اطاعت: بے سمتی دبوچ لے گی

زاہدہ جاوید  منگل 6 اگست 2013

ساز تیز ہو تو سرور کا کیف دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے دھن اٹھتی ہے مستی کا غلبہ چھاتا جاتا ہے۔ نشہ جب بڑھتا ہے تو خماری مدہوشی اور بڑھ جاتی ہے۔ زندگی جس جس وجود پر نازل ہوتی ہے اُس ہستی پر اپنی انتہا کی جانب سفر لاگو ہو جاتا ہے۔ ایک طلب جب دامن مقصود میں سماتی ہے تو اپنے پیچھے ایک نئی طلب کو جنم دے جاتی ہے۔ جب خیال اور نظریے کو قرطاس و آہنگ بخش دیے جاتے ہیں تو وہ ردّ و قبول اور اثبات و تنقید کی بحث کے ساتھ فکری اور مکالماتی دنیا کے اٹوٹ حصے اور لازمے کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ تیر کمان سے نکل جائے تو نشانہ لگنے یا چوکنے کے مرحلے کو مسترد کرتا ہے۔ آب خورہ پیاس کی سیرابی کا آلہ ہے مگر اسے ختم نہیں کر سکتا۔ اسی طرح دنیا میں آنے والا ہر انسان جب ایک مٹھی کھول دیتا ہے تو ابد کے لمحے تک دنیا اور جملہ اسباب دنیا مل کر بھی اس کی اس مٹھی کو بھر نہیں پاتے۔ اس لیے جو دل اپنی آنکھوں کو قناعت کرنا نہیں سکھاتے وہ مظاہر میں الجھ کر بے حال ہو جاتے ہیں۔

اُن کی چاہ کی تصویر کبھی مکمل نہیں ہو پاتی اور وہ کبھی تکمیل کی خوشی سے ہمکنار نہیں ہو پاتے۔ تکمیل، جو کہ دراصل ہر حسن کی بنیاد ہوتی ہے۔ اور حسن بذات خود ذات کا وہ اسم صفت ہے جس کا ازل سے اور ازل سے وابستہ ہر شے سے ایک فطری رشتہ ہے۔ کائنات کا کوئی مشاہدہ حسن کے بغیر ادراک کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا ۔ یہ حسن ہی کا ذائقہ ہے جس کسی بھی اکائی میں اس کی تاثیر کو جنم دیتا ہے۔ یہ حسن اوس کے ننھے قطروں کی مانند ہے جو وقت کے گرد کو نمی عطا کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کائنات کے خالق نے انسان میں جمالیاتی ذوق پیدا کیا تا کہ وہ حسن کے وسیلے سے جمیل تک پہنچے۔ لہٰذا فرد کی فراست تو اسے جب تک تکمیل کے حسن (تسکین کا وہ احساس جو مکمل پن کی خوشی سے پھوٹتا ہے) سے آشنا نہیں کرتی وہ کبھی ساغر و مینا کی گردش سے آزاد نہیں ہو پاتا۔ یہ قدرت کا وہ طلسم ہے جس کی معرفت حاصل کیے بغیر قناعت کا گُر ہاتھ نہیں آتا۔ تکمیل کا مکاشفہ ذات کو کسک اور تشنگی کی ٹیسیں نہیں چبھونے دیتا۔

ہم اپنی بُو باس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ شخصیت کی وہ لہریں جو ذات کا تاثر تخلیق کرتی ہیں، سچائی اگلتی ہیں۔ اس سچائی کو انسانی حسیات اپنی اپنی طاقت (مثبت اور منفی) کے موافق کشش کرتی ہیں۔ روحانی قول ہے ’’پرندہ اپنے غول کے ساتھ اڑتا ہے‘‘ ۔ آدمی بھی اگر اپنی ’’ہوک‘‘ کی راہ میں سفر کرتا رہے تو بالآخر اپنے ہم نفس جتھے سے جا کر جڑ جاتا ہے۔

ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح نارسائی کا کانٹا تو دل میں پال لیا جائے لیکن دل کی وہ ہُوک کسی آواز کی ہم نوائی کے سپرد نہ کی جائے جس نے ’ہُو‘ کا سبق پڑھ رکھا ہے۔ ریاضت کا تسلسل ’ہوک‘ کو ’ھو‘ کا راستہ دکھا ہی دیتا ہے اس ’ھو‘ کے اندر ایک بار اتریں تو اترتے ہی چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ ’ھو‘ خود ہی گیانی کو خارج میں دھکیل دیتی ہے۔ سانس کے نزول و صعود کے ساتھ داخل اور خارج کا یہ شغل ہی وہ واحد مصرف ہے جو ’ھو‘ کے مارے کو تسکین دیتا ہے۔ اس کی دل جوئی کرتا ہے اور اسے اپنے آپ سے جڑا رہنے کا تیقن عطا کرتا ہے۔ اُس پر کشف کا یہ نکتہ صادر کرتا ہے کہ اپنے آپ کو چھوڑو گے تو بے سمتی تمہیں دبوچ لے گی، تم بے حصار ہو جائو گے۔ اس نازک مرحلے پر ٹیلنٹ کے فساد سے بچنا چاہیے جو ہُوک کے راستے سے بھٹکا دیتا ہے۔

ٹیلنٹ بڑے خرابے کی چیز ہے یہ آدمی کے سچ کو اس کی ذات کو اور فنکار کو کھاجاتا ہے۔ دوسری جانب یہ اُس خلا کو بھر دیتا ہے جہاں سے سچے پن کی تشنگی عود کرتی ہے۔ قناعت کا یہ پہلو واضح کرتا ہے کہ ازل سے روشناس انسانی انا کی واحد چیخ مرکز سے وابستگی ہے۔ جب اس پکار کو اَن سنی کر دیا جاتا ہے تو پھر انہونی مسلط ہو جاتی ہے اور مقدر کوتاہ اندیشی کے فیصلے میں ڈوب جاتا ہے۔ ماحصل یہ کہ مرکز کا گوہر وجدان کے جس خانے میں اخفا نشین ہوتا ہے اس کا قفل ہُوک کی اس رگیدگی سے ہی ٹوٹتا ہے جو انا کی چوکھٹ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتی۔ یہاں تک منبع کی تاریں اس سے آنکھ مچولی شروع کر دیتی ہیں۔ ہُوک انھیں چھیننا چاہتی ہے مگر یہ خود آگے بڑھ کر اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ آسودگی کی یہ ملاحت انا اور حق کے اتصال سے نصیب ہوتی ہے۔

انسانی ذات کا ایک اہم راز محبت ہے جسے ہمیشہ خارج میں پانے کی جستجو کی جاتی ہے جب کہ حقیقتاً یہ مکمل طور پر داخلی معالہ ہے۔ محبت اپنا بھید ہمیشہ دل کے نہاں خانوں میں آشکار کرتی ہے۔ اس کی تلاش اپنے سالک پر یوں کھلتی ہے کہ ’وہ‘ نہ صرف یہ کہ خود محبت ہے بلکہ اُس کی بنیاد بھی محبت ہے اور بنیاد بھی وہ جو ازل سے پھونکی گئی اور جس کا انت فنا نہیں بلکہ دوام اور بقا ہے۔ محبت کی تاثیر میں ابتداً جو ایک میٹھی چبھن ہوتی ہے وہ محبت کی کھوج کے راستے پر لگاتی ہے۔ چبھن کا یہ احساس روح میں جو تھرتھلی مچاتا ہے اسے محبت کے ماروں کی بے کلی میں دیکھا جا سکتا ہے۔

محبت کی یہ ادا ہے کہ مٹی کے انسان میں سرایت کر کے بھی اپنے امتیاز کی وضع قائم رکھتی ہے۔ یہ اپنا لمس دیتی ہے اپنے ذائقے سے بھی روشناس کراتی ہے، خود سپردگی کی حد تک بھی آتی ہے لیکن مٹی کی تاثیر میں اپنی حلاوت گھول کر پھر سے امتیاز کا رنگ اوڑھ لیتی ہے۔ کھرکھری مٹی اور محبت کی لطافت و حلالت کے مابین اس ازلی کشش کو محبت کے نام سے پکارا جائے تو یہ صدا بنی نوع انسان کی فطرت کا تقاضہ بن کر سنائی دیتی ہے۔ یوں محبت، محبت کو پکارتی رہتی ہے۔ ازل سے وابستگی کے تعلق سے محبت جنگل بیابانوں میں نہیں بھٹکتی اسے زندگی، امن، روشنی، ہوا، بحالی، تسلسل، حرکت، وجود، مظہر، اکائی سے انس ہوتا ہے۔ محبت انسانی زندگی کے ہر نظام کی جڑوں میں بیٹھی ہے اور تینوں کی آزمائش کا اصل جوہر ہے۔ یہ انسان زندگی کو نفس کی آلائشوں سے پاک کر کے اسے صیقل کرتی ہے۔ تقدس، ایثار، پاسداری کے رجحانات محبت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ اگر انسان محبت کی خاطر بھی اپنے اندر جھانکنے پر آمادہ نہ ہو تو پھر مادے کی جولانیاں اسے ہوس کے راستے پر ڈال دیتی ہیں۔ کیونکہ حُب چاہ کی جادونگری میں آدم کا معاملہ خواہش کی بازیافتی نہیں بلکہ صبر، قناعت اور ہدایت کی اطاعت سے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔