابات میں فتح کی راہ ہموار کی جاسکے۔

تیسرا پہلو یہ ہے کہ کام اس ’’تیسری عالمی قوت‘‘ کا ہے جو بھارت اور پاکستان دونوں کی دشمن ہے اور دونوں کے ہی درپے ہو؛ اور وہ تیسری قوت ایک تیر سے کئی شکار کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

پاکستان کا ہاتھ

پاکستان پر پلوامہ حملے میں ملوث ہونے کا الزام قطعی بے بنیاد ہے۔ اول تو پاکستان کشمیریوں کی صرف اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کرتا ہے جبکہ عسکری حمایت اگر واقعی تھی بھی تو مشرف دور میں اس کا سلسلہ مکمل طور پر بند ہوچکا ہے۔

پاکستان کیوں ایسے اہم موقع پر حالات خراب کرے گا جب سعودی ولی عہد مالی منصوبوں کے ساتھ پاکستان کا دورہ کررہے ہوں، پاکستان سپر لیگ جاری ہو اور ایف اے ٹی ایف کا اجلاس بھی ہورہا ہو جس میں پاکستان کا نام دہشت گردی کے معاون ممالک کی فہرست سے نکالنے پر غور کیا جارہا ہے۔ (اس بارے میں مزید چھ ماہ تک پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی ’’گرے لسٹ‘‘ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔) ان تمام حقائق کے پیش نظر، پاکستان کا پلوامہ حملے میں ملوث ہونا ناممکن سی بات ہے۔

بھارت نے ایل او سی کو دنیا کی محفوظ ترین سرحد بنادیا ہے جہاں کوئی چڑیا کا بچہ پر بھی نہیں مار سکتا۔ پوری ایل او سی پر لوہے کے جال لگائے گئے ہیں جن میں برقی رو دوڑتی رہتی ہے۔ اسے مزید محفوظ بنانے کےلیے حرکات و سکنات کی فوری اطلاع دینے والے حرکی سنسرز تک لگائے گئے ہیں جن کے سگنلز ملتے ہی اس جگہ پر فوری چھاپا مار کارروائی کی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ زمین، پانی اور فضا میں نگرانی کےلیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا نظام نصب کیا گیا ہے جس میں لیزر اور حرارت کو محسوس کرنے والا انفراریڈ نظام بھی شامل ہیں۔ ان سارے اقدامات کے نتیجے میں عملاً سرحد پار جانا ناممکن ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ اس حملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے تو اسے ہٹ دھرمی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔

بھارت خود ملوث

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ بھارت نے یہ حملہ خود کروایا تو ایسا بھی ممکن نہیں۔ اس مفروضے کی حیثیت محض سازشی نظریئے (conspiracy theory) سے زیادہ کچھ نہیں۔ دور جدید کا سب سے مشہور سازشی نظریہ یہ تھا کہ نائن الیون امریکا نے خود کرایا۔ اسی طرح اور بہت سے سازشی نظریات ہیں۔ ان کے فروغ میں حکومتیں تک ملوث ہوتی ہیں، خاص طور پر امریکا اور روس طاقتور پروپیگنڈا مشینوں کے مالک ہیں۔

پلوامہ مودی حکومت نے خود کرایا تاکہ الیکشن جیت سکے، یہ محض ایک سازشی نظریئے سے زیادہ کچھ نہیں۔

مودی حکومت کی ناکامی

درحقیقت پلوامہ حملہ بھارتی حکومت کی مکمل سیاسی، انتظامی اور فوجی ناکامی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی 1 کروڑ 20 لاکھ ہے جس پر 7 لاکھ سے زیادہ مختلف بھارتی فورسز تعینات ہیں جن میں فوج، پولیس، سی آر پی ایف، ای پی ایف، اور کمانڈوز شامل ہیں۔ انہیں ہر طرح کا جدید اسلحہ اور کشمیریوں کو کچلنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ پھر چپے چپے پر مقامی مخبروں کا جال بچھایا ہوا ہے جو کشمیری حریت پسندوں کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ اس کے ساتھ جموں میں تو مقامی ہندو آبادی بھی مکمل طور پر بھارت کی حمایت کرتی ہے۔ اتنی تدابیر اور انتظامات کے باوجود، مقبوضہ کشمیر میں عین بھارت کے قلب پر حملہ ہو تو اسے مودی حکومت کی سیکیورٹی ناکامی کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔

حملہ کیسے ہوا

14 فروری کو ضلع پلوامہ میں بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کا قافلہ جموں سری نگر ہائی وے پر محو سفر تھا کہ حملہ آور نے ساڑھے تین سو کلوگرام بارود سے بھری گاڑی قافلے میں شامل ایک بس کے قریب آکر دھماکے سے اڑادی۔ یہ دھماکا اتنا زوردار تھا کہ بس کے پرخچے اڑ گئے اور 49 بھارتی فوجی کی لاشوں کے چیتھڑے اڑ گئے۔

یہ ایک خودکش حملہ تھا جو مقامی کشمیری نوجوان عادل بٹ نے کیا۔ پلوامہ حملے میں سی آر پی ایف کی بس کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہی فورس ہے جو کشمیریوں پر پیلٹ گنز استعمال کرتی ہے اور انہیں بینائی سے محروم کردیتی ہے۔

عادل احمد ڈار کون تھا

سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو پیغام میں کشمیری خودکش حملہ آور نے اپنا نام عادل احمد ڈار بتاتے ہوئے کشمیر کی عسکری تنظیم جیش محمد کی طرف سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی۔ جائے وقوعہ سے عادل ڈار کا گھر صرف 6 کلومیٹر دور تھا۔ والدین کے مطابق بھارتی فوج کے مظالم نے عادل کے دل میں نفرت بھری، ایک روز وہ اسکول سے گھر واپس آرہا تھا کہ بھارتی فوجیوں نے اسے روکا، سرعام مرغا بنایا اور زمین پر ناک رگڑوائی۔

پھر ایک روز وہ گھر سے غائب ہوگیا اور پھر 14 فروری کو کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا خودکش حملہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ بھارتی فوج نے خود عادل کے دل میں اپنے لیے نفرت کا بیج بویا جو لاوا بن کر پھٹ گیا اور بھارتی فوجیوں کو آگ و خون کی بارش میں نہلادیا۔

حملے میں ملوث تیسرا فریق

مقبوضہ کشمیر میں وہ تنظیمیں بھی فعال ہیں جنہیں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، ان میں القاعدہ اور داعش شامل ہیں۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ حملہ تیسرے فریق کی ہی کارستانی ہے جس نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ اس نے ایک جانب تو بھارتی افواج کو نشانہ بنایا ہی، دوسرا کام یہ کیا کہ دو ایٹمی قوتوں کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔

پلوامہ حملے کا طریقہ کار بھی اس تیسری قوت کو ملوث ہونے کے امکان کو تقویت دیتا ہے اور شام، عراق و افغانستان میں امریکی افواج پر ہونے والے کار بم حملوں کی بازگشت محسوس ہوتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں کالعدم تنظیموں کی موجودگی ثابت شدہ ہے۔ مظاہروں میں ان تنظیموں کے حق میں نعرے لگائے جاتے ہیں اور ان کے کالے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ ابھی گزشتہ ماہ کی ہی بات ہے جب سری نگر کی جامع مسجد کے منبر پر بیٹھ کر نقاب پوشوں نے سیاہ جھنڈے لہرائے تھے۔

القاعدہ مقبوضہ کشمیر میں’انصار غزوہ الہند‘ کے نام سے سرگرم ہے جس کا سربراہ ذاکر موسیٰ ہے۔ ذاکر موسیٰ کا اصل نام ذاکر رشید بھٹ ہے جس کا آبائی تعلق ترال سے ہے۔ کالج میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے بعد ذاکر نے چندی گڑھ میں انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی تعلیم کو خیرباد کہہ کر واپس کشمیر آیا اور حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کرلی۔ برہان کی طرح ذاکر کی شخصیت بھی مسحور کن تھی اور سوشل میڈیا پر دونوں نوجوان خوب مقبول ہوئے۔

برہانی وانی کی شہادت کے بعد ذاکر موسیٰ نے حزب المجاہدین کی کمان سنبھالی لیکن پھر اختلافات کی وجہ سے حزب المجاہدین چھوڑ کر القاعدہ میں شمولیت اختیار کرلی۔ ذاکر موسیٰ کشمیر کو سیاسی نہیں بلکہ مذہبی مسئلہ قرار دیتا ہے جہاں وہ اسلامی نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس معاملے پر اس کے حریت رہنماؤں سے اختلافات اس نہج تک پہنچ گئے کہ اس نے انہیں قتل کرنے تک کی دھمکیاں دیں۔

اس وقت ذاکر موسیٰ بھارت کے مطلوب ترین دہشت گردوں میں سے ایک ہے۔ کشمیر میں داعش کی موجودگی بھی مسلمہ امر ہے۔ زیادہ قرینِ قیاس یہی بات نظر آتی ہے کہ پلوامہ حملہ اسی طرح کی تنظیموں میں سے کسی کی کارروائی ہے جس نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ تاہم اگر یہ حملہ واقعی جیش محمد یا حزب المجاہدین جیسی کسی تنظیم کا کام ہو تو بھی وہ مکمل طور پر مقامی کشمیری تنظیموں کی کارروائی ہے جس سے پاکستان کا کوئی تعلق ممکن نہیں۔

پلوامہ حملہ طویل عرصے کی منصوبہ بندی اور مہارت سے کیا جانے والا حملہ ہے جس نے 100 فیصد کامیابی حاصل کی؛ جس سے شاید ان مظلوم کشمیریوں کے دلوں کو ٹھنڈک ملی ہو جو روزانہ بھارتی فوجی کی فائرنگ سے شہید ہونے والے اپنے نوجوانوں کے لاشے اٹھاتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اگلے ہی روز کشمیر میں عادل ڈار کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں ہزاروں کشمیریوں نے شرکت کی۔

بھارت کو حملے کی تحقیقات میں کئی سوالات کا سامنا ہے جن میں سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ ساڑھے تین سو کلوگرام بارود کیسے اور کہاں سے حاصل کیا گیا؟ پھر سخت سیکیورٹی والے علاقے میں اس گاڑی کی نقل و حرکت نے بذات خود بھارتی سیکیورٹی فورس کی اہلیت و صلاحیت کی دھجیاں اڑادی ہیں۔

مسئلے کا حل

تقسیم برصغیر سے ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کرتے ہوئے نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھائے ہیں۔ 70 سال میں کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے کا وہ کون سا حربہ ہوگا جو اس نے نہیں آزمایا، لیکن دلیر کشمیریوں نے غلامی قبول نہیں کی؛ چاہے اس کی انہیں بڑی بھاری قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑی ہو۔

بی جے پی اور کانگریس سمیت، بھارت میں ہر سیاسی جماعت اور خود عوام کو اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا۔ 70 سال تو ہوچکے ہیں، وہ مزید کب تک کشمیریوں کو غلام بنانے کی کوشش میں ظلم ڈھاتے رہیں گے؟

کشمیری تو اپنی جانیں دے ہی رہے ہیں کیونکہ ان میں موت کا خوف ختم ہوچکا ہے۔ لیکن بھارت کو یہ سوچنا ہوگا کہ اس میں کتنی برداشت ہے، ایک حملے اور ضرب کاری پر وہ بلبلا اٹھا، ایسے مزید کتنے حملے سہ سکتا ہے؟ یہی ہوگا کہ تنازع جاری رہے گا اور ممکنہ طور پر حالات مزید خراب ہوں گے، طاقت کا استعمال مزید ردعمل پیدا کرے گا۔ کشمیریوں کی بھارت سے نفرت اور بیگانگی میں مزید اضافہ ہوگا۔

آخر امریکا کو بھی 20 سال تک افغان جنگ میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد مذاکرات کی میز پر آنا پڑا۔ بھارت بھی مذاکرات سے مسئلے کو حل کرے یا پھر کشمیر میں حقیقی استصواب رائے کرائے اور کشمیری عوامی فیصلے کو قبول کرے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔